اطراف اور اطراف

نسیم انجم  اتوار 18 نومبر 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ان دنوں شہر کراچی کے اطراف میں تجاوزات کا ملبہ قدم قدم پر بکھرا نظر آرہاہے۔ سائن بورڈ، دکانوں اور دوسری چیزوں کا ڈھیر، اس انتظار میں ہے کہ اسے جلد سے جلد اس کے مقام پر پہنچایا جائے۔ لیکن انتظامیہ خصوصاً کنونمینٹ بورڈ کے کارکنان اپنی ذمے داریوں کو نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں یہ تو کراچی اور اس کے اطراف کے حالات تھے۔

اس کے ساتھ ہی ممتاز اور معتبر صحافی اور شاعر جناب محمود شام کا جریدہ ’’اطراف‘‘ بھی کئی دن سے میرے مطالعے میں ہے اس وقت بھی میری نگاہوں کے حصار میں ہے اور محمود شام صاحب کی نظم تجاوزات سے منسلک ہوگئی ہے۔

محمود شام شاعری اور نثر نگاری میں اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ ان کے کالم اور ادبی و سیاسی تقریبات میں پڑھے ہوئے مضامین محفل کو کشت  زعفران بنادیتے ہیں۔ طنز و مزاح کی چاشنی اور لفظوں کی پر تاثیر ادائیگی سے حاضرین محظوظ ہوئے بنا نہیں رہتے ہیں۔

ماہنامہ ’’اطراف‘‘ بھی ان کی صلاحیتوں، تجربے اور علمیت کا نچوڑ ہے اسی لیے اس کے قارئین ہاتھوں ہاتھ رسالہ خرید لیتے ہیں۔ ماضی و حال کا نوحہ خونِ جگر سے لکھتے ہیں اور انسانیت کی لاش دیکھ کر شام صاحب کا قلم  لہو اگلنے  لگتا ہے۔ ان دنوں تجاوزات کا زور شور ہے خاص طور پر دکانداروں کی برہمی کہ ان کی پکی دکانیں توڑ دی گئیں تو دوسری طرف ایمپریس مارکیٹ کا غسلِ صحت کا قصیدہ بھی گردش میں ہے، یہ وہ ہی ایمپریس مارکیٹ ہے جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی چاروں طرف، دکانیں، پتھارے، ڈرائی فروٹ کے خوانچے، فروٹ کے ٹھیلے، شربت بیچنے والوں کی صدائیں، گوشت سے بھری سوزوکیاں اور گائے بھینسوں سے لدے ٹرک اور اس کے ساتھ مختلف پرندوں کے پنجروں سے چوں، چوں، چیں، چیں کی آوازیں گاہکوں اور راہ گیروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے کافی تھیں۔

ایمپریس مارکیٹ کا سنگِ بنیاد 10 نومبر 1884 میں رکھا گیا، اسے ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی کی وجہ سے ایمپریس مارکیٹ کہاجاتا ہے۔ یہ سرخ پتھروں سے بنی ہوئی  عمارت ہے اس کی تعمیر میں جو پتھر استعمال ہوا ہے اسے جے پور بھارت سے لایا گیا تھا۔ 21 مارچ 1889 کو کمشنر سندھ مسٹر رچرڈ نے اس کا افتتاح کیا تھا 140بلند ٹاور دور ہی سے نظر آتا ہے۔ یہ فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہے جو دیکھنے والوں کے لیے کشش کا باعث ہے اسی میں ایک گھڑیال بھی نصب ہے تجاوزات کے خاتمے کے بعد اس کا باقاعدہ غسل ہوا نہ جانے کب سے غلاظت، دھول مٹی اور کثیف دھوئیں سے اٹی ہوئی تھی اب تو کراچی میں ہم سب کے گناہوں کے باعث برسات بھی نہیں ہوتی ہے۔

کسی زمانے میں ابر باد و باراں اپنا رنگ خوب جماتا تھا تو پیڑ، پودے اور عمارتیں صاف و شفاف نظر آنے لگتی تھیں۔ ایمپریس مارکیٹ کی دھلائی کا منظر دیکھنے والوں کے لیے نہایت دلچسپی اور توجہ کا مرکز بن گیا۔ جناب محمود شام نے صاف ستھری جگہ اور کشادہ سڑکوں کے سامنے ایمپریس مارکیٹ کے قرب وجوار سے تجاوزات کو ہٹتے اور ایمپریس مارکیٹ کو وقار و تمکنت کے ساتھ ایستادہ دیکھا تو بے اختیار یہ نظم وہ لکھنے پر مجبور ہوئے:

ایمپریس ہوگئی جواں پھر سے

حسنِ باطن ہوا عیاں پھر سے

کہہ رہی ہے ہوا سمندر کی

عشق پر حُسن مہرباں پھر سے

ذہن سے بھی تجاوزات اٹھیں

غم و دانش ہوں جاوداں پھر سے

گنگنانے لگے گلی کوچے

شہر کو مل گئی زباں پھر سے

جنگلوں والے کوششوں میں ہیں

شہر ہوجائیں بے نشاں پھر سے

سامنے آگیا ہے کوئی ہدف

کھنچ گئی ہے مری کماں پھر سے

پھر بھڑکنے لگی چنگاری

سرخ ہونے لگا دھواں پھر سے

شہر اور شہر کے اطراف کا قصہ چل رہا ہے تو پھر اسی حوالے سے شہر کے مکینوں کے پچھتاوے اور اپنی کوتاہی، اسلامی تعلیم سے دوری کے نتیجے میں جو نقصان اٹھانا پڑا ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں سوائے اس کے کہ اپنے آپ کو بدل لیا جائے۔ دل و دماغ اور روح کی گہرائیوں میں بسالو، اﷲ غفور الرحیم ہے، وہ معاف کردے گا، جناب محمود شام نے اسی احساسِ ندامت کو لفظوں کے پیکر میں بڑے دکھ کے ساتھ ڈھالا ہے۔ خطائوں، لغزشوں کا اعتراف کیا ہے کہ پوری قوم صراطِ مستقیم پر چلنے کی بجائے حرص و ہوس اور طمع پرستی کے چنگل میں پھنس گئی ہے۔اور وہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب اس انداز میں ہوئے ہیں:

حضورؐ برسر پیکار ہیں آپس میں

حضور شہر ہمارے ہیں خوف میں ڈوبے

حضورؐ ہم نے صداقت کا رستہ چھوڑ دیا

حضورؐ ہم نے تعلق خرد سے توڑدیا

حضورؐ ہم نے اخوت کی خود رگیں کاٹیں

حضورؐ ہم نے زمانے کو آگے جانے دیا

حضورؐ ہم نے ہدایت کی روشنی کھودی

حضورؐ علم کا دامن بھی ہم سے چھوٹ گیا

حضورؐ ہم  کہ خطا کار بھی ہیں جاہل بھی

حضورؐ ہم یہ عنایت حضورؐ ہم پر کرم

حضور بھٹکے ہوئے حاکموں کو راہ ملے

حضورؐ فتح مقدر ہو لشکر حق کا

جناب شام صاحب کے ہر شعر میں آنسوئوں کی نمی اتر آئی ہے، ان کے کالموں یا شاعری پر نظر ڈالیں، وہ وطن کی محبت اور اسلام کی روشنی سے جھلملاتے  ہوئے نظر آتے ہیں۔ محمود شام صاحب جس پرچے کو سجاتے، سنوارتے اور سلگتے مسائل سے گرماتے ہیں تو اس کی تپش اور مضامین کی حرارت ہر ذی شعور کے افکار اور سوچ کو قوت بخشتی اور احساسات کو جھنجھوڑتی ہے، تحریر وہی کار آمد ہوتی ہے جس کا کوئی نتیجہ بر آمد ہو، تو ماہنامہ اعتراف مثبت خیالات کا عکاس بن کر سامنے آیا ہے۔

تحریک انصاف کو آئے ہوئے ابھی تھوڑا ہی سا عرصہ ہوا ہے اس نے بڑے بڑے کام کر دکھائے ہیں لیکن ملک کے دشمنوں کو وہ نظر نہیں آئیںگے۔ انھیں اپنے ہی ادوار پیارے لگتے ہیں جہاں دہشت گردی اور عدم تحفظ کے سوا کچھ نہ تھا باہر کی دنیا میں پاکستان کا اعتبار ختم ہوگیا تھا۔ پاکستانی حکمرانوں کے جامہ تلاشی لی جاتی تھی اور یہ ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے عمل سے حکومت اور ملک کو استحکام بخشا ہے اس کے برعکس مخالفین الزام تراشی کرتے ہیں۔

تو لوگ بے ساختہ قہقہے لگانے لگتے ہیں اس کی وجہ وہ اداروں کی تباہی، کرپشن اور قتل و غارت، ڈکیتی جیسے الفاظ اپنی زبان سے ادا  کرکے گویا اپنا ہی مذاق اڑارہے ہوتے ہیں۔ وہ عمران خان کے مثبت اور تعمیری امور دیکھنے سے قاصر ہیں۔تجاوزات کو ہٹانا اور ان زمینوں سے فائدے اٹھانا حکومت وقت کی اہم ذمے داری تھی جو انھوں نے سنبھالی لیکن ایک بات کا افسوس ہے کہ اس سارے عمل میں غربا اور چھوٹے پیمانے پر تجارت کرنے والے لوگ چند دنوں کے لیے بے آسرا ہوگئے۔ وہ روزکنواں کھودتے اور پانی پینے کے عادی ہیں اب جب تک کہ کوئی ٹھکانہ میسر نہیں آتا ان کے گھروں میں چولہے جلیں گے تو ضرور، لیکن ذرا مشکل سے کہ رازق تو وہی ہے جو سارے جہاں کو پالتا ہے۔

اسی طرح لوگوں کے گھروں خصوصاً پاکستان کوارٹرز کو مسمار کیا گیا تو وہاں کے رہائشیوں نے دھوم مچائی، وہ سب اس طرح جمع ہوگئے کہ جیسے میدان جنگ میں آئے ہوں اور نئے پاکستان کو برا بھلا کہنے لگے، ان کی شکایتیں بجا تھیں، وہ گھر سے بے گھر ہوئے تو شکوے گلے کرنا ان کا حق تھا۔ بہتر یہ ہوتا کہ انھیں متبادل جگہیں فراہم کی جاتیں تاکہ وہ اپنی گھر گر ہستی چند دنوں کے لیے جمالیتے، سندھ اور اندرونِ سندھ کے بہت سے سرکاری اسکول خالی پڑے ہیں، بے شمار پارک اجڑچکے ہیں اور جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔

یہ جگہیں فراہم کردی جاتیں ان سے مذاکرات کیے جاتے کہ وہ بھی انسان ہیں ، پاکستانی ہیں ، ضرور بات زندگی کے بغیر جینا مشکل ہے۔ یہ کام سندھ حکومت بھی کرسکتی تھی کہ گھروں کو برباد کرنے کی بجائے آباد رکھنے کے لیے اقدامات کرتے، بے شک آج کی تکلیف کل سب کے لیے راحت کا باعث ہوگی، چونکہ کام خلوصِ دل کے ساتھ ہورہاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔