تم خوش تو ہو نا؟

شیریں حیدر  اتوار 18 نومبر 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اس نے جماعت میں داخل ہو کر مجھے سلام کیا، اس کے بعد کلاس کی ڈیسکوں پر اپنے بیٹے کا نام تلاش کیا اور وہاں جا کر اس کا رپورٹ کارڈ اٹھا لیا۔ ’’ میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں میم؟ ‘‘ اس نے ایک طرف رکھی چند کرسیوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

اپنے بیٹے کے رپورٹ کارڈ کے ساتھ اس نے اپنے بیٹے کو کرسی پر بٹھایا اور میرے کچھ کہنے سے قبل ہی اس نے چند اور میزوں سے رپورٹ کارڈ اٹھا لیے۔ اسی لمحے ایک اور بچہ اپنے والدین کے ساتھ کلاس میں آیا تھا اور اس کے والدین کے ساتھ علیک سلیک کرنا میرا اخلاقی فرض تھا۔ میری نظر اس سے چوکی نہ تھی، میں نے اس بچے کے والدین کو اس بچے کے رپورٹ کارڈ کے ساتھ بٹھایا اور اس کی طرف گئی۔

’’ مسز خیام ، آپ ایسے نہیں کر سکتیں!! ‘‘ میںنے انتہائی تہذیب سے اس سے کہا تھا۔

’’ میں کیا نہیں کر سکتی؟ ‘‘ اس نے ابرو اچکا کر کہا، ’’ میں آپ سے پوچھ کر یہاں بیٹھی ہوں! ‘‘

’’ مگر آپ نے باقی بچوں کے رپورٹ کارڈ مجھ سے پوچھ کر نہیں اٹھائے!! ‘‘ میں نے بصد کوشش چہرے پر پیشہ ورانہ مسکراہٹ سجا کر کہا۔

’’ اگر میں پوچھتی تو آپ اجازت نہ دیتیں !! ‘‘ اس نے وثوق سے کہا تھا۔

’’ اگر آپ کو معلوم ہے کہ اس کی اجازت آپ کو نہ ملتی تو کیا ایسا کرنا جائز ہو جاتا ہے؟ ‘‘ میںنے آواز کو دھیما رکھتے ہوئے کہا۔

’’ دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا نہیں ہوتا!! ‘‘ انھوں نے دلیل دی۔

’’ دنیا کے کسی اور ملک میں اتنے چھوٹے بچوں کے امتحانات ہوتے ہیں اور نہ ہی والدین اور اساتذہ نے بچوں کے امتحانات کے گریڈ کو اپنی زندگی اور انا کا اتنا بڑا مسئلہ بنا رکھا ہے… ایسا صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے مسز خیام!! ‘‘ میںنے ان سے کہا اور درخواست کی کہ باقی بچوں کے رپورٹ کارڈز واپس رکھ دیں کیونکہ وہ دوسروں کے رپورٹ کارڈ نہیں دیکھ سکتیں۔

جانتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ اس کے مقابل باقی بچوں کے رپورٹ کارڈز اور امتحانی پرچہ جات اس لیے دیکھنا چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے سے زیادہ یا کم نمبر حاصل کرنے والے بچوں اور ان کے بیٹے کے پرچوں میں کیا فرق تھا۔ اس عمل میں اگر وہ چیکنگ کی کوئی غلطی پکڑ لیتیں تو پھر اس ٹیچر کی سختی آجانا تھی کہ اس نے ان کے بیٹے کے ساتھ نا انصافی کی۔

’’ آپ کا بیٹا ، اٹھانوے فیصد نمبر لے کر، کلاس میں دوسرے نمبر پر ہے ، اس بات پر آپ کو خوش ہونا چاہیے!! ‘‘

’’ وہ دوسری پوزیشن پر آیا ہے، پہلی پر نہیں کہ میں خوش ہوں ! ‘‘

’’ پہلی اور دوسری پوزیشن پر آنے والے بچوں میں بہت کم فرق ہوتا ہے !! ‘‘

’’ یہی تو میں چیک کرنا چاہتی ہوں … اور وہ یہ پوزیشن چار اور بچوں کے ساتھ شئیر کر رہا ہے۔اس کے علاوہ پہلی پوزیشن پر بھی چار بچے ہیں، ممکن ہے کہ ٹیچر سے کہیں مارکنگ میں کوئی نہ کوئی غلطی ہوئی ہو۔ وہی میں چیک کر رہی ہوں، کیا معلوم کہ چیکنگ کے بعد علم ہو کہ میرے بیٹے کے پیپر میں کوئی غلط مارکنگ ہو گئی ہو اور وہ سیکنڈ نہیں بلکہ پہلی پوزیشن پر ہو!! ‘‘

’’ ہم ہر ٹیچر کی چیکنگ کو تین بار مزید چیک کرتے ہیں، آپ اس کی فکر نہ کریں اور کسی ٹیچر کو آپ کے بیٹے سے دشمنی ہے نہ باقیوں سے خاص ہمدردی !! ‘‘ میں نے نرمی سے ان کے ہاتھ سے باقی بچوں کے پیپرلیے اور واپس ان کی سیٹوں پر رکھے۔

مرے ہوئے دل سے و ہ اپنے بیٹے کی رپورٹ لے کر بڑبڑاتی ہوئی گئیں۔

’’ تم خوش تو ہونا؟ ‘‘ یہ سوال آپ کسی سے بھی پوچھ کر دیکھ لیں، مجھ سمیت۔ کسی دوست سے، اپنے بھائی یا بہن سے، ماں باپ سے، شوہر یا بیوی سے… نند ، بھابی، دیورانت، جٹھانی، دیور، جیٹھ، نندوئی، خالہ خالو، ممانی ماموں، چچا چچی، پھوپھو اور پھوپھا، بہو یا داماد، ساس یا سسر… غرض اگر کوئی رشتہ اس فہرست میں مذکور ہونے سے رہ گیا ہے تو اس سے بھی۔ اپنے باس سے اور ماتحتوں سے، اپنے پاس کھڑے کسی اجنبی سے۔ کوئی شخص فقط یہ ایک جملہ پورے وثوق سے نہیں کہے گا، ’’ ہاں ، میں خوش ہوں !! ‘‘

عموما اس سوال کے جوابات اس نوعیت کے ہوتے ہیں۔’’ خوش ہی ہوں !! ‘‘

’’ خوش کس بات پر ہونا ہے؟ ‘‘

’’ خوش ہونے کے لیے میرے پاس ہے ہی کیا؟ ‘‘

ہونہہ… خوش!! ‘‘

’’ کوشش کر رہا ہوں خوش ہونے کی!!‘‘

’’ خوش ہوں تو نہیں مگر خوش ہونے کی اداکاری کر رہا ہوں !!‘‘

’’ گزارا چل رہا ہے، خوشی کا کیا ہے!!‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

خوشی تو ہم سب کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے اپنی اپنی زندگیوں کے حساب سے ۔ جس کو جو کمی ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی وقت پوری کر دی جاتی ہے۔ کسی کو زمین پر سو روپے کا گرا ہوا لاوارث نوٹ مل جائے تو اسے دیکھ کر بھی خوشی ہو سکتی ہے اور کوئی اتنا صاحب حیثیت ہو سکتا ہے کہ جسے اس سو روپے کے گر جانے سے کوئی کمی نہیں ہوئی مگر خوش وہ بھی نہیں ۔ کسی کو کھدر کا سوتی اور استعمال شدہ لباس خیرات میں بھی مل جائے تو وہ خوش ہو سکتا ہے مگر کوئی ریشم و اطلس پہن کر کمخواب کے بستروں پر بھی سوتا ہو تو ناخوش ہو سکتا ہے۔

خوشی کا تعلق اس بات سے نہیں کہ ہمیں کیا میسر ہے اور ہم پر دینے والے کا کتنا کرم ہے۔ ہم چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی خوشی اخذ کر سکتے ہیں اور بڑی سے بڑی دولت بھی ہمیں غم میں مبتلا رہنے سے نہیں روک سکتی ۔ خوشی کا جنم غالبا غم کے ساتھ جڑواں جذبات کے طور پر ہوا ہو گا اسی لیے تو کبھی خوشیوں پر غم حاوی ہو جاتا ہے اور کبھی ہم غم کے پہلو سے خوشی کو دیکھ سکتے ہیں۔

اگر کسی دوسرے کو غم میں دیکھیں ، وہاں ہماری خوشی بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہمیں کوئی غم ہو نہ ہو، دوسرے کی خوشی ہی ہمارے لیے غم بن جاتی ہے۔ خوش ہونا ہمارے اختیار میں ہے اگر ہم ان نعمتوں پر نظر رکھیں جو ہمارے پاس ہیں اور ہمارے نصیب میں، نہ کہ دوسروں کا موازنہ اپنے ساتھ کریں ۔ ایسا ہمیں کبھی خوش نہیں ہونے دیتا، بلکہ محرومی کے احساس میں مبتلا کرتا ہے۔ موازنہ وہ دیمک ہے جو خوشیوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔

ہر جذبہ اظہار مانگتا ہے اور اللہ تعالی بھی ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم بول کر اس کا شکرادا کریں ۔ بسا اوقات ہم ممنون ہوتے ہیں تو شکریہ نہیں کہتے۔ نادم ہوتے ہیں مگر معذرت کے الفاظ منہ سے ادا کرتے ہوئے جھجکتے ہیں کہ کہیں اس سے شان میں کمی نہ آ جائے۔ اسی طرح ہم خوش بھی ہوں تو سیدھا سا فقرہ، ’’ ہاں میں خوش ہوں! ‘‘ نہیں کہتے بلکہ اپنی خوشی کو دوسروں کی نظر لگ جانے کے ڈر سے پھیکا سا کر کے پیش کرتے ہیں۔

آپ خود سے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سوال کریں، اپنے دل میں خوشیوں کو شمار کریں اور خود سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں، ’’ ہاں میں خوش ہوں … ‘‘ اس کے بعد اپنے ارد گرد ہر کسی کو بتائیں، بالخصوص جن لوگوں کا وجود ، کام اور جذبات آپ کو خوش کرتے ہیں، انھیں ضرور بتائیں کہ وہ آپ کے لیے خوشی کا باعث ہیں ۔ ہر کوئی ایسا کرنا شروع کر دے تو مجھے امید ہے کہ اس سوال کے جواب میں آئندہ بہتراور واضع جواب ملے گا۔ جب کوئی کسی سے پوچھے گا، ’’ کیا تم خوش ہو؟ ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔