میری اردو

جاوید قاضی  اتوار 18 نومبر 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اردو میری مادری زبان نہیں۔ میں نے شاید دوسری یا تیسری جماعت میں اردو زبان کو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھا ہوگا ۔اس کے برعکس سندھی میں نے پہلی جماعت سے پڑھنا شروع کی، چونکہ یہ میری مادری زبان ہے تو میں نے اس زبان میں سیکڑوں مضامین بھی لکھے ۔ میری اردو زبان سے شناسائی اس وقت ہوئی، جب میری عمر لگ بھگ بیس سال رہی ہوگی۔

میرے دماغ میں اس وقت مختلف سوچوں کا جھرمٹ تھا اورکمیونزم نظریے کے خیالات آہستہ آہستہ قلب و ذہن پر دستک دے رہے تھے۔ دہقانوں کے لیے جدوجہد میرے گھرکا حصہ تھی اور پھر ان ہی دنوں میرے والدکا انتقال ہوا، ان کے جانے کے بعد مجھے یہ چیزیں اور زیادہ عزیز ہونے لگیں، جن سے ان کی وابستگی تھی۔’’ وہ صبح کبھی تو آئے گی ‘‘ ساحرلدھیانوی، امرتا پریتم کے قصے ، جینی کے مارکس کو شادی سے پہلے لکھے ہوئے خطوط ، مولانا آزاد کا غبار خاطر ، سعادت حسن منٹو ، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی ، میکسم گورکی اور تمام دنیا کا بہترین ادب ۔کیا نہیں تھا جو میرے سامنے نہ تھا ۔

سندھی ادب پڑھتے پڑھتے اردو ادب تک رسائی کی اشد ضرورت محسوس ہونے لگی پھر جب اردو ادب کو پڑھا تو وہ آہستہ آہستہ جیسے میرے دل میں اترنے لگا، لیکن آج جب میں اردو زبان کے ارتقاکو دیکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اردو اب صرف ایک مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کے پاس ایک رابطے کا ذریعہ ہے، جس سے وہ اپنے مخصوص خیالات کا اظہارکرتے ہیں ۔اس زبان کے خیالات، سوچ ، تخیل اور بیاں میں وہ ترقی نہیں ہورہی جتنی اس کی وسعت ہے یا جس انداز سے انگریزی یا پھر دنیا کی کسی اور رابطے کی زبان میں ہورہی ہے۔

پاکستان میں ابلاغ کا بہترین ذریعہ اردو زبان ہے جو لوگ انگریزی زبان کو سمجھنے، پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہیں وہ اردو زبان پر ہی انحصارکرتے ہیںاور جب اس زبان میں مختلف خیالات اور وسعتوں کی اتنی رسد نہ ہو تو پڑھنے والے ایک مخصوص زاویے کو ہی پڑھ یا لکھ سکتے ہیں۔

اب نہ کوئی سبط حسن کی ’’ ماضی کے مزار‘‘ جیسی تحریریں اردو زبان میں لکھی جاتی ہیں نہ قرۃ العین حیدرکی’’ آگ کا دریا‘‘ جیسی شاہکار تحریریں ۔ زبان و ادب پر تحقیق کرنے والے لوگ انگریزی زبان کو ترجیح دیتے ہیں، یہاں تک کہ کورٹ و دفاتر میں بھی انگریزی زبان رائج ہے۔ باقی رہا الیکٹرانک میڈیا، اخبارات یا اردو جرائد جہاں اردو زبان محدود حد تک لکھی اور پڑھی جاتی ہے ۔یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں انگریزی زبان نے اردوکے مقابلے میں اپنا تسلط قائم رکھا ہوا ہے ۔

ہم انگریزی آرٹیکلز میں سچ کو واضح اورکھلے انداز میں لکھ سکتے ہیں مگر وہی سچ اردوکالم نگاری میں لکھنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان میں مجموعی طور پر دائیں بازوکی سوچ زیادہ واضح انداز میں اجارہ داری رکھتی ہے تو غلط نہ ہوگا، جب کہ انگریزی اخبارات میں یہ اجارہ داری نسبتا کم ہے ۔ انگریزی زبان میں مضمون کو بعداز تحقیق زیادہ بہتر اندازمیں فہم ومنطق کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے جب کہ اردو زبان میں بہت سی باتیں مشاہدات کی بجائے مفروضوں پر بھی لکھی جاتی ہیں ، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ اردو زبان عام لوگوں کی زبان ہے جن کی سوچ اتنی وسیع نہیں اور وہ پڑھنا بھی وہی چاہتے ہیں جس کی ان کو غرض ہوتی ہے۔

آج کے دور میں بہت سی زبانیں بحرانوں کا شکار ہیں۔ اس صدی کے آخر تک شاید تمام اقوام کی رابطے کی زبان انگریزی ہی رہ جائے گی ۔ ساری دنیا میں سب لوگوں کو انگریزی زبان لازمی طور پر بولنی اور سمجھ میں آنے لگے گی اور اس طرح انگریزی زبان کا وسیع ہونا اور پھیلنا دوسری تمام رابطے کی زبانوں کی وسعت کو محدود کر دے گا ۔ اسی لیے اکیسویں صدی کو زبانوں کی اموات کی صدی کہا جاتا ہے۔

زبانوں کا زوال بڑی تیزی سے ہو رہا ہے اور اس کی رفتار آہستہ آہستہ مزید تیز ہوگی ۔ اردو بنیادی طور پر لشکری زبان ہے ۔ یہ زبان بہت سی زبانوں کے یکجا ہونے سے بنی ہے ۔ اس زبان نے بڑی تیزی سے ترقی کی ، اپنا مقام حاصل کیا اور اس منزل تک پہنچی ۔ سنسکرت زبان اپنے اندر ایک مخصوص گرامر اور ساختیات (اسٹرکچر) رکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ عام الفاظ کو اپنے اندر سمو نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو یا ہندی اس کا متبادل بنیں ۔ ہندی زبان میں بہت حد تک سنسکرت شامل ہے اور اردو زبان پر فارسی زبان کا گہرا اثر ہے ۔ بالکل یہی ماجرا لاطینی زبان کے ساتھ رہا جس کے بگاڑ سے انگریزی یا دوسری یورپین رابطے کی زبانیں وجود میں آئیں ۔ زبانوں کے بگاڑکو philology یعنی زبانوں کی سائنس میں زبان کی بقا سمجھا جاتا ہے ،کیونکہ جو زبانیں وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتیں، ان میں وسعت پیدا نہیں ہوتی، وہ ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ماضی کی زبانوں کا دنیا کے تیزی سے بدلنے یا ان کے بارے میں حاصل ہوتی ہوئی انفارمیشن کا اتنا تعلق نہ تھا جیسا کہ آج کے دور میں ہے۔ ہمارے کالم نگار تیزی سے بدلتی دنیا کے بارے میں کم لکھتے ہیں ۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ، اس کے بارے میں اپنے پڑھنے والوں کوکم آگاہی دیتے ہیں ۔ اردو زبان کو بندگلی میں دھکیلا جا رہا ہے ۔ جس کا اندازہ ہم انگریزی کالم نگار کے موضوع کے چنائو اور اردو کالم نگاروں کے موضوع کے انتخاب سے بڑی آسانی سے لگا سکتے ہیں ۔ اس تیزی سے بدلتی دنیا کے بارے میں اگرکم آگاہی ہمیں ملتی ہے تو وہ اردو زبان کے ذریعے ملتی ہے اور اس طرح انگریزی کالم نگاروں کا رتبہ بڑا ہو جاتا ہے۔

ایسا بھی ہوا کہ اردو اور صوبائی زبانوں میں تضادات پیدا کیے گئے جب کہ ہر زبان اپنی ایک الگ تاریخ رکھتی ہے اور ظاہر ہے کہ زبانوں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ۔ ہماری تمام زبانیں امن وآشتی کا پیغام دیتی ہیں لیکن ہماری ریاست نے جو اکثر آمریت کے شکنجے میں رہی، اپنے ایجنڈے کو مکمل کرنے کے لیے زبانوں کا استحصال کیا ۔ اس ایجنڈے کے پیچھے لسانی فسادات کو ہوا دی گئی قوموں کو آپس میں لڑوایا گیا ۔

یہ تمام عناصر اردو زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے راستوں کو تنگ کرتے ہیں ۔ یوں تو اس زبان کی تاریخ دلی سے جنم لیتی ہے لیکن آج اس کی وسعت پاکستان میں ہے دلی میں نہیں ، یہ زبان پاکستان کا لاشعور بن چکی ہے ۔ ہر زبان کا اپنا لب و لہجہ ہے اور اردوکا اپنا انداز۔ لیکن یہ حقیقتیں اردو زبان کو بحران سے نہیں نکال سکتیں ۔ ہندی زبان کی وسعت ہندوستان کے اندر کتنی ہے اس کے بارے میں مجھے اتنی آشنائی نہیں ۔کسی اور موقعے پر اس حوالے سے لکھوں گا، مگر پاکستان ہو یا ہندوستان ملازمت حاصل کرنے کے لیے انگریزی زبان کا آنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہندوستان میں بھی دائیں بازوکی سوچ ہندی زبان میں ہی زیادہ بیان کی جاتی ہے اور یقیننا ہندی زبان کو بھی وہی چیلینجز درپیش ہوں گے جو پاکستان میں اردو زبان کے لیے ہیں ۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اردو زبان میں ہر مکتبہ فکرکے خیالات کو تحریرکیا جائے۔اس وقت نہ صرف لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ دنیا میں تیزی سے بدلتے حالات اور تمام انفارمیشن کو اردو زبان کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ اس زبان کو ترقی مل سکے ۔

اس زبان میں بہت وسعت اورگہرائی ہے ۔ اسی زبان نے 1857ء سول نافرمانی کی تحریک کی قیادت کی تھی اور پھر ہندوستان کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں بھی۔ اور بالآخر 1947ء میں فتح بھی حاصل کی ۔ مرزا ہو یا میر ہو جو بھی سخن وجود میں آیا متحدہ ہندوستان میں اس کا اکثر حصہ اردو میں ہی تھا نہ کہ ہندی میں،گوکہ دونوں زبانوں میں بہت سے مزاج و رویے ایک جیسے ہیں۔آج کے بدلتے حالات اور ایک مضبوط ماڈرن ریاست کے تصورکے لیے اس زبان کو مزید وسعت دینی چاہیے۔

لاطینی زبان کے زوال کی ایک ٹریجڈی یہ بھی تھی کہ وہ کلیسا کے ہتھے چڑھ گئی اور آج تک اس کا استعمال روایت کے طور پر چرچ یا ویٹی کن سٹی میں ہی ہوتا ہے یا پھر قانون کی زبان میں، اس کی کچھ تراکیب phrases جن کو قانون کی زبان میں ’’نقادیہ‘‘ کہتے ہیں ، استعمال ہوتی ہے۔ اردو زبان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت سادہ وعام فہم قاعدہ رکھتی ہے، یہ حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتی ہے، دوسری زبانوں کے الفاظ کو آسانی سے اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اس زبان کی ترقی اور ابھرنا پاکستان کے لیے بحیثیت ایک ماڈرن ریاست اور بھی بہتر رہے گا۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔؔ

ساے جہاں میں دھوم ہمای زبان کی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔