شیخ صاحب کے گرانقدر خیالات

نصرت جاوید  منگل 25 جون 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اللہ پاک شیخ رشید احمد کو خوش و خرم اور شاد و آباد رکھے۔ ان کی برکت سے ہمارے بہت سارے اینکروں کا دھندا بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ شیخ صاحب کا بڑا پن یہ ہے کہ وہ اپنی ریٹنگ دلوانے والی قوت کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے۔ بڑے سخی دل کے ساتھ شام ہوتے ہی اپنے گھر کے ایک خاص طور پر بنائے اور سجائے کمرے میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس اینکر کو اس دن اپنے پروگرام کے لیے ضرورت محسوس ہو، وہ اس کے لیے دل و جان سے حاضر ہیں۔ بہتر ہے کہ وہاں DSNG بھیج دی جائے ورنہ وہ خود اسٹوڈیوز تشریف لے آئیں گے۔ شرط صرف ایک ہے۔

پروگرام میں صرف وہ ہوں اور اینکر پرسن۔ اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اینکر پرسن ان سے جرح نہ کرے۔ مؤدب انداز میں صرف مختصر سوال کرے جس طرح سقراط کے اِردگرد جمع نوجوان علم کی جستجو میں اُٹھایا کرتے تھے۔ شیخ صاحب خبریں بھی دیں گے اور بڑے بڑے ناموں والے سیاستدانوں کو کارٹون نما مسخرے ثابت کرتے ہوئے قارئین کا دل پشوری کر دیں گے۔ مشاہد حسین سید اکثر کڑاکے نکال دینے کا ذکر کیا کرتے تھے، شیخ صاحب اپنے پروگراموں کے ذریعے یہ کڑاکے نکال کر دکھاتے ہیں۔ خدا ان کی اس صلاحیت میں مزید اضافہ کرے تا کہ اینکروں کے گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔

میری اس دلی دُعا کے باوجود پچھلے چند روز سے مجھے دھڑکا لگنا شروع ہو گیا تھا کہ شاید شیخ صاحب اب ٹی وی پروگراموں کے ذریعے کڑاکے نکالنے کی عادت کو ترک کرنے والے ہیں۔ میرے اس خدشے کا باعث شیخ صاحب کی ذاتی تاریخ تھی۔ 1985 کے انتخابات کے بعد ابتدائی چند ماہ اس وقت کی قومی اسمبلی میں بیٹھ کر انھوں نے جونیجو حکومت کے بہت کڑاکے نکالے تھے مگر بالآخر وہ مسلم لیگی ہو گئے۔ نواز شریف صاحب جب 1997 میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے شیخ صاحب کو وزارت میں نہ لیا۔

شیخ صاحب چوہدری الطاف مرحوم کے ہاتھوں جیل جانے کے بعد سے وزیر بننا اپنا حق سمجھ رہے تھے۔ نواز شریف نے نظرانداز کر دیا تو بہت اداس ہو گئے۔ اداسی کے ان ہی دنوں میں ان سے میری سید کبیر علی واسطی نے اپنے گھر میں خاموشی سے ایک ملاقات کرائی۔ اس ملاقات میں شیخ صاحب نے تقریباً مجھے اس بات پر قائل کر دیا کہ اس وقت کے صدر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو فارغ کرنے کے بعد نواز شریف کے اپنے چل چلاؤ کے دن آ گئے ہیں۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ بس کچھ دنوں کی مہمان رہ گئی ہے۔ میں ان کی رائے سے تھوڑا اتفاق کرتے ہوئے گھر آ گیا۔

مگر چند ہفتے گزر جانے کے بعد نواز شریف اپنے عہدے پر قائم رہے اور شیخ رشید صاحب نے ان سے سمندر پار پاکستانیوں والی ایک بڑی اہم وزارت قبول کر لی۔ اس واقعے کے بعد سے میرا وسوسوں بھرا دل شیخ صاحب کے تبصروں اور تجزیوں کو سنجیدگی سے لینے کے سلسلے میں تقریباً پتھر کا بن چکا ہے۔ تبصرے اور تجزیے تو رہے، ایک طرف، میں ان کے کسی سیاستدان کے بارے میں سخت ترین الفاظ کو بھی اب سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اللہ میرے دل میں ہدایت ڈال کر اسے کشادہ کرے لیکن چونکہ ابھی تک یہ کشادگی میرے دل کو میسر نہیں آئی ہے اس لیے پچھلے کچھ دنوں سے مجھے شک ہونا شروع ہو گیا ہے کہ شیخ صاحب چپکے چپکے نواز شریف کی تیسری حکومت سے معاملات سیدھے کر رہے ہیں۔

چوہدری نثار علی خان کی ان دنوں وہ اپنے ٹیلی وژن پروگراموں اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بڑی کاریگری کے ساتھ تعریفیں فرمانا شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کو انھوں نے اسحاق ڈار سے یہ وعدہ لیا کہ وہ ان کے راولپنڈی شہر میں برسوں پہلے متعارف کرائے گئے، ترقیاتی پروگراموں کی جلد تکمیل کے لیے مناسب رقوم کی فراہمی کا بندوبست کریں گے۔ شیخ رشید کا تجویز کردہ اسپتال مکمل ہونے کی کوئی صورت بنے اور ان کے حلقے میں نالہ لئی پر ایکسپریس وے کی تکمیل کے لیے مناسب رقوم مل جائیں تو عوامی مسلم لیگ کو وسیع تر قومی مفاد میں ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ کہتے ہوئے مسلم لیگ ن میں ضم کر دینا کوئی بُرا فیصلہ نہ ہو گا۔ شیخ صاحب کی بھرپور شان اور سخت زبان ہے۔ وہ یقیناً اصولی سیاست کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے NA-56 میں غریب لوگوں کی اکثریت ہے۔ ان لوگوں کی بہتری کے لیے بنائے چند منصوبوں کی فوری تکمیل کی خاطر شیخ صاحب کمال فیاضی سے اپنی مونچھ نیچی کر سکتے ہیں۔

مگر پیر کے تاریخی دن انھوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بڑے محتاط انداز میں نواز شریف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مشرف کا مقدمہ چلاتے ہوئے وہ اپنے حقیقی مشن سے D-Track ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف صاحب جن کو شیخ صاحب نے مقدر کا سکندر بھی ٹھہرایا تھا، ان کے چند فقروں پر اپنی ہنسی پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ مجھے خبر نہیں کہ نواز شریف شیخ صاحب کی پیر والی تقریر کو کس انداز میں لیں گے۔ اگرچہ شیخ صاحب نے انھیں بڑے مہذب انداز میں یہ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ آپ کا حقیقی دوست درحقیقت وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کو وہ مشورہ دے جسے شاید آپ سننا نہ چاہتے ہوں مگر اسی میں آپ کے لیے دیرپا خیر کے امکانات بھی چھپے ہوئے ہوں۔

بہر حال چند روز انتظار کر لیتے ہیں۔کچھ دن پہلے تو نواز شریف کی تیسری حکومت آئی ہے۔ شیخ صاحب کا حلقہ بھی یہاں ہے اور وہ آیندہ پانچ سال کے لیے اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں۔ نواز شریف کی یہ حکومت ٹکتی نظر آئی تو شیخ صاحب اپنے حلقے کے لوگوں کی خدمت کرنے کے جنون میں اپنے گرانقدر خیالات کو تھوڑی دیر کے لیے بھلانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔