قومی کھیل کے مستقبل سے مایوس نہیں

میاں اصغر سلیمی  اتوار 18 نومبر 2018
چیف کوچ قومی ہاکی ٹیم توقیر احمد ڈار کا ’’ایکسپریس‘‘ کوانٹرویو۔ فوٹو: فائل

چیف کوچ قومی ہاکی ٹیم توقیر احمد ڈار کا ’’ایکسپریس‘‘ کوانٹرویو۔ فوٹو: فائل

ڈار فیملی کو ملکی ہاکی کی تاریخ میں منفرد اعزاز یہ حاصل ہے کہ پاکستانی ٹیم نے اب تک تین بار اولمپکس مقابلوں میں گولڈ میڈلز حاصل کئے،ان تینوں میگا ایونٹس میں ڈار خاندان کے سپوت گرین شرٹس کا حصہ بن کر دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرانے میں پیش پیش رہے۔

پاکستانی ٹیم نے پہلی بار روم اولمپکس 1960ء میں طلائی تمغہ حاصل کیا، منیر احمد ڈار اس فاتح سکواڈ کے اہم رکن تھے، میکسیکو اولمپکس 1968ء میں تنویر احمد ڈار نے پنالٹی کارنر سپیشلسٹ کی حثییت سے گرین شرٹس کو دوسری بار گولڈ اولمپک ٹائٹل جتوانے میں اہم کردار ادا کیا، لاس اینجلس اولمپکس1984ء میں خود توقیر ڈار قومی ٹیم کا حصہ تھے اور انہوں نے اپنے غیر معمولی کھیل سے قومی ہاکی ٹیم کو تیسری بار اولمپک چیمپئن بنانے میں اپنا حصہ ڈالا۔

منیر احمد ڈار مرحوم نے اپنے بھائی توقیر ڈار کے نام سے لاہور میں ایک اکیڈمی کی بنیاد رکھی، اس اکیڈمی کے درجنوں کھلاڑی قومی ٹیموں کا حصہ بن کر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں، منیر ڈار کے انتقال کی بعد اس اکیڈمی کی باگ ڈور اب توقیر احمد ڈار کے پاس ہے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے حال ہی میں توقیر ڈار کو قومی ٹیم کا چیف کوچ مقرر کیا ہے، رواں ماہ بھارت میں شیڈول ہاکی ورلڈ کپ ان کی پہلی اسائمنٹ ہوگی، ’’ایکسپریس‘‘ سے ایک خصوصی نشست میں توقیر احمد ڈار کا کہنا تھا کہ کہ ہمارے موجودہ کھلاڑی باصلاحیت ہیں اور دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہرانے کی اہلیت رکھتے ہیں، محمد عرفان اور راشد محمود کو باہر کے لوگ لاکھوں روپے معاوضوں کے عوض اپنی لیگز کا حصہ بناتے ہیں، یہی صورتحال ٹیم کے دوسرے کھلاڑیوں کی بھی ہے، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سالہا سال سے ہاکی کھیلنے والے کھلاڑیوں کو بھی کیا کوچنگ کی ضرورت ہے؟

سچ پوچھیں تو یہ ہمارے دور کے پلیئرز سے زیادہ اچھے کھلاڑی ہیں، ان کھلاڑیوں کو بس اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔توقیرڈار کے مطابق کہ ماضی میں کوچز کھلاڑیوں کے ساتھ سخت گیر ہیڈماسٹر کی طرح سلوک کرتے تھے، ٹیم منیجر حسن سردار کے بعد میں نے پلیئرز کے ساتھ چھوٹے بھائیوں اور بیٹوں جیسا رویہ اپنا کر ان کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ہے، اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں کہ ہمارے پول میں ہالینڈ، جرمنی اور ملائیشیا کی ٹیمیں شامل ہیں، بلاشبہ ان ٹیموں کا شمار دنیا کی بڑی ٹیموں میں ہوتا ہے، چار میں سے صرف دو ٹیمیں ہی ٹاپ آٹھ راؤنڈ میں کوالیفائی کرنے میں کامیاب رہیں گی۔

ورلڈ کپ کے اس سخت پولز کو ہی دیکھ کر ورلڈ کپ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ چیف کوچ کی نظر میں آج کی موجودہ ماڈرن ہاکی میں فٹنس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، پلیئرز کو 100 فیصد فٹ بنانے کیلئے اس شعبے پر خاصی محنت کی جا رہی ہے اور صبح اور شام کے سیشنز میں بھر پور مشقیں بھی کروائی جا رہی ہیں۔

توقیر ڈار کا کہنا تھا کہ میں اور میرے بڑے بھائی تنویر احمد ڈار بھی پنالٹی کارنر سپیشلسٹ رہے ہیں، ورلڈ کپ کے دوران ان ٹیموں کے کامیابی کے زیادہ چانسز ہوں گے جن کے پاس اچھے اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل پنالٹی کارنر لگانے والے کھلاڑی موجود ہوں گے، علیم بلال سمیت کیمپ میں موجود دوسرے پنالٹی کارنر سپیشلسٹ پر بھر پور کام کیا جا رہا ہے، امید ہے کہ پلیئرز اس شعبہ میں قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔

توقیرڈار کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا پہلا ہدف ورلڈ کپ کی ٹاپ آٹھ ٹیموں میں جگہ بنانا ہو گا، اس کے بعد کوارٹر فائنل اور سیمی فائنل مقابلوں کی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ توقیر ڈار کو اس بات کا شکوہ ہے کہ ہم نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ایمپلائمنٹ ایکسچینج بنا کر رکھ دیا ہے، جن سابق اولیمپئز کو پرکشش معاوضوں پر نوکریاں نہیں ملتیں، وہ فیڈریشن پر تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں، ماضی کے کھلاڑی اپنی ذات کی بجائے ملکی مفاد پر ترجیح دیں تو قومی کھیل کو ایک بار پھر زندہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔