غیر تربیت یافتہ پولیس اہلکار جدید اسلحہ سے لیس مجرموں کے سامنے سینہ سپر

اعجاز انصاری  اتوار 18 نومبر 2018
2013ء کے بعد آج تک فائرنگ پریکٹس ہوئی نہ ریفریشر کورس، پولیس حکام کے مراسلوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ فوٹو : فائل

2013ء کے بعد آج تک فائرنگ پریکٹس ہوئی نہ ریفریشر کورس، پولیس حکام کے مراسلوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ فوٹو : فائل

فیصل آباد: فیصل آباد پولیس کا ایک اور جوان عابد علی گزشتہ دنوں مشتبہ افرادکی فائرنگ کا نشانہ بن کر شہید ہوگیا۔

گشت ڈیوٹی پر مامور غلام محمد آباد تھانہ کے ایگل سکواڈ میں شامل اہلکاروںکی طرف سے علی الصبح مشتبہ موٹرسائیکل سواروں کو روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے، جس پر پولیس اہلکار ان کے تعاقب میں نکل پڑے، لیکن جلدی کے باعث وہ اپنی حفاظت کے لئے مناسب تدابیر بھی اختیار نہ کر سکے۔

دوسری طرف پکڑے جانے کے خوف سے مشتبہ افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چارگولیاں شہیدکانسٹیبل کے جسم میں پیوست ہوگئیں، شہید کانسٹیبل کا ساتھی اہلکار اس صورت حال کے باعث پیدا ہونے والی بوکھلاہٹ کے عالم میں جوابی کارروائی کی ہمت بھی نہ کرسکا اور نتیجتاً مشتبہ افراد موقع سے فرارہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دیکھا جائے تواس نوعیت کے مقابلے قبل ازیں بھی پولیس افسروں اور اہلکاروں کے جانی نقصان کاسبب بنتے رہے ہیں، لیکن اس کے سدباب کے لئے خاطر خواہ انتظامات نہ کئے جا سکے۔

مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث عناصرکی بیخ کنی کے لئے اپنے لئے مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر عمل میں لائی جانے والی پولیس اہلکاروں کی کارروائیوں پر اعلیٰ افسران بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں آئے روزاحکامات توجاری کئے جاتے ہیں لیکن صورت حال میں بہتری کے لئے زمینی حقائق کاجائزہ لیتے ہوئے موثر اقدامات پرعمل درآمدکی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی۔

کون نہیں جانتا کہ گشت ڈیوٹی کے بارے میں واضح ’’ایس او پی‘‘ کے باوجود پولیس اہلکارہیلمٹ تودرکنار بلٹ پروف جیکٹ بھی نہیں پہنتے، یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیںکہ پولیس کے بیشتر جوان اپنے بچاؤ اور بروقت جوابی کارروائی عمل میں لانے کے بنیادی اصولوں سے ہی آشنا نہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ نئی گاڑیوں اور تعمیراتی منصوبوں کے لئے بھاری فنڈز رکھنے والے محکمہ پولیس کے پاس اپنے جوانوں کوسالانہ بنیاد پر بھی فائرنگ پریکٹس کے مواقع بہم پہنچانے کے لئے ایمونیشن کی شکل میں گولیاں،کارتوس تک دستیاب نہیں۔

فیصل آباد ضلعی پولیس سے وابستہ جوانوںکی بات کی جائے توان کی اہلیت کا اندازہ اس امرسے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ 2006ء اور2013ء کی ’’چاندماری ‘‘کے بعدانہیں فائرنگ پریکٹس کاایک بھی موقع نہ دیاگیا۔ ایسے میں پولیس ملازمین کے حوصلے کی داد دینا ہوگی کہ نشانے بازی کی مہارت سے عاری ہونے کے باوجود بھی سماج دشمن عناصرکے خلاف برسرپیکار رہنے کے لئے اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں خدانخواستہ کوئی شہری یا ان کا اپنا ہی ساتھی نشانہ بن جائے تو محکمہ والوں کے لئے شائد یہ کوئی بڑی بات نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ فیصل آباد پولیس کے افسران نے آج تک اپنا ’’بٹ‘‘ فائرنگ پوائنٹ ہی تشکیل نہیں دیا۔ اس مقصدکے لئے ماضی میںجب بھی ضرورت پڑی تو ضلعی پولیس کے ملازمین کو پنجاب کانسٹیبلری (پی سی فور) مکوآنہ کے ’’بٹ‘‘ پر ہی لے جایاگیا۔ عرصہ درازسے کئی اضلاع کے جوانوں کی نشانہ بازی کی تربیت کے لئے اپناسینہ پیش کرتے کرتے پی سی مکوآنہ فائرنگ بٹ کی اپنی حالت اب خستہ حالی کے سبب انتہائی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ اس کے باوجودفیصل آبادپولیس کے افسران ہیں کہ انہیں فائرنگ بٹ کے قیام کاخیال آیااورنہ ہی فائرنگ پریکٹس کرانے کی ذمہ داری کااحساس ہوسکا۔

دوسری جانب اعلیٰ پولیس حکام ہیں کہ صورت حال سے آگاہی کے باوجود بھی اپنا فرض ادا کرنے کے چکر میں ضلعی پولیس کے افسران کو عملے کی فائرنگ پریکٹس کا اہتمام کرنے کے مراسلے ارسال کرتے رہتے ہیں، ایسے ہی موصول ہونے والے ایک مراسلہ کے جواب میں فیصل آباد پولیس کے ایک محررکاموقف تھاکہ مقامی استعمال کے لئے اس کے پاس دس ہزارگولیاں، کارتوس موجود ہیں جنہیں فائرنگ پریکٹس پرضائع نہیں کیاجاسکتا۔حکام کو’’چاندماری ‘‘کرانامقصود ہے تومحکمہ کے مرکزی سٹورسے اسلحہ ایمونیشن بجھوادیاجائے۔

فیصل آباد سمیت تمام اضلاع میں جاری طریقہ کارکے مطابق ہرپولیس ملازم اپنے زیراستعمال اسلحے، ایمونیشن میںکمی کا خود ذمہ دارہے۔ امن وامان کی صورت حال کو قابو کرنے کے لئے اگرکسی افسر یا اہلکارکے لئے ہوائی فائرنگ ناگزیر ہو یا جرائم پیشہ عناصرسے مقابلے میں فائرنگ کرناپڑجائے توخول پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسے چلائی گئی ہرایک سرکاری گولی کاحساب دینا پڑتاہے، ایسے میں محکمانہ بازپرس سے بچنے کی خاطرپولیس ملازمین اکثر اوقات فائرنگ سے احترازبرتتے ہیں یا چلائی گئی گولیوں کے حساب سے بچنے کے لئے فائرنگ کی اصل صورت حال بیان کرنے کے بجائے محکمہ کاکھاتہ پورا رکھنے کے لئے اپنی گرہ سے خریداری پر مجبور ہوتے ہیں۔

فائرنگ پریکٹس ہی نہیں فیصل آبادپولیس کے جوان اسلحے کی نگہداشت سے متعلقہ ’’ویپن ہینڈلنگ‘‘ کورس کے اجراکے لئے بھی ایک عرصہ سے منتظرہیں۔دہشت گردی اور اغوابرائے تاوان کے واقعات میں ملوث عناصرہی نہیں بلکہ ڈاکو،راہزن بھی دستی بموں سمیت جدید اسلحے کے استعمال کے عادی ہوچکے ہیں، دوسری جانب ایلیٹ فورس اورکمانڈوزکے سوا پولیس فورس کابڑاحصہ جدید اسلحے اور بھاری ہتھیاروں کی ساخت یا شکل تک سے واقف نہیں۔

پولیس لائن کے اسلحے سٹورمیں پڑا بہت ساگولہ بارود اپنی معیاد پوری کرنے کے سبب آثارقدیمہ کی شکل اختیارکرچکاہے،ناکارہ ہونے والوں میں 400 میں سے نصف (200)ایم کے فورگرنیڈ،82 میں سے 12 مائٹی گرنیڈ، تمام 24 کیمیکل میکس ایم،تمام19میکس ایم کے فائیو،تمام 7 تھری سی این گرنیڈ،تمام9 جمپرگرنیڈ،35میں سے 10 سی ایس گرنیڈ،25 میں سے 8فیڈرل گرنیڈاورتمام 13 ٹرپل سی این گرنیڈبھی اپنی معیاد پوری ہونے پر ناکارہ ہوچکے ہیں۔

متعلقہ حکام کی خاموشی سے لگ رہا ہے کہ انہیں نئے سازسامان کی فکرہی نہیں۔فیصل آبادپولیس میں ریفریشرکورسزکے فقدان کے سبب پولیس ملازمین جسمانی طورپربھی ان فٹ بالخصوص موٹاپے کاشکارہورہے ہیں، بڑی توند والے ملازمین کے وزن کم کرنے اور انہیںڈیوٹی کے قابل بنانے کے لئے شروع کئے گئے فزیکل فٹنس کورس بندہوئے بھی سالوں بیت چکے ہیں۔

گھیراو جلاوکی صورت حال سے نمٹنے کے لئے مکمل کٹ کے ساتھ متعارف کرائی گئی اینٹی رائٹ ٹیم کے سواپولیس لائن ریزروٹیمیں جدید سامان سے لیس نہ کی جاسکیں،ایسی بیشترریزروہائے میں نوجوان شامل کرنے کی بجائے 40\45 سال کے ’’جوانوں‘‘ سے کام لیاجارہاہے۔ لہذا ایسی صورت حال میں گشت اور ناکہ بندی ڈیوٹی پرمامورہی نہیں بلکہ چوکی تھانوں میں تعینات عملہ بھی حکام کی توجہ کامنتظرہے۔

یہ امرقابل ذکرہے کہ فیصل آبادضلع میںتعینات رہنے والے ڈی پی او،سی پی اوز،آرپی اوہی نہیں بلکہ آئی جی تک کے اعلیٰ ترین عہدوں پربھی فائز رہے ہیں لیکن کوئی اعلیٰ افسر بھی پولیس فورس کے لئے اہمیت کے حامل فائرنگ بٹ کے قیام اورچاندماری کی شکل میں فائرنگ پریکٹس کورواج دینے کی ضرورت کوعملی شکل نہ دے سکا۔

ماضی میں فیصل آبادضلع تعینات رہنے والے پنجاب پولیس کے نئے آئی جی پنجاب امجدجاویدسلیمی اس ضمن میں ضرورت محسوس کرتے ہوئے موثراقدامات عمل میں لائیںتوشائد صورت حال میں خاطرخواہ بہتری ممکن ہوسکے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔