افغان تنازعہ، چین اور امریکا

زمرد نقوی  پير 19 نومبر 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی مڈٹرم الیکشن میں ڈیموکریٹس نے ری پبلیکنز کی ایوان نمایندگان میں بالادستی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی تاریخی کامیابی ہے۔ اب امریکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں پر ڈیموکریٹک پارٹی کا مکمل کنٹرول ہو گیا ہے۔ امریکی کانگریس میں پہلی مرتبہ دو مسلم خواتین منتخب ہوئیں جس میں ایک صومالی دوسری فلسطینی نژاد ہیں۔ دو ریڈ انڈین خواتین بھی جن کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے پہلی بار منتخب ہو گئیں۔

تو بات ہو رہی ہے امریکی مڈٹرم الیکشن کی جس میں اس دفعہ پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ زیادہ ڈالے گئے۔ جس میں نوجوان ووٹروں نے بھرپور طور پر شرکت کی۔ وجہ صدر ٹرمپ کے متنازعہ بیانات اور اقدامات تھے۔ خواتین کے خلاف اہانت آمیز بیانات کے بعد امریکی خواتین ووٹرز نے بھرپور طور پر ٹرمپ کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی امریکا سمیت پوری دنیا میں شدید تنقید کا باعث بنی۔ جیسا کہ میکسیکو کے گرد دیوار تعمیر کرانا۔ امریکا میں داخل ہونے والے افراد کو گرفتار کر کے بچوں کو ماں باپ سے جدا رکھنا۔ چنانچہ ہسپانوی اور سیاہ فام لاطینی نسل کے افراد صدر ٹرمپ کے خلاف متحد ہو گئے۔

امریکا کے حالیہ مڈٹرم انتخابات نے امریکی صدر کی پوزیشن کو شدید جھٹکا دیا ہے۔ ایک طرف وہ ایوان نمایندگان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو دوسری طرف چار ریاستیں بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ اس مڈٹرم الیکشن نے امریکیوں میں سیاسی تقسیم کو مزید بڑھا دیا جس کے نتیجے میں صدر ٹرمپ کو مستقبل میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اب تک اپنے ٹیکس گوشوارے عوام کے سامنے لانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ ایوان نمایندگان میں اب ڈیموکریٹک کمیٹیوں کو اختیار حاصل ہو گا وہ نہ صرف گوشوارے بلکہ دیگر معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کر سکیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جارحانہ اور ڈرانے دھمکانے کی پالیسی عالمی سطح پر امریکا کے احترام اور وقار میں کمی کا باعث بنی ہے۔ ٹرمپ جب سے آئے ہیں انھوں نے اس کو خارجہ پالیسی کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہے ہیں۔ نہ صرف قابل ذکر بلکہ انوکھی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے صدر بننے سے پہلے کبھی کوئی عہدہ نہیں سنبھالا اور نہ ہی انھیں حکومت چلانے کا کسی بھی قسم کا کوئی تجربہ تھا لیکن قسمت دیکھیے کہ وہ اچانک اور خلاف توقع صدر بن گئے۔ ری پبلیکن پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے وہ ایک مشہور شخصیت تھے جس طرح اور بہت سی شخصیات ہوتی ہیں۔

ملک کے اہم ترین عہدے پر پہنچنے کے لیے یہ کافی نہیں ہوتا، اس کے لیے بڑی سیاسی جدوجہد کرنا پڑتی ہے، پھر بھی ضروری نہیں کہ کوئی اس بلند منصب پر پہنچ سکے۔ اسے ہی مقدر کا سکندر ہونا کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جارحانہ پالیسیاں اور پابندیاں صدر ٹرمپ جیسے شخص کے لیے ایک بہترین ہتھیار ہیں جسے صدارت سنبھالتے وقت حکومت کا کوئی تجربہ نہ تھا۔

امریکا اور اس کے یورپین اتحادی ایران پر پابندیوں کے حوالے سے شدید محاذ آرائی کا شکار ہیں کیونکہ یورپی سفارت کار کہتے ہیں کہ چیلنجز کے باوجود وہ اپنے اس ارادے پر عملدرآمد کے لیے پر عزم ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات جاری رکھنے کے لیے ہم ڈالر سے ہٹ کر کوئی میکانزم وضع کریں گے۔ جب کہ موجودہ امریکی نائب وزیر خزانہ نے کانگریس کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان پابندیوں سے بچنے کی غرض سے ایک متبادل مالیاتی نظام کی کوششیں ہمارے لیے باعث تشویش ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ٹرمپ حکومت کے ناقدین کو فکر مندی ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی کی یہ بات درست ثابت ہو سکتی ہے کہ ان پابندیوں نے ایران کے بجائے امریکا کو دنیا سے الگ تھلک کر دیا ہے۔

انھیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ ان پابندیوں سے ایران کو تو قلیل المدتی نقصانات ہوں گے جب کہ ان سے ایسے مالیاتی نظام کی تخلیق کو تقویت ملے گی جس میں امریکا کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔ سابق اوباما حکومت کی ایک اعلیٰ عہدیدار کہتی ہے کہ اس متبادل مالیاتی نظام پر پیش رفت کو مزید تیز کرنا امریکا کی حماقت ہو گی کیونکہ اس سے قومی سلامتی پر سنگین اور دورس اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کے دو سالہ دور حکومت نے عالمی سطح پر امریکا کے حالات کس قدر سنگین بنا دیے ہیں اس کے اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکی بالادستی سے چھٹکارا پانے کے لیے جلد ہی فرانسیسی صدر نے یورپین فوج کی تجویز دی ہے جب کہ چین اور روس پہلے ہی سے ڈالرسے آزاد نئے مالیاتی نظام کے حق میں ہیں۔

اس پس منظر میں چند دن پیشتر چین کے سفارت خانے میں چینی سفارت کار اسکالرز اور ماہرین نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا افغان مسئلے کو چاند پر نہیں لے جا سکتا۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس مسئلے کو سب نے مل کر حل کرنا ہے۔ خاص طور پر علاقائی ملکوں نے جب کہ امریکا چاہتا ہے کہ چین روس ایران کا اس مسئلے کے حل میں کوئی کردار نہ ہو۔ ساؤتھ ایشن اسٹڈیز کے چینی ڈائریکٹر نے کہا کہ افغان مسئلے کو خطے نے حل کرنا ہے جہاں وہ واقع ہے۔ چینی اسکالر نے کہا کہ ہم افغانستان کے ہمسائے ہیں، اس لیے اب یہ ہماری ذمے داری ہے کہ اس مسئلے کو حل کریں، چاہے امریکا چاہے یا نہ چاہے۔ ہمیں افغان مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

٭… مسئلہ افغانستان نئے سال میں آخر کار اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔