واہ رے کراچی!

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 19 نومبر 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کہیں تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو مگر کراچی شہر میں ضرور تبدیلی آرہی ہے، اب یہاں صرف ایمپریس مارکیٹ ہی نظر نہیں آرہی ہے، بلکہ ’سموگ‘ بھی نظر آنے لگا ہے، گویا کچھ مسائل حل ہو رہے ہیں تو کچھ میںاضافہ ہورہا ہے۔ اس سب کے باوجود اس شہر سے ان گنت لوگوں کی یادیں وابستہ ہیں، کراچی کی ایمپریس مارکیٹ وہی ہے جو 1889 میں مکمل ہوئی تھی اور جو قیام پاکستان کے بعد بھی عرصے تک یہاں سے گزرنے والوں کے دلوں کو بھاتی تھی، اس علاقے میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلتی دکھائی دیتی تھیں اور یہاں ’ٹرام‘ سروس سے بھی لوگ فائدہ اور لطف اٹھاتے تھے۔ یہاں گھوڑا گاڑی بھی چلتی تھی اور اس شہر کے ریڈیو اسٹیشن سے احمد رشدی کے اس خوبصورت نغمے کی صدا بھی گونجتی تھی ’’بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘‘۔

میری آنکھوں میں آج تک اس شہر کے رہائشیوں کے نظم و ضبط کے وہ مناظر محفوظ ہیں جب میں بچپن میں اپنے والد کے ساتھ کسی بس اسٹاپ پر پہنچتا تو لوگوں کو قطار میں بڑے صبر و تحمل سے کھڑے پاتا، پھر بس آتی تو نہایت اطمینان سے لوگ ایک ایک کرکے اس میں سوار ہوجاتے، کسی کو نشست نہ ملتی تو وہ کھڑا ہوکر سفر کرتا یا پھر بس سے اتر کر دوبارہ اسٹاپ پر دوسری آنے والی بس کا انتظار کرتا۔ اسی طرح سڑکوں کی صفائی دھلائی کے مناظر بھی اب آنکھوں میں محض یادگار بن گئے ہیں۔

رفتہ رفتہ اس شہر کی آبادی بڑھتی گئی اور اس بڑھتی آبادی کے ساتھ اس شہر کی خوبصورتی، رونقیں اور اس شہر کے باسیوں کا نظم و ضبط سب قصہ پارینہ بن گیا۔ لوگوں کی بے صبری، بے ہنگم ٹریفک، کچی پکی تجاوزات اور بغیر منصوبہ بندی کے یہاں لوگوں کی آمد اور اس کے نتیجے میں پروش پاتی کچی آبادیوں نے اس شہر کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا۔

آج پھر یکدم سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر ’صفائی‘ کے بعد اس شہر کی تاریخی عمارتوں نے اپنا چہرہ لوگوں کو محسوس کرایا تو اس آپریشن کے مخالفین کو بھی ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ پورے شہر میں جاری آپریشن سے شہر میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو، ایک تبدیلی تو فوراً ہی نظر آگئی کہ اس شہر میں جہاں گلیاں تو کجا مین بازاروں اور سڑکوں پر نکلنا دشوار تھا، وہاں راستے کشادہ ہوگئے۔ جب اپنی حدود سے پندرہ بیس فٹ آگے نکلی ہوئی دکانیں، پتھارے اور کیبن ہٹے تو معلوم ہوا کہ دراصل یہ سڑکیں کس قدر چوڑی تھیں۔ اگر آپریشن کے بعد دوبارہ سے یہ تجاوزات قائم نہ ہوں تو کراچی میں ٹریفک جام کا مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل غیرقانونی طور پر تعمیر شدہ شادی ہالز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں ختم کیا گیا تھا، مگر بعض جگہوں پر ان کے دوبارہ تعمیر ہونے کا بھی پتہ چلاہے۔

بلاشبہ تبدیلی کا عمل اچھا ہے لیکن اس میں کچھ غلطیاں بھی ہورہی ہیں، خاص کر کاروباری حلقوں کی جانب سے یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ ان کی قانونی دکانیں بھی اس آپریشن کی نذر ہوگئیں، جب کہ انھیں اس کا متبادل بھی نہیں دیا گیا۔ گو حکومت کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ ایسے لوگوں کو جن کے پاس قانونی ثبوت ہیں، کاروبار کے لیے متبادل جگہ دی جائے گی، مگر یہ کام آپریشن سے قبل کرنے کا تھا، اسی طرح آپریشن سے قبل دکانداروں کو اتنا وقت ضرور دینا چاہیے تھا کہ وہ اپنا کاروبار کہیں اور منتقل کرلیتے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی کاروبار محض ایک دن میں نہیں جمتا ہے بلکہ کسی کاروبار کو شروع کرنے میں بھی اچھا خاصا وقت لگتا ہے، ایسے میں اچانک سے دکانداروں کو بیدخل کرنا قابل مذمت عمل ہے۔

تجاوزات کے خلاف آپریشن کرکے راستوں اور فٹ پاتھ کو صاف کیا جارہا ہے جس کا مقصد یقیناً پیدل چلنے والے کے لیے آسانیاں فراہم کرنا بھی ہوگا لیکن اس شہر میں دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ خود شہری حکومت کی انتظامیہ کی جانب سے فٹ پاتھ پر کار پارکنگ قائم کردی گئی ہیں اور بعض اخباری اطلاعات کے مطابق یہ سب ٹھیکے پر دے کر کام ہورہا ہے اور اس میں ماہانہ کروڑوں بھتہ بھی شامل ہے۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ جب آپریشن کرکے برسوں کی قائم کاروباری دکانیں گرائی جارہی ہیں تو پھر فٹ پاتھوں، سڑکوں اور خالی زمینوں پر قائم ان نام نہاد کار پارکنگ کو بھی ختم کیا جائے اور شہریوں پر بلاوجہ پارکنگ فیس کا بوجھ بھی ختم کیا جائے۔

اسی طرح عوامی تفریح کے لیے قائم پارکس اور کھیل کے میدانوں کی بنائی گئی چار دیواریاں بھی ختم کی جائیں، کیونکہ یہاں گیٹ لگا کر ٹکٹ کے ذریعے عوام سے فیس وصول کی جا رہی ہے، کرکٹ کھیلنے والے نوجوانوں سے فیس لیے بغیر انھیں میچ بھی کھیلنے نہیں دیا جاتا۔ پارکس میں کمرشل جھولے لگا کر بھی شہریوں سے فیسیں لی جارہی ہیں، حالانکہ محلے کے پارکس میں کسی قسم کی کوئی فیس نہیں ہوتی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بھی اس قسم کے تمام عمل میں بھتہ لیا جاتا ہے، یوں یہ فیسیں جو عوام سے وصول کی جارہی ہیں وہ حکومتی خزانے میں بھی نہیں پہنچ پاتیں، اطلاعات ہیں کہ ان میں بڑی مافیا ملوث ہے۔ اس کی ضرور تحقیق ہونی چاہیے اور یہ سلسلہ ختم کرانا چاہیے۔

اسی موضوع سے منسلک ایک سلسلہ ان ناجائز قبضوں کا بھی ہے کہ جن میں عوام کی مختلف رہائشی اسکیموں پر مختلف مافیاؤں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ یوں شہریوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مکانات، فلیٹس اور پلاٹس سے محروم ہے۔ اس سلسلے میں راقم نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں تفصیل بھی بیان کی تھی، مثلاً سپر ہائی وے (سہراب گوٹھ سے آگے کی جانب) کوئٹہ ٹاؤن، بجنور ہاؤسنگ سمیت درجنوں سوسائٹیوں کی زمینوں پر افغانی اور دیگر قابض ہیں اور انھوں نے ان زمینوں پر باقاعدہ پختہ مکانات بھی تعمیر کرلیے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالتوں کی جانب سے ان قابضین کو بیدخل کرنے کے احکامات بھی آچکے ہیں مگر پولیس یا رینجرز سمیت کسی کی جانب سے بھی ان قابضین کو بے دخل نہیں کیا گیا۔

اب جب کہ پورے شہر میں ناجائز تو کیا جائز تعمیرات کو بھی اس لیے ختم کیا جارہا ہے کہ یہ شہر بہتر ہوسکے تو پھر ضروری ہے کہ شہریوں کی زمینوں پر بیٹھے ان قابضین کو بھی بے دخل کیا جائے۔ یہ ایک بہتر موقع ہے، اگر شہریوں کو ان کے اپنے مکانات، فلیٹس اور پلاٹس مل جائیں تو اس سے موجودہ حکومت کی ساکھ اور بھی بہتر ہوسکے گی اور کراچی کے عوام کا اعتماد بھی بحال ہوسکے گا۔ جس برق رفتار سے اور بلاامتیاز کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے، شہری توقع کرتے ہیں کہ ان کی ذاتی پراپرٹیوں پر جو قابضین بیٹھے ہیں، ان کو بھی بیدخل کرکے اس شہر سے واقعی تمام سماج دشمن عناصر کو لگام دی جاسکے گی۔

اس شہر کا بگڑتا ہوا ماحول بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، یہاں ٹریفک کا دھواں ہی آلودگی میں اضافے کاباعث نہیں بلکہ اس شہر سے سبزہ ختم کرکے کنکریٹ کا کلچر قائم کرنا بھی آلودگی کا باعث ہے اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور ان میں سلگتا دھواں بھی ہے، اس کچرے کو آگ لگا کر اس لیے بھی جلایا جاتا ہے کہ کچرا اٹھانے والے ٹرکوں کے پٹرول کے پیسے بچاکرکرپشن کی جائے۔ یقیناً اس شہر میں بہت بڑی بڑی مافیائیں موجود ہیں جو نہایت طاقتور بھی ہیں، مگراس وقت جس جوش و جذبے اور بھرپور قوت کے ساتھ کام کیا جارہا ہے اس سے یہ سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور کراچی ایک بار پھر سے وہی پرانا والاخوبصورت اور نظم و ضبط والا شہر بن سکتا ہے اورکوئی بعید نہیں کہ ہم بے اختیار کہہ سکیں گے ’’واہ رے کراچی‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔