دنیا بھر میں مقبول پاکستانی ٹرک آرٹ سرکاری سرپرستی سے محروم

کاشف حسین  پير 19 نومبر 2018
ٹرک آرٹ مصورپاکستان کے خاموش سفیربن گئے، مشہور شخصیات اور فنکاروں کی تصاویر پینٹ کرکے خراج تحسین پیش کیا

ٹرک آرٹ مصورپاکستان کے خاموش سفیربن گئے، مشہور شخصیات اور فنکاروں کی تصاویر پینٹ کرکے خراج تحسین پیش کیا

پاکستان میں ناقدری کا شکار ٹرک آرٹ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بن گیا ہے اور پاکستانی ٹرک آرٹ مصور دنیا کے سامنے پاکستان کا خوبصورت چہرہ پیش کررہے ہیں، شوخ چمکتے رنگوں، پھول پتیوں اور حسین قدرتی مناظر سے مزین ٹرک اور بسیں پاکستان بھر کی سڑکوں اور شاہراہوں پر رواں دواں ہیں، دیدہ زیب ڈیزائن اور رنگوں پر مشتمل یہ ٹرک چلتی پھرتی آرٹ گیلریاں ہیں جنھیں لکڑی پر کندہ کاری اور ہاتھ سے پینٹ کرکے سجایا جاتا ہے۔

پاکستان میں کئی دہائیوں سے ٹرکوں اور بسوں کو خوبصورت نقش و نگار سے مزین کیا جاتا رہا تاہم غیرملکی سیاحوں نے اس فن کو دنیا بھر میں تسلیم کرایا  پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ٹرک اور بسوں کو ذوق و شوق کے ساتھ جاذب نظر بنایا جاتا ہے اس حوالے سے وجود میں آنے والا ٹرک آرٹ بھی پاکستانی مصوروں کی میراث ہے تاہم سرکاری سطح پر اس فن کی کبھی سرپرستی نہیں کی گئی، ٹرک آرٹ نے گاڑیوں کے گیراج اور ٹرکوں کی مرمت کے اڈوں پر جنم لیا۔

رنگوں اور برش کے ساتھ جڑے ہوئے محنت کش فنکاروں نے اسے اپنے روزگار کا ذریعہ بنایا ساتھ ہی پاکستان کے حسین اور دلکش مقامات کی تصاویر نے بھی ٹرک آرٹ کے ذریعے فروغ پایا، ٹرک آرٹ نے ہی ٹرکوں کے عقب میں پاکستان کی مشہور سیاسی شخصیات، سربراہان مملکت، گلوکاروں اور فنکاروں کو بھی خراج پیش کیا، پاکستانی ٹرک آرٹ فنکاروں کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے اور دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ملکوں میں ٹرک آرٹ کو پاکستان کی شناخت سمجھا جاتا ہے اس لحاظ سے ٹرک آرٹ مصوروں کو پاکستان کا خاموش سفیر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا پاکستان کے دنیا بھر میں تعینات سفارتکاروں اور اتاشی دنیا کے سامنے پاکستان کی وہ دلکش تصویر نہ پیش کرپائے جو ٹرک اڈوں کے خاک نشین پینٹرز نے انتہائی موثر طریقے سے اجاگر کی ہے۔

ٹرک آرٹ کوبیرون ملک شہرت ملنے کے بعدپذیرائی ملی،حیدر علی

دنیا بھر میں ٹرک آرٹ کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کرنے والے پینٹر حیدر علی کراچی میں پرانا گولیمار کے ایک گیراج میں 30 سال سے ٹرکوں پر پینٹ کررہے ہیں حیدر علی کے فن پارے دنیا بھر کے آرٹ میوزیم کی رونق بنے ہوئے ہیں حیدر علی کے شاگرد بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور انھیں امریکا کی 40 ریاستوں سمیت، کینیڈا، برازیل، جرمنی، فرانس، بلغاریہ بھارت سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں اس آرٹ کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا حیدر علی کو آرٹ یونیورسٹیز میں لیکچر اور نوآموز طلبہ کی تربیت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے حیدر علی کی پینٹ کردہ بسیں، ٹرک، کاریں ترقی یافتہ ملکوں کی سڑکوں پر پاکستان کا وقار بڑھاتی نظر آتی ہیں دنیا بھر میں پھیلے مداح حیدر علی کے فن کے دیوانے ہیں۔

حیدر علی کے لاتعداد شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، حیدر علی اپنے غیرملکی شاگردوں سے تربیت کی اجرت لینے کے بجائے یہ درخواست کرتے ہیں کہ واپس جاکر اپنے ملکوں میں بتائیں کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے حیدر علی کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ٹرک آرٹ کو باقاعدہ فن تسلیم کیا جاتا ہے پاکستان میں اس فن کو بیرون ملک شہرت ملنے کے بعد پذیرائی ملی حیدر علی کے مطابق اس وقت پاکستان کی آرٹ اکیڈمیز اور یونیورسٹیاں ٹرک آرٹ پر بات تو کرتے ہیں لیکن اس کی مہارت ٹرک اڈوں تک ہی محدود ہے اس لیے ضروری ہے کہ ٹرک آرٹ کے لیے مخصوص اکیڈمی قائم کی جائے جہاں ٹرک پینٹ کرنے والے حقیقی پینٹرز اس فن کو آگے بڑھاسکیں حیدر علی نے اپنے شاگردوں اور ساتھ گروپ پھول پتی کے نام سے تشکیل دیا ہے جو ان کے ساتھ بیرون ملک جاکر گاڑیاں پینٹ کرتاہے، حیدر علی بھارت کے دورے کے موقع پر پاکستانی سفارتخانہ پر بھی نقش و نگار بنا چکے ہیں۔

شوقین مالکان اور ڈرائیور ٹرک پر پسندیدہ اشعار نقش کراتے ہیں

شوقین ٹرک مالکان اپنے ٹرکوں کے اطراف خوبصورت اشعار بھی نقش کرواتے ہیں جو ٹرک ڈرائیوروں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں، بیشتر ٹرکوں پر پاکستان کے حسین پہاڑی علاقوں کے مناظر بنوائے جاتے ہیں بعض ٹرک مالکان سربراہان مملکت، سیاسی شخصیات سمیت لوک گلوکاروں کے پورٹریٹ بنواتے ہیں تو کچھ گھوڑے، شیر، مور وغیرہ پینٹ کروانا پسند کرتے ہیں، لکڑی کے کام کے لیے ہاتھ سے کندہ کاری کرائی جاتی ہے ہنرمند کاریگر بغیر کسی مشین کی معاونت کے صرف ہاتھ سے لکڑی پر پھول بوٹے کندہ کرتے ہیں جو ٹرک کے کیبن کے اندر، باہر، پیشانی اور ٹائروں کے اطراف پر لگائی جاتی ہے اور اسے مختلف رنگوں سے مزین کیا جاتا ہے۔

ٹرک کوآرٹ سے آراستہ کرنے پر ڈیڑھسے 2 لاکھ روپے لاکھ خرچ آتا ہے

ٹرک کو مکمل طور پر آراستہ کرنے میں ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک کا خرچ آتا ہے جس میں ٹرک کی باڈی کی تیاری، پینٹ کا کام، لکڑی پر کندہ کاری اور ٹرک آرٹ شامل ہیں۔ ایک ٹرک پر بیس سے پچیس کاریگروں کو روزگار ملتا ہے۔ ٹرک پر نقش ونگار بنانے میں دو سے تین ہفتے لگتے ہیں جتنی زیادہ نفاست اور پیچیدہ ڈیزائن ہو اتنی ہی اجرت لی جاتی ہے عموماً پینٹر کو یومیہ 1500روپے اور ہیلپر کو 300سے 400روپے تک اجرت ملتی ہے۔

ہینڈی کرافٹ پر ٹرک آرٹ سے فن کونیارخ مل گیا

ٹرک آرٹ نے اب کمرشل آرٹ کی حیثیت اختیار کرلی ہے تاہم اسے کے خریدار امیر طبقے تک محدود ہیں، کراچی کے ایک ہنرمند فنکار شہزاد حسین ٹرک آرٹ کو ایک نئے رخ سے فروغ دے رہے ہیں۔شہزاد حسین صدر کے علاقے میں ہینڈی کرافٹ مارکیٹ کی پہلی منزل پر اپنی ورکشاپ میں صبح سے شام تک مختلف ہینڈی کرافٹس پر ٹرک آرٹ پینٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

شہزاد حسین کا کہنا ہے کہ ٹرک آرٹ کو فروخت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس فن کے قدردانوں کے ذوق کو سمجھا جائے دوسری جانب اس فن کو سستا فروخت کرنے کے بھی مخالف ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے بنی پینٹنگ بھاری قیمت میں فروخت ہوسکتی ہے تو ٹرک آرٹ کیوں نہیں، شہزاد قریشی نے بہت کم عرصے میں اس فن میں نام کمایا ہے ان کی بنائی چیزیں امیر گھرانوں کے ڈرائنگ رومز کی زینت ہیں اور زینب مارکیٹ آنے والے غیرملکی سیاح بھی ان کی بنائی دستکاریاں ذوق و شوق سے خرید کر لے جاتے ہیں۔

شہزاد رکشہ ، بسوں اور ٹرک کے چھوٹے بڑے ماڈلز پر ٹرک آرٹ پینٹ کرنے کے علاوہ جست کی پیٹیوں ، لکڑی کے صندوق، لالٹین، جست کے ظروف کے علاوہ مختلف اقسام کا لکڑی کا فرنیچر بھی پینٹ کرتےہیں شہزاد حسین کی ملتانی کھسوں اور کھیڑیوں پر کی جانے والی پینٹنگ پر نظر ٹھہرانا مشکل لگتا ہے اور خواتین کے یہ کھسے اور کھیڑیاں پوش علاقوں کے بازار میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں۔ شہزاد حسین پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوٹلوں اور گھروں میں فرنیچر پینٹ کرچکے ہیں اور ان دنوں امریکا میں کھلنے والے پاکستانی ریسٹورانٹ کا فرنیچر پینٹ کررہے ہیں، شہزاد نے یہ فن حیدر علی سے سیکھا اور اسے منفرد انداز سے آگے بڑھایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔