مشرف نے دہشت گردوں کو بینظیر تک رسائی دی، حتمی چالان عدالت میں پیش

مشرف نے بینظیر کی باکس سیکیورٹی کو توڑا، اعلیٰ سطح پر سازش کی،2سابق وزرائے اعظم کو سیکیورٹی دی، بینظیر کیلیے حکومت کی حمایت کی شرط رکھی، چارج شیٹ فوٹو : فائل

مشرف نے بینظیر کی باکس سیکیورٹی کو توڑا، اعلیٰ سطح پر سازش کی،2سابق وزرائے اعظم کو سیکیورٹی دی، بینظیر کیلیے حکومت کی حمایت کی شرط رکھی، چارج شیٹ فوٹو : فائل

راولپنڈي:  سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس کے ملزم سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کا حتمی چالان باضابطہ طور پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

عدالت نے اسے سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو نوٹس جاری کر کے2جولائی کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے، اسی روز ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے مقدمے کے چالان کی نقول تقسیم کی جائیں گی۔ نئے چالان میں پرویز مشرف کو بینظیر بھٹو قتل کیس کا مرکزی ملزم اور قتل میں مبینہ طور پر ملوث قرار دیتے ہوئے انھیں قانون کے مطابق سزا دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔عدالت نے ملزم پرویز مشرف کی منگل کے لیے حاضری کی معافی کی درخواست بھی منظور کر لی۔ منگل کوسرکاری پراسیکیوٹر چوہدری اظہر علی پیش نہیں ہوئے۔

جس پر عدالت نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی آفیسر ڈپٹی ڈائریکٹر خالد رسول کو حکم دیا کہ وہ ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کو یہ بتائیں کہ یہ حساس معاملہ ہے عدالت میں آئندہ تاریخ تک سرکاری پراسیکیوٹر کی تعیناتی اور عدالت میں پیشی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے وگرنہ آئندہ تاریخ پر عدالت اپنی طرف سے سرکاری وکیل نامزد کر دے گی۔ عدالتی حکم پر سٹی پولیس آفیسر راولپنڈی کی طرف سے عدالت تحریری بیان جمع کرایا گیا کہ وہ مقدمے کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر علی کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے عدالت اور عدالت سے ایئرپورٹ تک باکس سیکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں۔ 24 گھنٹے کی باکس سیکیورٹی نہیں دی جاسکتی ۔ عدالت نے سی پی او راولپنڈی کے اس جواب کو معقول قرار دیا جبکہ پراسیکیوٹر چوہدری اظہر علی نے ایکسپریس کو بتایا کہ ایک پراسیکیوٹر کے قتل کے بعد وہ کسی بھی صورت بغیر سیکیورٹی کے عدالت پیش نہیں ہوسکتے، انھیں بھی مسلسل قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ،بغیر سیکیورٹی کے مقدمے کی پیروی نہیں کی جاسکتی۔

ملزم پرویز مشرف کی طرف سے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر مقدمے کے فیصلے تک حاضری سے مستثنیٰ قرار دینے کی درخواست بھی دائر کی گئی جس پر ایف آئی اے کی ٹیم کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا گیا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے عدالت میں بیرسٹر سلمان صفدر پیش ہوئے،ڈی آئی جی سعود عزیز،ایس پی خرم شہزاد بھی عدالت میں موجود تھے۔ مقدمے کا چالان ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد رسول نے عدالت پیش کیا،اس چالان کے پیش ہونے کے بعد ملک کے اس اہم ترین مقدمے کی تفتیش مکمل ہوگئی ہے اور مزید چالان پیش ہونے کا دروازہ بھی بند ہوگیا ہے۔ آن لائن کے مطابق ایف ائی اے کے پیش کردہ چالان کے مطابق امریکی صحافی مارک سیگل کے بیان کی روشنی میں پرویز مشرف کو ملزم قراردیا گیا ہے اور وہ بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں ملوث ہیں۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے 5 سال 5 ماہ 29 دن بعد مرکزی ملزم سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو بینظیر بھٹو کے قتل میں براہ راست ملوث قرار دیتے ہوئے ان کیخلاف حتمی چالان پیش کر دیا ہے۔

مجموعی طور پر یہ چھٹا چالان ہے، اس چالان پر تفتیشی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے خالد رسول،تفتیشی آفیسر خالد رسول کے دستخط ہیں۔ تفتیشی آفیسر کی طرف سے پیش کردہ اس چالان میں پرویز مشرف کو سابق وزیر اعظم کے قتل میں براہ راست ملوث قرار دیتے ہوئے مقدمے کا مرکزی ملزم قرار دیا ہے،ان کے خلاف مجموعی طور پر چالان میں10براہ راست گواہ رکھے گئے ہیں جبکہ مقدمے کے گواہان کی تعداد117ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ،سابق ترجمان وزارت داخلہ بریگیڈیئر(ر) جاوید اقبال،2امریکی صحافی مارک سیگل، رون سسکنڈ، ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے خالد قریشی،ڈائریکٹر ایف آئی اے آزاد خان،تفتیشی ڈپٹی ڈائریکٹر خالد رسول بھی گواہان کی فہرست میں شامل ہیں۔

مقتول وزیر اعظم کے سانحہ کارساز کراچی کے بعد امریکی صحافیوں کو بھیجی گئی اس ایل میل کو بھی چالان کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں انھوں نے قرار دیا تھا کہ اگر انھیں کچھ ہوا تو ذمے دار پرویز مشرف ہوں گے کیونکہ وہ انھیں مسلسل قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔مارک سیگل نے بھی اس بیان کی تصدیق کی ہے۔چالان میں ملزم پرویز مشرف کے خلاف5نکاتی چارج شیٹ کی گئی ہے نمبر۔1بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کے بڑی سطح کی سازش مجرمانہ تیار کرنا۔ 2۔بینظیر بھٹو کی باکس سیکیورٹی توڑنا۔ 3۔ سازش کے تحت دہشت گردوں کو خود کش حملوں کے لیے مقتول وزیر اعظم تک محفوظ و آسان رسائی فراہم کرنا۔4۔دہشت گردی کا ارتکاب کرنا۔چالان میں قرار دیا گیا ہے کہ سانحہ کارساز کے بعد 2سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کوہائی سیکیورٹی فراہم کر دی گئی مگر 5خطوط تحریر کرنے کے باوجود بینظیر بھٹو کو فول پروف سیکیورٹی دینے سے انکار کر دیا گیا اور یہ شرط رکھی گئی کہ بینظیر پہلے پرویز مشرف کی حکومت کی حمایت کریں۔

چالان میں قرار دیا گیا ہے کہ مشرف اپنی حکومت کا دوام چاہتے تھے جبکہ بینظیر بھٹو نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ان کے گھر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا تھا۔ بینظیر نے پرویز مشرف کی طرف سے3نومبر کو لگائی گئی ایمر جنسی کی بھی سخت مخالفت کی تھی۔ پرویز مشرف کو خدشہ تھا کہ بینظیر بھٹو کے ہوتے ہوئے وہ اور ان کی حامی جماعتیں انتخابات نہیں جیت سکتیں، وہ حاصل کردہ حکومتی پاور کسی بھی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اس لیے بینظیر بھٹو کو گھناؤنی سازش کے تحت قتل کر دیا گیا۔چالان میں قرار دیا گیا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف اس قتل کیس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ چالان میں وزارت داخلہ کے سابق ترجمان بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کے اس بیان کو بھی حصہ بنایا ہے۔

جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے فوری بعد اس کی ذمے داری طالبان پر ڈالنے،موت گاڑی کے لیور سے واقع ہونے کی پریس کانفرنس انھوں نے پرویز مشرف کے حکم پر کی تھی۔ اس کا مقصد تھا کہ سابق وزیر اعظم کے قتل کی ذمے داری حکومت وقت سے ہٹائی جائی اور پرویز مشرف کو اس قتل سے بیگناہ قرار دلایا جائے۔ سابق ڈی جی آئی بی اعجاز شاہ کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ پرویز مشرف بینظیر بھٹو کی سرگرمیوں سے تنگ تھے اور انھوں نے قتل کے فوری بعد صدارتی کیمپ آفس راولپنڈی میں اجلاس بلاکر اس بابت پریس کانفرنس کے احکام جاری کیے تھے۔

چالان بھی یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ ابھی اس قتل کی تفتیش شروع ہوئی تھی نہ ہی پنجاب حکومت نے تفتیش کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی تھی کہ پرویز مشرف کے حکم پر قتل کی ذمے داری طالبان کمانڈر بیت اللّہ محسود پر ڈال دی گئی۔ملزم پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے رابطے پر ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے چالان میں کوئی نئی بات نہیں، سب گھسی پٹی باتیں ہیں۔ میں نے2عینکیں تبدیل کر کے چالان کو بار بار پڑھا ہے مگر اس کے باوجود مجھے کوئی نئی چیز یا ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔ انھوں نے کہا کہ سابق صدر پر الزامات محض کتھا کہانیاں ہیں جنھیں عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیس سے پرویز مشرف باعزت بری ہوں گے، ہمیں آزاد عدالتوں پر مکمل اعتماد ہے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ عدالتیں ثبوت مانگتی ہیں کہانیاں نہیں، یہ الزامات صرف سیاسی انتقام ہے۔ دوسری جانب تفتیشی ٹیم کے سینئر رکن اور پراسیکیوٹر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے چالان محنت سے تیار کیا ہے ،تمام ٹھوس شہادتیں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں اور گواہان مضبوط ہیں۔ہمارا کیس قانونی طور پر بہت مضبوط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔