پیوند زدہ جوتے اور کشکول

سعد اللہ جان برق  منگل 20 نومبر 2018
barq@email.com

[email protected]

یہ وقت کہانیاں بہت پرانیاں جوسناتی تھیں نانیاں اپنی زبانیاں، کا تو بالکل بھی نہیں ہے کہ ہر طرف  سے کچھ نیا نیا نویلا نویلا ہو رہا ہے، جب پورا ملک ہی ’’ نیا نکور ‘‘ ہو گیا ہو تو اس میں پرانی کہانیاں سنانا کچھ اچھا نہیں لگتا، یہ بالکل ایسا ہی لگنے لگا  ہے جیسے کوئی نئی قمیص میں پرانی جیب لگا دے ۔ یا نوجوان دلہن کے لباس میں کسی  بڑھیا کو بٹھا دیا جائے ۔لیکن کیا کریں عادت بھی تو بہت بری چیز ہے ۔ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ۔

یہاں تک کہ کشکول بھی ’’ نیا نکور ‘‘ کیونکہ وہ پرانا کشکول جس میں ستر سال سے ’’ درد کے پیوند ‘‘ لگائے جا رہے تھے، آخر کار بعد از خرابی بسیار کہیں دور بار پھینک دیا گیا کیونکہ وہ کم بخت بار بار پھینکنے ٹوٹنے اور پھر ٹانکے لگنے سے ’’ عبد الکریم کے جوتے ‘‘ ہو گیا تھا ۔

اب عبد الکریم کے جوتوں کی بات کریں گے تو کہانی تو ہوگی لیکن ہم کوشش کریں گے اسے کسی نہ کسی حد تک پاکستان کی طرح ’’ ری کنڈیشن ‘‘ یا ری سائیکلنگ کرکے پیش کریں۔ عبد الکریم پرانا تو شاید بغداد میں تھا یا دمشق میں یا مصر و استنبول میں ۔ لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے، عبد الکریم تو جہاں کا بھی ہو عبد الکریم ہی ہوگا اور اس کے ’’ جوتے ‘‘ اسی کے جوتے ہوں گے ۔ اور اس میں پیوند بھی ویسے ہی ہوں گے جیسے کشکول لکڑی، مٹی، لوہے، سلور، سونے یا اسٹین لس سٹیل کا بھی ہو تو کہلائے گا کشکول ہی، بیلچہ، ہل ،کدال نہیں بن جائے کہ کسی اور ’’ کام کا ‘‘ ہو جائے، مانگنے کے لیے بنا ہے اور مانگنے ہی کا کام اس سے لیا جائے گا ۔ہماری تحقیق کے مطابق تاریخ میں صرف ایک ہی کشکول ایسا گذرا ہے جس نے اپنا جدی پشتی اور خاندانی کام ’’ بھیک ‘‘ کے علاوہ کچھ اور بھی کیا تھا ۔ لیکن وہ کام بھی کشکول نے نہیں پیر بابا نے کیا تھا ۔ یہ تو معلوم نہیں کہ وہ پیر بابا کون تھے لیکن پیران صاحبان بھی اپنے کشکولوں کی طرح سب ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، اس لیے آپ کوئی بھی پیر فرض کر لیجیے اور اگر پیر کی کرامات کے راوی ان کے مرید ہوں تو ،پھر ۔ پیران نہ می پرند مریداں می پرانند

وہ پیر صاحب اپنے ’’ بالک ‘‘ کے ساتھ ہندوستان تشریف لے گئے ،ایک دن اس کا بالک کسی کام سے بازار گیا تھا، وہاں کسی ہندوکی سادھو کی اس پر نظر پڑ گئی ۔

یہ ’’ بالک ‘‘ لوگ تقریباً ہر پیر کے ہوا کرتے تھے، فارسی اور اردو شاعری میں اسے ’’ شاہد‘‘ کہا گیا ہے ۔ جیسے

اسد اللہ خاں تمام ہوا

اے دریغا وہ رند شاہد باز

یا اصل شہود شاہد و مشہود ایک ہے

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

یا بقول حافظ شیرازی

من نہ آں رندم کہ ترک ’’ شاہد ‘‘ و ساغر کنم

محتسب داند کہ من یک کار ہا کمتر کنم

شاہد در اصل ایک خوبصورت اور خوشنما طفل نازنین ہوتا تھا جسے دیکھ کر ’’ اہل معرفت ‘‘ ’’ شاہد ہستیٔ مطلق ‘‘ کا تصور قائم کرتے تھے۔ محمود غزنوی نے ایسا ہی شاہد مسمی ایاز رکھا ہوا تھا اورہمیشہ  اپنے ساتھ رکھتا تھا اورایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے لیکن بعد میں بیچارے کو شاید ’’ بال جھڑ ‘‘کا مرض ہو گیا تھا، اس لیے علامہ نے کہا ہے کہ

نہ و ہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم رہا زلف ایاز میں

ان پیر صاحب کے بالک پر اس ہندو سادھونے بھی ’’ اچھی نظر ‘‘ ڈالتے ہوئے پٹانے کی کوشش کی لیکن بالک کے انکار کرنے پر سادھو نے اسے ’’ شراپ ‘‘ دیا کہ تم صبح تک مر جاؤ گے ۔ یہ بات بالک نے پیر صاحب سے کہی ۔ پیر صاحب نے جلال میں آکر اپنے کشکول کو زمین پر الٹا رکھتے ہوئے کہا کہ رات کو میں نے کشکول کے اندر قید کر دیا ہے، اب دیکھتا ہوں کون مائی کا لال ’’ صبح ‘‘ کرتا ہے۔ جب صبح نہیں آرہی تو رات دنوں ہفتوں اور مہینوں لمبی ہوتی چلی گئی، سارا شہر یہاں تک کہ بادشاہ تک حیران و پریشان ہوگئے ۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اصل کہانی تو پاکستانی کشکول ۔ سوری عبدالکریم کے جوتوں کی تھی دراصل ہمیں ان دونوں میں غلطی اس لیے لگ جاتی ہے کہ عبد الکریم کے جوتوں میں اتنے پیوند لگے تھے کہ ان کا وزن بڑھتا گیا اور وہ اس بھاری کشکول سوری جوتوں کو بمشکل گھسیٹ کر چلتا تھا ۔

پھر تنگ آکر اس نے ایک دن ان بھاری پیوند لگے جوتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا، اب آگے ان جوتوں کا کردار بہت لمبا ہے، ستر سال سے بھی لمبا ۔ کہ عبدالکریم اسے پھینکتا تھا اوروہ ہر پھر کر پھر اس کے پاس آجاتے تھے کیونکہ جس کسی کا نقصان ان جوتوں کی وجہ سے ہوتا ، وہ ان مشہور عالم جوتوں کو لے کر ’’ قاضی ‘‘ کے پاس جاتا۔ قاضی مالک  سے اس نقصان کی بھرائی کرواتا اورعبد الکریم کو وارننگ دیتا کہ اپنے جوتے اپنے قابو میں رکھ ورنہ ۔ لیکن اس ورنہ کے بعد بھی ورنے آتے رہے اور عبدالکریم ’’ سود ‘‘ سوری جرمانے بھرتا رہا یہاں تک کہ گھر کی قرقی تک نوبت پہنچ گئی۔بچوں نے تو اس کہانی سے سبق لیا ہوگا لیکن بوڑھے طوطے آخری عمر میں کیا سیکھ سکتے ہیں ویسے ہی ’’ نرکل ‘‘ پر بیٹھتے اور اپنا آموختہ دہراتے رہیں گے ۔ اور کھیت کا مالک انھیں بار بار بیچتا رہے گا ۔

سوبار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے

پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔