والد کی سائیکل پر اسکول جانا ابھی تک نہیں بھولا، جنرل (ر) عبدالقیوم

غلام محی الدین  بدھ 26 جون 2013
زرداری کا دورِحکومت آمریت سے بہ ہرحال بہتر تھا، بی بی صدقے خیرات پر بہت یقین رکھتی تھیں، جنرل (ر) عبدالقیوم فوٹو : فائل

زرداری کا دورِحکومت آمریت سے بہ ہرحال بہتر تھا، بی بی صدقے خیرات پر بہت یقین رکھتی تھیں، جنرل (ر) عبدالقیوم فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  بادشاہان کا قصبہ سطح زمین سے تقریباً پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

پندرہ بیس سال ہوتے ہیں اس قصبے میں داخل ہونے کے لیے ایک بلند ٹیلہ سر کرنا پڑتا تھا، اسے مقامی زبان میں ڈھکی کہا جاتا ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے سواں گزرتا ہے، اسی قصبے میںجنرل (ر) عبدالقیوم پیدا ہوئے۔ ان کے والد صوبے دار حاجی بشیر احمد علاقے کی معروف شخصیت تھے۔ وطن عزیز کے دفاع کی تڑپ ان کے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ ان کے بزرگوں نے اپنی عسکری زندگی میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔

جنرل عبدالقیوم کے پردادا کا نام دہلی کے دروازے پر ابھی تک لکھا ہوا ہے، جو اس زمانے میں بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی۔ جنرل صاحب کی تاریخ پیدائش 18 جنوری 1946 ہے۔ آٹھ بہنوں اور تین بھائیوں میں ان کا چھٹا نمبر تھا۔ بڑے بھائی آپ کی پیدائش سے قبل بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے۔ معاشرے میں بیٹے کی پیدائش پر غیر معمولی خوشیاں منائی جاتی ہیں، اسی طرح جنرل صاحب کی ولادت پر بھی روایتی خوشی منائی گئی مگر اُس وقت کون جانتا تھا کہ فوجیوں کے گھرانے میں جنم لینے والا یہ بچہ ایک دن شہرت کی بلندیوں کو چھو ئے گا۔ پانچ سال کی عمر میں اسکول داخل ہوئے۔ حافظہ ایسا بے مثال ہے کہ انہوں نے اسکول میں داخلے کے لیے جو ٹیسٹ دیا تھا وہ انہیں آج بھی یاد ہے۔

جنرل صاحب کی ہم شیرہ کے بقول’’ بچپن میں قیوم اپنے ہم عمر بچوں سے بالکل مختلف تھا، اسکول بہت شوق سے جایا کرتا تھا، کبھی ناغہ نہ کرتا‘‘۔ دوسری جماعت میں انہیں تعلیمی کیریئر کا پہلا انعام ملا۔ اس زمانے میں اسکولوں میں تقریری مقابلے منعقد ہوتے تو بچوں کے والدین کے علاوہ گاؤں کے سرکردہ افراد بھی بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اسکول آیا کرتے تھے۔ پرائمری کے اساتذہ میں ماسٹر فدا، ماسٹر نجیب اور ماسٹر غلام محمد صاحبان انہیں اب تک یاد ہیں۔ پانچویں جماعت میں تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ اللّٰہ کو پیاری ہو گئیں۔

’’ماں کی وفات سب سے بڑا صدمہ ہوا ، اور یوں بچپن دل دوز آشوب میں بدل گیا، اس وقت میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا، سب سے چھوٹا تھا لیکن صبر میںسب سے بڑا نکلا‘‘۔ ان دنوں، مڈل پاس کرنے کے بعد بادشاہان کے طالبانِ علم ہائر کلاسز کے لیے سات آٹھ کلومیٹر دور ہسولہ گاؤں میں داخلہ لیا کرتے تھے، ’’میں نے بھی نویں کلاس میں ہسولہ ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ بادشاہان اور ہسولہ کے درمیان دو بڑے بڑے برساتی نالے پڑتے ہیں، برسات کے دنوں میں طلبا کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو جاتی تھیں، گاؤں کے دیگر لڑکوں کے ساتھ پیدل اسکول جاتا اور پیدل ہی واپس آتا البتہ والد صاحب کی سائیکل پر اسکول جانا ابھی تک نہیں بھولا تاہم وہ سائیکل کبھی کبھی دست یاب ہوتی تھی‘‘۔

جنرل (ر) عبدالقیوم نے سابق دورِ حکومت سے متعلق بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا ’’اگر ایک جملے میں کہوں تو یہ کہ بہت ہی خراب دور تھا لیکن آمریت سے بہ ہرحال بہتر تھا، اس دور میں معاشی تباہی اور امن و عامہ کی خرابی سے بہت زیادہ جانی اورمالی نقصان ہوا مگر کچھ باتیں حوصلہ افزا بھی تھیں مثلاً آمریت کی راہ ہم وار نہ ہو سکی، میڈیا کوآزادی ملی، عدلیہ کا وقار بڑھا، قانون سازی کا عمل اتفاق رائے سے آگے چلا، آئین کی اصل شکل بہ حال ہوئی، گوادر پورٹ اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر جرأت سے کام لیا گیا۔

ماضی کی اتحادی حکومت دراصل این آر او کی پیداوار تھی، جب منتخب نمائندوں نے ایک متنازع شخصیت کو صدر چنا تو بدعنوانی اور لوٹ مار کی سبیل لگ گئی۔ دو سابق وزراء اعظم نے ملک کو کھوکھلا کر دیا، ایسی حرکتیں کییں کہ عدالت عُظمیٰ کو متعدد بار از خود نوٹس لینا پڑا۔ پارٹی میں رضا ربانی جیسے دیانت دار لوگ بھی موجود تھے مگر ان کو دانستہ پیچھے رکھا گیا۔ آپ اس حکومت کے آخری دن دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح چھٹی والے دن بھی لوٹ مار جاری رہی، ہم 6 ہزار ارب روپے کے بجائے پانچ سال میں 13 ہزار ارب کے مقروض ہوگئے، توانائی کے بحران نے ملک کو اندھیروں میں ڈبو دیا۔ صرف ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ سیاسی بدلے چکانے کے لیے لوگوں کو جیلوں میں نہیں ڈالا گیا۔

فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں؟ اس پرجنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا ’’ فوج حکومت کا ایک سنجیدہ اور نہایت اہم حصہ ہے، تمام ممالک اپنی افواج سے ’’اِن پٹ‘‘ ضرور لیتے ہیں، امریکا میں بھی پینٹاگان کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہ رہا ہوں کہ ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں ہر وقت کسی نہ کسی خلا کے باعث ملک مسائل کے نرغے میں ہوتاہے، ایسے میں فوج اور دیگر اداروں سے مشاورہ لینا گناہ نہیں‘‘۔ فیصلوں میں فوج سے رہ نمائی کی ضرورت نہیں ہوتی! اس پر ان کا کہنا تھا ’’ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ وزیراعظم اہلیت کا حامل ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف ہمیشہ اُس کی جیب میں ہوتا ہے۔ جنرل مشرف کی جگہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ غلط نہیں تھا‘‘۔

’’اب جنگیں بغیر لڑائی کے لڑی جاتی ہیں، بھارت ہم سے کہیں بڑی طاقت ہے لیکن لڑنے کی بجائے وہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات ضروری ہیں، میں واضح کر دوں کہ یہ فوج پر الزام ہے کہ وہ بھارت سے اچھے تعلقات نہیں چاہتی، حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج تعلقات میں بہتری کی خواہاں نہیں‘‘۔

اسٹیل مل کی کہانی سناتے ہوئے کہا ’’جنرل مشرف نے جب مجھے پاکستان اسٹیل مل میں چیئرمین کے عہدے پر تعینات کرنا چاہا تو میں نے دو شرطیں رکھیں، پہلی یہ کہ میرے کام میں مداخلت نہیں ہو گی، دوسری یہ کہ بدعنوان وزراء کے خلاف صدر میرے ساتھ کھڑے ہوں گے، دونوں شرطیں مان لی گئیں، اُس وقت میری مرحومہ بیوی بیمار تھیں لیکن ملکی مفاد اور اسٹیل مل کو خسارے سے نکالنے کو چیلنج سمجھ کر میں چلا گیا۔ سب سے پہلے میں نے یونین کو اعتماد میں لیا، اور ہر دباؤ کا مقابلہ کیا۔

ایک بار اُس وقت کے وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار میرے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے 130 آدمی پانچ چھے سال پہلے مل سے نکالے گئے تھے، اُن کو بہ حال کرکے بقایا جات ادا کیے جائیں، میں نے انکار کر دیا کیوںکہ یہ تمام لوگ گھناؤنے جرائم میں ملوث رہے تھے، دوسرے دن مجھے ایوان صدر سے طارق عزیز کا فون آیا کہ ہماری ایم کیو ایم کے ساتھ ایک ’’پیکیج ڈیل‘‘ ہوئی تھی، اس کے تحت صدرِ نے اِن افراد کو بہ حال کرنے کا آرڈر جاری کردیا ہے، میں نے طارق عزیز سے کہا کہ انہیں بہ حال کرنا نہ کرنا میرے اختیار میں ہے، صدر کے نہیں، اِس پر ’’وہاں‘‘ بہت شور مچا لیکن میں ڈٹا رہا، یہ سیکڑوں کہانیوں میں سے محض ایک مثال ہے‘‘۔

’’ مجھے اسٹیل مل کی نج کاری پر نہیں، نج کاری کے طریقۂ کار پر اعتراض تھا۔ جب میں اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ میں گیا تو بیرسٹر کمال اظفر کو اپنا کو وکیل لیا، اُن کی فیس پانچ سے سات لاکھ کے درمیان طے ہوئی لیکن مجھے ایوانِ صدر سے کہا گیا کہ میں حفیظ پیرزادہ، وسیم سجاد یا شریف الدین پیرزادہ کو وکیل کروں اور ان کو فی کس35 لاکھ روپے سے اوپر فیس بھی ادا کروں، میں نے صاف انکار کردیا، اُس رات میں نے جب تنہائی میں سوچا کہ اِس معاملے پر کہیں نج کاری کے خلاف میرے موقف کو ہی نہ لپیٹ دیا جائے تو میں نے طوعاً کرھاً ایوانِ صدر کے کہنے پر اِن لوگوں کو وکیل مقرر کر دیا تاکہ اِن لوگوں کو کسی قسم کا شک نہ رہے۔

ابھی یہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا کہ وکلا کی فیسوں کے ساٹھ لاکھ روپے سے اوپر بل مجھے بھجوا دیے گئے، میں نے جواب دیا کہ اسٹیل مل سات لاکھ سے اوپر فیس ادا نہیں کرے گی، اس پر حکومت مجھ سے سخت ناراض ہوگئی۔ اس وقت ملک بھر میں مشہور ہو گیا کہ میں بہت زیادہ دباؤ کے باعث بیمار ہو گیا ہوں تاہم یہ صحیح نہیں، سپریم کورٹ جانے سے ڈیڑھ دو ہفتے پہلے ہی میرے بائیں بازو میں درد اُٹھا، آغا خان ہسپتال نے مجھے فوری اینجیو گرافی کا مشورہ دیا، میں نے انہیں بتایا کہ اگر اینجیو گرافی کرانی ہے تومیں راول پنڈی میں فوج کے اسپتال ’’اے ایف آئی سی‘‘ کو ترجیح دوں گا، چند ہی دن بعد مجھے حکومت نے اسلام آباد میں ایک اجلاس کے لیے طلب کیا، میں نے درد کی شدت ہی میں کراچی سے لاہور تک کا سفر کیا۔

شریف الدین پیرزادہ میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے، میں نے انہیں بتایا کہ میرے بازو میں درد ہے اور طبیعت بھی ٹھیک نہیں لیکن انہوں نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو سمری بھجوائی ہے، اس سے تو حکومت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا، میں نے کہا میں غلط بیانی سے کام نہیں لوں گا، یہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ اِس کا دفاع کریں، میں نے صاف الفاظ میں انہیں کہا کہ میں نے صبح اے ایف آئی سی میں جا کر اپنا اینجیو گرافی ٹیسٹ کرانا ہے، آپ باقی کے معاملات خود دیکھیں لیکن وسیم سجاد اور شریف الدین پیرزادہ اڑ گئے اور کہا کہ انڈوسیڈ ساتھ رکھ لیں اور ہمارے ساتھ عدالت میں پیش ہوں، یہ سفاکی کی حد تھی، خیر میں شام تک عدالت عظمیٰ میں موجود رہا،

عدالت میں مجھ سے چیف جسٹس صاحب نے صرف اتنا پوچھا تھا کہ آپ کو اسٹیل مل کی نج کاری پر تحفظات ہیں؟ میں نے جواب دیا ’’ جی! بالکل ہیں‘‘ انہوں نے پوچھا ’’آپ نے اِس ضمن میں خط لکھا تھا؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ اُس کی کاپی آپ نے مہیا کیوں نہیں کی؟ میں نے کہا کہ وہ ایک کانفیڈینشل لیٹر تھا اس لیے مناسب نہیں سمجھا، انہوں نے کہا عدالت عظمیٰ سے کوئی چیز چھپی نہیں ہونی چاہیے، خط کی نقل ریکارڈ پر لائیں، میں نے عدالت کو بتایا کہ خط کی نقل میں وسیم سجاد صاحب کو فراہم کر دوں گا ،یہ آپ تک پہنچا دیں گے۔ عدالت کے اندر میرے بازو میں درد کی شدت بہ دستور قائم تھی، ڈیڑھ دو گھنٹے بعد جب میں فارغ ہوا تو سیدھا ’’ اے ایف آئی سی‘‘ پہنچا وہاں میری اینجیو گرافی ہوئی، اینجیو گرافی ٹیسٹ میں میرے دل کی تین شریانیں بند ملیں، فوری طور پر سٹنٹس ڈالے گئے۔

اُن دنوں میں سوچ رہاتھا کہ قوم مجھ پر اُنگلی اٹھائے گی کہ میں بدعنوانوں کے ساتھ مل گیا ہوں، اِس پریشانی میں حکومت کے تقاضے بڑھتے رہے کہ فلاں وکیل کو اتنی فیس دو، یہ کرو، وہ نہ کرو، پھر جنرل پرویز مشرف کے ایک سیکریٹری نے فون کرکے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ اعلیٰ عدالتوں کے ججز سے ملے ہوئے ہیں؟ میں نے اس سے کہا کہ جنرل مشرف کو بتا دو کہ یہ سوال میرے لیے گالی کا درجہ رکھتا ہے۔ بہ ہرحال اللہ نے مجھے سرخ رو کیا۔ میں دباؤ میں نہ آیا تو دل فریب ترغیبات سے کام لیا گیا۔

ایک بار پاکستان سٹیل مل کے بورڈ کی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے تب کے زیراعظم شوکت عزیز نے کہا کہ جنرل عبدالقیوم جیسے ایمان دار آدمی اس ملک میں بہت کم ہیں، انہوں نے مجھے براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے لیے ہمارے پاس اور بہت سے ایسے عہدے موجود ہیں جن پر آپ کی خدمات سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، اِس لیے اگر ہم فوری طور پر اسٹیل مل کی نج کاری کر دیں تو کیسا رہے گا؟

میں نے کہا کہ جو کچھ آپ نے مجھ سے کہا یہ میری توہین کے مترادف ہے، میں ان لچھے دار باتوں میں آنے والا نہیں، میں بڑے وثوق سے یہ بات کہ رہا ہوں کہ نج کاری کا حتمی فیصلہ جنرل پرویز مشرف کا ہی تھا، ممکن ہے شوکت عزیز نے ہی جنرل پرویز مشرف کو بہکایا ہو۔ ان ہی دنوں مجھے یہ بھی علم ہوا کہ مل خریدنے کے لیے بھارت کا متل نامی سرمایہ کار سرگرم عمل ہے، اِس کے نام کا ذکر میں نے صدر کو لکھے خط میں بھی کیا لیکن کسی نے میری نہ سنی البتہ سپریم کورٹ نے یہ قومی اثاثہ بچالیا۔

*

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے 1966 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا، اپریل 1968 میں آرٹلری رجمنٹ میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ شمولیت اختیار کی۔ اکتوبر 1968 میں لیفٹیننٹ، نومبر 1969 میں کیپٹن، دسمبر 1972 میں میجر، اپریل 1983 میں لیفٹیننٹ کرنل، 1989 کے اوائل میں بریگیڈئر اور ستمبر 1994 میں میجر جنرل کے مدارج طے کرتے ہوئے وہ مارچ 1999 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور جنوری 2004 میں فوج سے ریٹائر ہوگئے۔ فوج میں سروس کے دوران مختلف انسٹرکشنل اور کمانڈو اسٹاف کے عہدوں پر تعینات رہے۔

1977 میں اسٹاف کورس اور 1988 میں پاکستان آرمڈ فورسز وار کورس مکمل کیا، بعد ازاں نیشنل ڈیفنس کالج میں دو سال تدریس کی اور آرٹلری بریگیڈ، انفنٹری بریگیڈ اور آرٹلری ڈویژن کے آفیسر کمانڈنگ بھی رہے۔ 1985-87 میں سعودی عرب کی فوج میں یونٹ کمانڈر رہے۔ تین سال سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور تین ماہ نگران وزیراعظم معین قریشی کے ملٹری سیکریٹری کے فرائض ادا کیے۔ انہیں اعلیٰ فوجی اعزاز ہلال امتیاز (ملٹری) پیش کیا گیا۔

آرڈیننس فیکٹریز بورڈ، واہ انڈسٹریز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، واہ نوبل (پرائیویٹ) لمیٹڈ ، واہ نوبل کیمیکلز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، ہائی ٹیک پلاسٹکس (پرائیویٹ) لمیٹڈ، بورڈ آف ڈائریکٹر آف پیپلز اسٹیل مل کے رکن اور پاکستان آرڈیننس فیکٹریز کے چیئرمین کے عہدے پر تعینات رہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین کی حیثیت سے اس وقت کی حکومت نے مل کی نج کاری کا جو فیصلہ کیا اس کے خلاف سپریم کورٹ گئے جس پر عوام نے انہیں سراہا اور عدالت نے درست قرار دیا۔ وہ ایک کتاب ’’Islam in Perspective‘‘ کے مصنف بھی ہیں، ان کے کالموں کا ایک ضخیم مجموعہ چھپ چکا ہے۔

بی بی میری کم زوریوں سے درگزر کرتی تھیں

’’مجھے معین قریشی کی نگران حکومت میں ان کا ملٹری سیکریٹری لگایا گیا تھا جو میرے لیے ایک بالکل اچھوتا تجربہ تھا، معین قریشی ایمان دار اور بہت اچھے انسان تھے، میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر آپ کو پورا پاکستان صاف نظر آتا ہے اور بہت سی چیزوں پر دل دکھتا ہے۔

نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت آئی تو میں نے یہ عہدہ چھوڑنا چاہا لیکن انہوں نے مجھے جانے نہیں دیا، کیوں؟ یہ تو میں نہیں جانتا، ممکن ہے میرے کام کا انداز ان کے معیار پر پورا اترا ہو۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، ان کے کام کا اسٹائل پیشہ ورانہ تھا، اس لیے میرے جیسے پینڈو قسم کے فوجی کے لیے ان کے ساتھ کام کرنا ایک چیلنج تھا، ان کی عظمت تھی کہ وہ میری کمزوریوں سے درگزر کرتی تھیں۔

بی بی بہت جلد خوش ہو جاتی تھیں اور ناراض ہونے میں بھی دیر نہیں کرتی تھیں، بی بی صدقے خیرات پر بہت یقین رکھتی تھیں، ہر ہفتے صدقہ دیتیں، جانور قربان کرتی تھیں، تسبیح باقاعدگی سے کرتی تھیں لیکن نماز میں باقاعدگی نہیں تھی، پیروں پر بہت اعتقاد تھا، ضیاء الحق اور ایوب خان بھی پیری فقیری میں دل چسپی رکھتے تھے، ان کی اس کم زوری کا کئی لوگ غلط فائدہ بھی اٹھاتے تھے، کئی پیر آ کر نعرے وغیرہ لگاتے اور بی بی سے کئی فائدے حاصل کر لیتے تھے‘‘۔

تماشائے اہلِ کرم ۔۔۔۔۔۔

’’ہمارے پارلیمانی سسٹم میں قباحتیں یہ ہیں کہ ملک کا وزیراعظم چھوٹی سیاسی پارٹیوں کا یرغمال بن جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت اصل میں چھوٹی پارٹیوں کے اتحاد سے قائم تھی، چھوٹی پارٹیوں کے لوگ بے نظیر بھٹو کو بلیک میل کرتے تھے، مثلاً ہماری فلاں شخصیت فلاں جگہ لگا دیں ورنہ ہم الگ ہو جائیں گے، سارے سیاست دان اسی طرح کرتے تھے، سب وزارتیں مانگتے تھے مثلاً جیسے جونیجو گروپ تھا،

حامد ناصر چٹھہ کی قیادت میں ان کے چند لوگ تھے، سردار آصف علی وزیر خارجہ بنے، منظور وٹو نے کہا ’’مجھے چیف منسٹری دیں، فلاں کو یہ دیں، فلاں کو وہ دیں، مولانا فضل الرحمان صاحب بھی ساری چیزیں مانگتے تھے، فاٹا والے بھی یہ ہی کچھ کرتے تھے۔ یہ اس ملک کی سیاست اور سیاست دان ہیں، اس طرح کے تماشائے اہلِ کرم دیکھ دیکھ کر جی اوبھ گیا تو میں فوج میں واپس چلا آیا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔