کچھ نہ کچھ پڑھیے ضرور

رئیس فاطمہ  بدھ 26 جون 2013

میرا ایک گزشتہ کالم ’’اپنا ذخیرہ الفاظ بڑھائیے‘‘ چھپا تھا۔ اس کے بارے میں متعدد فون اور ایس ایم ایس میرے پاس آئے۔ جس میں پسندیدگی کے علاوہ اس بات کی خواہش بھی کی گئی تھی کہ میں مطالعے کے لیے ان کتب و رسائل کے نام بھی بتاؤں جو ذخیرہ الفاظ کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔ فون کرنے والوں سے تو براہ راست بات ہوگئی۔ ان کے قیمتی مشوروں کے علاوہ ان کی فرمائشیں بھی نوٹ کرلیں۔

لیکن جو ایس ایم ایس آئے ان میں زیادہ ترگمنام تھے۔ اب کوئی بتلائے کہ یہ جو مسلسل گمنام ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں ان کا کیا کیا جائے۔۔۔؟۔۔۔پھر فرمائشیں بھی ایسی کہ بس سردھنتے جائیے۔ مثلاً مذکورہ کالم کے حوالے سے کسی نے صبح دس بجے میسج کیا کہ ’’اردو بازار میں کون کون سی کتابیں دستیاب ہیں‘‘۔۔۔۔ایک ایس ایم ایس آیا کہ ’’ان کتابوں کی فہرست لکھ دیجیے جو مطالعے کے لیے ضروری ہیں‘‘۔۔۔۔ایک اور صاحب ذوق نے پوچھا ’’ان کتابوں کے نام بتائیے جن کو پڑھ کر املا اور تلفظ کی غلطیوں سے بچا جائے‘‘۔۔۔۔بہرحال ان بے شمار ایس ایم ایس کو پڑھ کر یہ تو اطمینان ہوا کہ زبان پر ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ لوگ اپنی اصلاح کرنی نہ چاہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی لوگوں میں مطالعے کا شوق زندہ ہے اور وہ اپنی غلطیوں کو بھی سدھارنا چاہتے ہیں۔ لاہور سے اکثر ایک صاحب کا فون آتا ہے جو کسی چینل سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا کہ میں اکثر وبیشتر ان کتب و رسائل کا تذکرہ کالم میں ضرور کیا کروں جو ذخیرہ الفاظ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ذوق مطالعہ کی تسکین کا باعث بھی بنیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ اکثروبیشتر میں اپنے کالم میں بعض ایسی کتب و رسائل کا تذکرہ کرتی رہتی ہوں جو نہ صرف ذخیرہ الفاظ اور تلفظ کی اصلاح میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں بلکہ مختلف مزاج اور ذوق کے حامل افراد کے ذوق مطالعے کی تسکین کے ساتھ علمی وادبی معلومات میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہوں۔ یہ انتخاب میری ذاتی پسند پر مبنی ہوتا ہے۔ چلیے تو پھر قارئین کی خواہش کے مطابق سب سے پہلے میں چند رسائل کا تعارف کرادیتی ہوں۔ ’’فنون‘‘ کا تازہ ترین شمارہ میرے سامنے ہے ڈاکٹر ناہید قاسمی نے جس محنت اور خلوص سے اپنے والد محترم، نام ور ادبی شخصیت جناب احمد ندیم قاسمی کے کام کو آگے بڑھایا اور زندہ رکھا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے۔

ادبی پرچوں کی اہمیت میرے نزدیک اس لیے زیادہ ہے کہ یہ جن نامساعد حالات میں شایع ہورہے ہیں وہ بڑی بات ہے۔ ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ‘‘ کے مصداق ایک طریقے سے یہ گھاٹے ہی کا سودا ہے کہ لوگ اب ادبی پرچوں کے سالانہ خریدار نہیں بنتے۔ اس کی جگہ وہ نئے جوتے، نئے لباس اور ڈرائنگ روم کی آرائش کے لیے قیمتی ڈیکوریشن پیس خریدنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ وہ زمانہ گیا جب لوگ اپنے اپنے بیڈ روم اور ڈرائنگ روم میں کتابیں اور ادبی رسالے سجاکر خوش ہوتے تھے اور لوگ کسی کے ہاتھ میں کوئی نئی کتاب دیکھ کر مرعوب ہوا کرتے تھے۔

اب کتابوں کی جگہ موبائل فونز نے لے لی ہے۔ لیکن یہ ان کے لیے طرہ امتیاز ہے جو اندر سے خالی ہیں اور اس خالی پن کو موبائل فون کی نمائش سے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال بات ہورہی تھی ’’سہ ماہی فنون‘‘ کی جس کے عنوانات دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ ’یادرفتگاں، فن اور فنکار، مضامین، افسانے اور شعری حصہ سب ہی بہت معتبر ہیں۔

پروفیسر سحر انصاری کا مضمون جو جناب احمد ندیم قاسمی سے ملاقاتوں کی روئیداد پر مشتمل ہے بہت دلچسپ ہے اس میں انھوں نے استاد امانت علی خاں کے حوالے سے دیپک راگ اور راگ ملہار کے حوالے سے ایک واقعہ بھی درج کیا ہے۔ 468 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم شمارہ ادبی ذوق کے حامل افراد کے لیے ایک تحفہ ہے۔ دوسرا پرچہ ہے ’’پیلھوں‘‘ جس کے پہلے شمارے کا اجراء ڈاکٹر انوار احمد کی ادارت میں صوفیوں کے شہر ملتان سے ہوا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد ایک عرصے تک ’’مقتدرہ‘‘ قومی زبان سے بحیثیت چیئرمین وابستہ رہے ہیں۔

ان کے ساتھ مجلس ادارت میں سجاد نعیم، عامر سہیل اور عمران میر بھی شامل ہیں۔ اس پرچے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ بیک وقت ’’اردو ‘‘ پنجابی اور سرائیکی تخلیقات پر مشتمل ہے۔ تینوں حصے الگ الگ ہیں۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے جسے ضرور سراہا جانا چاہیے۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوںکی ترویج و اشاعت نجی و سرکاری سطح پر ہونا بہت ضروری ہے۔ پڑھنے والوں نے ڈاکٹر انوار احمد کی اس کوشش کو سراہا ہے اور انھیں دوسرے شمارے کا بے چینی سے انتظار ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی چلوں کہ ’’پیلھوں‘‘ کا مطلب ہے صحرائی درخت کا وہ پھل جسے خواجہ غلام فرید نے اپنی شاعری میں اس کا استعمال کرکے اسے لازوال بنادیا ہے۔ یعنی صحرا کے ایک درخت میں لگنے والا پھل پیلھوں کہلاتا ہے۔ یہ مطلب بھی مجھے ڈاکٹر انوار احمد نے ہی بتایا تھا۔

تیسرا قابل قدر اور اہم ادبی پرچہ ’’اجراء‘‘ ہے جس کے سرپرست ہیں شاہین نیازی۔ اور مدیر ہیں جناب احسن سلیم۔ یہ ’’اجراء‘‘ کا تیرہواں شمارہ ہے اور اس لحاظ سے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے کہ اپنی اشاعت سے لے کر آج تک ہمیشہ یہ وقت پر شایع ہوا ہے اور اسے ہم واقعی ’’سہ ماہی‘‘ کہنے میں حق بجانب ہیں۔ اس پرچے میں پاکستان کے علاوہ انڈیا کے لکھنے والے بھی اپنی نگارشات کے ساتھ شامل ہیں جیسے مشرف عالم ذوقی، میم فاطمہ،سلیمان خمار، رؤف خیر، ڈاکٹر اختر آزاد، یٰسین احمد اور ڈاکٹر اسلم جمشید پوری وغیرہ۔

آخر میں ایک بہت اچھی کتاب کا ذکر بھی کرنا چاہوں گی۔ اس کا نام ہے ’’ابن صفی‘ شخصیت اور فن‘‘ اور اس کے خالق ہیں راشد اشرف جو اس سے پہلے ایک اور کتاب بھی ابن صفی کے حوالے سے لکھ چکے ہیں۔ ’’کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ دونوں کتابیںاس لحاظ سے قابل قدر ہیں کہ جاسوسی ادب کے حوالے سے جس نام کو بھلادیا گیا تھا اسے راشد اشرف نے دوبارہ زندہ کرکے حق ادا کردیا ہے۔ وہ بھی کسی ذاتی فائدے سے بلند ہوکر۔ ورنہ ایسے کام عموماً اس وقت تک نہیں کیے جاتے جب تک مصنف کو مرحوم کے حوالے سے کسی فائدے کی امید نہ ہو۔ راشد نے ابن صفی کا تمام کام اکٹھا کرکے ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیا ہے۔ اس طرح وہ اسکالر جو ابن صفی پر ڈاکٹریٹ یا ایم فل کرنا چاہیں انھیں تمام معلومات ان کتابوں سے مل سکتی ہیں۔

انشاء اللہ اگلے کالم میں صرف ان کتابوں کا ذکر کروں گی جو کلاسیکی ادب کی نمایندہ کتب ہیں۔ اس میں شعروادب دونوں کا تذکرہ ہوگا جو نہ صرف ذخیرہ الفاظ بڑھانے میں ممدومعاون ہوگا بلکہ ذوق مطالعے کی تکمیل بھی کرے گا۔ پھر اینکر پرسن اور ڈرامہ نگار ’’سمجھ آیا‘‘ اور ’’سمجھ آئی‘‘ نہیں کہیں گے۔ بلکہ عام کی جمع عوام کو بھی مونث نہیں بنائیں گے اور اسے مذکر ہی کہیں گے۔ چلتے چلتے ایک پتے کی بات کہنا چاہوں گی کہ زبان سیکھنے کے لیے سب سے پہلے جناب انتظار حسین کے کالم پڑھیے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ ایکسپریس میں جلوہ گر ہیں جو زبان وہ لکھتے ہیں اس سے اہل زبان تو محظوظ ہوتے ہی ہیں، لیکن وہ لوگ بھی استفادہ کرتے ہیں جن کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہے۔ لیکن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لوگوں سے ضرور یہ کہوں گی کہ وہ انتظار صاحب کا کالم زبان سیکھنے اور ذخیرہ الفاظ بڑھانے کے لیے توجہ سے پڑھا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔