بگلا پکڑنے کا استادانہ طریقہ   

سعد اللہ جان برق  بدھ 21 نومبر 2018
barq@email.com

[email protected]

یہ کہانی بعد میں سنائیں گے، پہلے ’’وجۂ یاد آوری‘‘ سن لیجیے، اور یہ یاد ہمیں پشاور شہر کی موجودہ حالت دیکھ کر آئی؟

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

اس موضوع پر مرشد کے اور بھی بہت سارے اشعار ہیں۔ مضمون ایک ہی ہے لیکن اسے مختلف طریقوں سے بیاں کیا گیا ہے۔

گریہ چاہے خرابی مرے کاشانے کی

در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

بیاباں پھر بھی کچھ اچھا رہے گا کہ کوئی ریوڑ وغیرہ چرا لے گا۔ انسانوں کا نہ سہی حیوانوں کے کام کا تو بن جاتا اورکچھ نہیں تو کم ازکم ’’مجنون‘‘ کو وہاں اپنا عشق چرانے کی سہولت تو ہوتی ہے۔

اُگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا ہو

مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا

مطلب یہ کہ ویرانی کا حاصل کم از کم گھاس تو ہوتا لیکن یہاں تو سوائے گرد و غبار کے اور کچھ بھی ’’پھانکنے‘‘ کو نہیں ملتا۔ ہاں ٹریفک جام ہونے کی صورت میں (جو تقریباً ہر جگہ ہر وقت ہوتا رہتا ہے) گاڑیوں کا دھواں بھی شہریوں کو وافر اور بے حساب اور بالکل مفت سپلائی کیا جاتا ہے۔

نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب

سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

یہی وجہ ہے کہ آج کل ہم شہر کے بجائے ویرانوں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔

کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم

دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

لیکن پشاور شہر کی اس ویرانی بلکہ ’’مسماری‘‘ کو دیکھ کر صرف ایک نہیں کئی کئی کہانیاں بیک وقت دم ہلانے لگتی ہیں۔ مثلاً نوشیروان عادل کی کہانی کہ اس نے بزرج مہر سے پوچھا کہ درخت پر بیٹھے اُلو کیا بات چیت کر رہے ہیں۔ تو بولا ،یہ دونوں اُلو اپنے پٹھے اور پٹھی کی شادی کا معاملہ ڈسکس کر رہے ہیں۔ پٹھی کے باپ نے ایک سو ویران آبادیوں کا مطالبہ کیا ہے اور پٹھے کا باپ کہہ رہا ہے کہ سو توکیا دو سو ویران دیہات  دے دوں گا۔

یا یہ کہ ایک کسان نے چنے کی فصل بوئی تھی جو بہت اچھی ہوئی تھی اور وہ فصل اچھا ہونے کی وجہ سے اپنی شادی کے علاوہ اور بھی بہت سارے منصوبے بنائے ہوئے تھا ۔ لیکن عین آخری وقت میں زبردست ژالہ باری ہوئی اور سارا کھیت ’’کعصف ماکول‘‘ ہو گیا۔کسان کھیت کے ارد گرد پھر رہا تھا کہ شاید کوئی گوشہ کونہ بچا ہو لیکن ایک پودا بھی بچا ہوا نہیں تھا۔ تھک ہار کرکھیت کی مینڈھ یا وٹ پر بیٹھ گیا۔کھیت کو دیکھ دیکھ کر رو رہا تھا، روتے روتے اچانک اس کے منہ سے نکلا ،اگر کچھ کہتا ہوں توکافر بنا دوگے ورنہ ایسا کام تو بچے بھی نہیں کرتے۔

وہ پشاور میں جو اپنے شہر کو پھولوں اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہا کرتے تھے، آج کل آئینے میں دیکھ دیکھ کر اسے ’’کھدائیوں‘‘ کا شہر کہہ جاتے ہیں۔

وہ بھی چھوڑیے کہ اب تک شہر کو صرف ’’مسمار‘‘ کرنے پر جو خرچہ آیا ہے وہ لگ بھگ پانچ چھ سال کے لیے صوبے کے نان ونفقہ کو کافی تھا۔ یہ بھی چھوڑیے کہ قرض کی مے اورکتنے سال تک پی جاتی رہے گی، اسے بھی گولی ماریے کہ اس ہنگامہ ٔ دارو گیر ، تخریب و تعمیر اور خواب و تعبیر پر اورکیا کیا اورکتنا کتنا خرچ ہو گا اور کتنے لوگوں کے گھر آباد اور کتنوں کے آباد شاد اور با مراد ہوں گے۔ صرف یہ دیکھیے کہ جب یہ مکمل ہوگا ۔’’ہوگا‘‘ کی سرحد قیامت تک بھی ہے تو کیا اس سے وہ سبز باغ حاصل ہو جائے گا جس کی توقع یا وعدہ ہے۔ بظاہر تو یہ قطعاً نہیں کیونکہ مرشد نے یہ بھی کہا ہے کہ

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟

زخم کے بھرنے تلک ’’ناخن‘‘ نہ بڑھ آئیں گے کیا؟

ٹریفک اتنی بڑھ چکی ہو گی کہ یہ سب کچھ بھی ناکافی اور ناکام ہو چکا ہو گا۔ اور ایسے ہی موقع پر ہمیں وہ کہانی یا د آتی ہے جس کا ذکر ابتدا میں ہم نے کیا تھا۔ لیکن اب بھی ہم اسے نہیں سنا رہے ہیں کیونکہ کچھ ماحول اورسیاق وسباق بھی بیاں کرنا ہے۔

بہت عرصہ ہوا کہ اس شہر ناپرساں کے گرد ایک رنگ روڈ کا آغاز ہوا۔ جنوبی ’’نیم دائرہ‘‘ تو تعمیر ہو گیا لیکن شمالی نیم دائرہ یا ’’رنگ‘‘ رہ گیا ۔ یہاں ایک بڑی مزیدار اورگل دار’’دم‘‘ ہلنے لگی ہے۔ چلیے اس سے بھی نمٹتے ہیں ۔ پشاور میں جو پرائیویٹ بسیں چلتی ہیں، ان سب پر اردو میں لکھا ہوتا ہے رینگ روڈ تا حیات آباد۔ اب جب سارا فقرہ اردو کا ہے ’’رینگ‘‘ انگریزی ’’رنگ‘‘ کیسے ہو سکتا ہے اور ’’رینگ‘‘ یا رینگنا یا رینگ رینگ کر، کے معنی تو آپ جانتے ہیں حالانکہ ان ’’بسوں‘‘ پر یہ لفظ ’’رینگ‘‘ اس کی رفتار پر صادق آتا ہے لیکن روڈ کی تعمیر کے لیے بھی بہترین لفظ ہے۔

اب یہ بڑا آسان کم خرچ بالانشین طریقہ تھا کہ شمالی حصے کو تعمیر کرکے ’’رنگ‘‘ یا دائرے کو مکمل کیا جاتا۔ یوں 75 فیصد ٹریفک کا زور رنگ روڈ پر منتقل ہوجاتا لیکن ایک تو اس میں خاص الخاص لوگوں کی زمینیں آ رہی تھیں اور دوسرا یہ کہ ’’رنگ روڈ‘‘ میں متعلقین آخر کتنا کماتے؟ اس لیے بگلا پکڑنے کا یہ ’’استادانہ طریقہ‘‘ شروع کر دیا گیا۔ اب اصلی کہانی صرف اتنی سی ہے کہ شاگرد نے استاد سے پوچھا کہ ’’بگلا‘‘ پکڑنے کا طریقہ کیا ہے؟

استاد نے کہا، صبح سویرے منہ اندھیرے موم لے کر دریا پر جائو، بگلا کہیں کنارے پر اونگ رہا ہوگا، چپکے سے موم اس کے سر پر رکھ دو اورکہیں چھپ کر انتظار کرو، دھوپ نکلے گی تو موم پگھل کر بگلے کی آنکھوں میں جائے گی اور اسے کچھ نہیں دکھائی دے گا، تب جا کر بگلے کو پکڑ لینا۔ شاگر د تو شاگرد تھا۔ بولا، استاد جی جب میں اس کے سر پر موم رکھوں گا تو اسی وقت ’’گلے‘‘ کو کیوں نہ پکڑلوں۔ استاد نے فرمایا، بے وقوف احمق خر دماغ میں تمہیں بگلا پکڑنے کا ’’استادانہ‘‘ طریقہ بتا رہا ہوں اور تم پھر وہی ’’جاہلانہ طریقہ‘‘ اختیار کرنے پر تلے ہوئے ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔