امریکا، بھارت اور پاکستان

عبدالقادر حسن  بدھ 21 نومبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

امریکا نے پاکستان سے شکایت کی ہے کہ پاکستان اس کے لیے کچھ نہیں کرتا اس لیے ہم نے پاکستان کی امداد روک دی ہے۔ امریکی ترجمان نے کئی مثالیں بھی دیں جب پاکستان نے اس کی مدد نہیں کی اور اس کے لیے قربانی نہیں دی۔

امریکا کی طرف سے پاکستان کے ساتھ اس طرح کا شکوہ امریکا ہی کر سکتا ہے اور امریکا بھی وہ امریکا جس کی تابعداری بلکہ فرمانبرداری پاکستان کا ایک قومی فرض رہا ہے اور پاکستان کا ہر نخرہ امریکا کے سامنے ختم ہو جاتا ہے بلکہ اب تک ہوتا رہا ہے۔ امریکا ناز و انداز کرتا رہا اور پاکستان اس کی اطاعت کو اپنا قومی فرض سمجھتا رہا۔ یہاں تک کہ پاکستان کو امریکا کی ایک غلام ریاست سمجھا جاتا رہا اور جب کبھی امریکا پاکستان کے لیے اپنی رعایت کو پاکستان کا اعزاز سمجھتا تو پاکستانی اس کو نہ صرف سراپا تشکر بن کر سنتے اور اس پر فخر کرتے۔

ہم نے شروع دن سے ہی امریکا کو اپنا آقا سمجھ رکھا ہے بلکہ اس کی ہر ادا کو سلام کرتے رہے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں امریکا کی تابعداری اور امریکا کی خوشنودی کو ہی مقدم سمجھا گیا ہے۔ امریکا کی ہر خواہش اور مطالبے کو من و عن تسلیم کرنے کی روایت ابھی بھی زندہ ہے۔ ہم نے ایک خود مختار ملک ہونے کے باوجود کبھی انکار کی جرات ہی نہیں کی بلکہ خود چل کر امریکا کو اپنی اتنی بھر پور حمایت کا یقین دلایا کہ امریکی بھی بعض مواقع پر ہماری قیادت کی پیشکشوں پر انگشت بہ بدنداں رہ گئے۔ یعنی ہم نے وہ کچھ بھی کیا جس کی امریکا کو ضرورت نہیں تھی یا اس نے اس کا مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔

اور آج یہ عالم ہے کہ امریکی صدر اور ان کے ہرکارے پاکستان کی امریکا دوستی میں دی گئی قربانیوں کی لازوال داستانوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو ہی دھمکا رہے ہیں اور اس دھمکی نما امریکی لب و لہجہ میں کوئی اور بول رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی قوم کے امریکی پروردہ حضرات نے اس آزاد قوم پر رفتہ رفتہ یہ تصور اس کے دل و دماغ میں بٹھایا ہے کہ امریکا ہے تو پاکستان ہے۔ یعنی امریکا کی خوشنودی حاصل ہے تو پاکستان کی سلامتی بھی ہے۔

یہ وہ ٹولہ ہے جو پاکستان کی پیدائش کے ساتھ ہی پاکستان پر مسلط ہو گیا اور پہلے دن سے ہی امریکا کی آغوش میں جا کر بیٹھ گیا۔ اور اس غلامانہ تصور کو ایک نئی آزاد قوم میں اس چالاکی سے سرائیت کیا کہ چونکہ پاکستان کے قریب ترین پڑوس میں اس کا پیدائشی دشمن موجود ہے جس نے اپنی بقاء اور سلامتی کو پاکستان دشمنی سے جوڑ رکھا ہے اس لیے ہمیں کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔ اور شروع میں ہی وہ سہارا امریکا بن گیا۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ پڑوسی بھارت پاکستان کے وجود کو مشکل سے ہی برداشت کرتا رہا ہے اور ہر وقت وہ پاکستان کی بربادی کا پروگرام بناتا رہتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ بھارت کے سینے پر مونگ دل کر پاکستان نے اپنا وجود قائم کیا اور اب تک پاکستان بھارت کے سینے پر مونگ دل کر ہی زندہ ہے۔ اگر پاکستان نے بھارت دشمنی میں ذرا بھر بھی نرمی یا سستی کی اور بھارت کو بھی صحیح معنوں میں تسلیم کر لیا تو پھر ان دو میں سے ایک ہی باقی رہے گا۔ اور دنیا جانتی ہے کہ ان دو میں سے کون زیادہ طاقتور ہے اور کس کے پاس اپنا وجود باقی رکھنے کے سامان ہیں۔

تفصیل میں جانے کی قطعاً ضرورت نہیں بھارت اور پاکستان کا موازنہ حالات مسلسل کرتے رہتے ہیں اور کبھی خاموش نہیں رہتے کیونکہ خاموشی یہاں امن کا نہیں بلکہ کمزوری اور کمتری کی نشانی ہے۔ دونوں میں سے جو بھی دوسرے سے زیادہ طاقت پکڑ لے گا وہ دوسرے کا وجود ختم کرنے کے درپے ہو گا اور ایسا ہو بھی چکا ہے کہ مختصر سی مدت میں پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کے کھلم کھلا مقابل رہے ہیں اور دوسرے کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان ملکوں کے درمیان کئی ایسے مسائل موجود ہیں جن کو حل کیے بغیر کسی کی سلامتی بھی خطرے میں گھری رہتی ہے۔ مثلاً سر فہرست مسئلہ کشمیر کا ہے جس کا فیصلہ ہونے تک دونوں کے درمیان امن قائم نہیں ہو سکتا۔

برصغیر کے اس خطے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کے امن اور سلامتی کے لیے کس قدر اہم ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا الجھا ہوا مسئلہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کی مرضی کے مطابق اس کو طے کرنے پر تیار نہیں ہے۔ دونوں اپنی اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں جو عملاً ممکن نہیں ہے۔

اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے اور نکل رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بھائی چارے اور امن کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جب کبھی دونوں ملکوں میں کسی حد تک پر امن تعلقات کا موقع آیا ہے وہ ناکام ہی رہا ہے۔ اور اب تو یہ ناکامی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اسے اس خطے میں موجود ان ملکوں کے درمیان اس کی ایک مستقل حیثیت بن گئی ہے اور یہ طے ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کشمیر سے متعلق ان دونوں ملکوں کے درمیان صلح نہیں ہو سکتی۔

گزشتہ تاریخ نے ہی یہ فیصلہ دے رکھا ہے اور یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا کہ دونوں ملکوں کے در میان اس قدر نااتفاقی کی خلیج حائل ہے کہ اس کو کوئی فریق بھی ختم نہیں کرسکتا۔ بس یہی انداز ہے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کا جس میں دوستی ممکن نہیں۔ خود دونوں ممالک کے عوام بھی اس صورتحال کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔