عملے اور فنڈز کا فقدان ایف آئی اے کا انسداد دہشت گردی ونگ غیر فعال ہو گیا

عادل جواد  جمعرات 27 جون 2013
نئے ونگ نے دہشتگردی کے نیٹ ورک کو توڑا،آپریشنل اخراجات نہ ملنے سے تکنیکی آلات اور گاڑیاں ناکارہ ہورہی ہیں. فوٹو: فائل

نئے ونگ نے دہشتگردی کے نیٹ ورک کو توڑا،آپریشنل اخراجات نہ ملنے سے تکنیکی آلات اور گاڑیاں ناکارہ ہورہی ہیں. فوٹو: فائل

کراچی:  تربیت یافتہ عملے اور فنڈز کے فقدان کے باعث ایف آئی اے کا انسداد دہشت گردی ونگ غیر فعال ہوگیا۔

پانچ سال سے آپریشنل اخراجات نہ ملنے کی وجہ سے کروڑوں روپے مالیت کے تکنیکی آلات اور گاڑیاں ناکارہ ہورہی ہیں، انسداد دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والے تقریباً تمام افسران عدم توجہی کے باعث ایف آئی اے اور پولیس کے دیگر شعبوں میں تعینات کیے جاچکے ہیں، تفصیلات کے مطابق 2003 میں امریکی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سرمایے سے ایف آئی اے میں انسداد دہشت گردی ونگ قائم کیا گیا تھا، ابتدا میں ایف آئی اے کے نئے شعبے کا نام اسپیشل انویسٹی گیشن گروپ (ایس آئی جی) رکھا گیا تھا، ایس آئی جی کے پہلے سربراہ پولیس سروسز آف پاکستان کے سینئر افسر مرزا یاسین تھے جبکہ کراچی سمیت تمام صوبائی ہیڈکوارٹرز میں گریڈ 18 کے افسر کی سربراہی میں دفاتر اور عملہ فراہم کیا گیا تھا۔

ایس آئی جی میں پہلے مرحلے میں پولیس اور ایف آئی اے کے 37 افسران کا تقرر کیا گیا تھا اور آپریشنل اخراجات کی مد میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے،ابتدائی چند سالوں میں ایس آئی جی افسران کو گاڑیاں، ایندھن، جدید تکنیکی آلات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں انسداد دہشت گردی کی اعلیٰ ترین تربیت بھی فراہم کی گئی جن میں امریکا، جرمنی، ترکی، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک شامل ہیں، تربیت حاصل کرنے والے افسران نے نئے شعبے کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی بڑی وارداتوں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائیاں کیں،کراچی میں2005 میں ہونے والے نشتر پارک بم دھماکے کی تفتیش نے اس وقت نیا رخ اختیار کرلیا۔

جب ایف آئی اے کے ماہرین نے اسے خود کش حملہ قرار دیاجبکہ اس سے پہلے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان خطوط پر کام ہی نہیں کررہے تھے، 2010 میں 10 محرم الحرام کو ہونے والے بم دھماکے کی تفتیش میں بھی ایف آئی اے کے ماہرین نے اہم کردار ادا کیا اور انھوں نے اس جگہ کا تعین کیا جہاں بم نصب کیا گیا تھا اس سے قبل دیگر تفتیشی ادارے اسے خود کش دھماکا قرار دے رہے تھے، اس کے علاوہ ایس آئی جی نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر دہشت گردی کے حملے، بے نظیر قتل کیس اور ممبئی بم دھماکوں کی تفتیش بھی کی اور سائنٹیفک بنیادوں پر کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں ملزمان کی گرفتاری ممکن ہوسکی، 2010 میں ایس آئی جی کا نام تبدیل کرکے کاوئنٹر ٹیررازم ونگ(سی ٹی ڈبلیو) رکھ دیا گیا۔

تاہم گذشتہ پانچ سال سے ایس آئی جی کو آپریشنل اخراجات کی مد میں ملنے والے فنڈز جاری نہیں کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ادارہ بتدریج زوال کا شکار ہے اور خاص طور پر کراچی میں عملی طور پر غیرفعال ہوچکا ہے، انسداد دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والے تقریباً تمام افسران عدم توجہی کے باعث ایف آئی اے اور پولیس کے دیگر شعبوں میں تعینات کیے جاچکے ہیں جبکہ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں، آلات اور دہشت گردوں کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ ناکارہ ہوکر رہ گئے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ کراچی سی ٹی ڈبلیو میں ایک بھی افسر ایسا نہیں ہے جو دہشت گردی کی بڑی کارروائی کا تجزیہ کرکے تفتیشی عمل میں مدد کرسکے، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں اگر ایک دن میں ایک سے زائد دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں تو اتنا عملہ بھی نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کے مقام سے نمونے حاصل کرکے اسلام آباد میں قائم کی جانے والی فارینسک لیبارٹری کو ارسال کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔