شامِ شہرِ یاراں

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 23 نومبر 2018

فیضؔ نے جب اپنا شعری مجموعہ ’’شامِ شہرِ یاراں‘‘ اشاعت کے لیے اپنے دوست اور ناشر چوہدری عبدالحمید کو بھیجا تو انھوں نے فرمائش کی اس میں کچھ نثر کا بھی اضافہ ہونا چاہیے کہ بعض لوگوں کو مصنف کی ذات میں بھی دلچسپی ہے۔

مرزا ظفر الحسن پہلے ہی اس کام کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔چنانچہ ان کا ایک انٹرویو ’’عہدِ طفلی سے عنفوان شباب‘‘ اور صوفی غلام مصطفی تبسم، اشفاق احمد اور شیر محمد حمید کا ذکر فیضؔ اس مجموعے میں شامل کردیا گیا۔ یہ غزل اسی مجموعے میں ہے:

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسارکوئی

تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا

مرزا ظفر الحسن سے باتیں کرتے ہوئے فیضؔ صاحب نے کہا کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو لڑکوں نے ہمیں خوا مخوا اپنا لیڈر تسلیم کرلیا تھا۔ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت و خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے بھی ملا اور آج تک مل رہا ہے۔ صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ ابا کے ساتھ اٹھ بیٹھے، ان کے ساتھ مسجد گئے نماز ادا کی پھر مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے درس قرآن سنا، ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے سیر کی پھر اسکول گئے۔

لڑکپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فیضؔ صاحب نے کہا ’’ہمارے گھر سے ملی ایک دکان تھی جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ دو پیسہ کرایہ تھا۔ دکان میں اردو کا بڑا ذخیرہ تھا۔ یہ سب کتابیں ہم نے پڑھ لیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغؔؔ کا، میر کا، غالب کا کلام پڑھا۔ آدھا سمجھ میں آتا، آدھا نہیں لیکن دل پر عجیب اثر ہوتا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دلچسپی ہونے لگی، پھر ہم نے انگریزی ناول بھی پڑھنے شروع کردیے۔ اس مطالعے سے ہماری انگریزی بھی بہتر ہوگئی۔ اس زمانے میں مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ جب ہم دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کردی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ جب ہم مرے کالج میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے تو انھوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اورکہا کہ اس طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں بہت داد ملی۔‘‘

گورنمنٹ کالج لاہور میں بہت ہی فاضل اور مشفق اساتذہ سے فیضؔ کا نیاز مندی کا رشتہ جڑا۔ اسلامیہ کالج میں ڈاکٹر تاثیرؔ تھے۔ پطرس بخاری، صوفی تبسمؔ، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی سے بھی ان کے ذاتی مراسم ہوگئے۔ ان بزرگوں کی صحبت اور محبت سے بہت کچھ سیکھا۔

فیضؔ صاحب نے بتایا کہ جب ہم شعر کہتے تو سب سے پہلے دوستوں کو سناتے، ان سے داد ملتی تو مشاعروں میں پڑھتے۔ اگر کوئی شعر خود کو پسند نہ آیا یا دوستوں نے کہا کہ نکال دو تو کاٹ دیتے۔ ایم اے میں پہنچتے پہنچتے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا تھا۔

مرزا ظفر الحسن کے ایک سوال کے جواب میں فیض صاحب نے کہا ’’ابتدائی شاعری کے دور میں یا کالج کے زمانے میں ہمیں کوئی خیال ہی نہ گزرا کہ ہم شاعر بنیں گے۔ سیاست وغیرہ تو اس وقت ذہن میں تھی ہی نہیں۔ شروع میں خیال ہوا کہ کوئی بڑے کرکٹر بن جائیں کیوں کہ لڑکپن سے کرکٹ کا شوق تھا پھر جی چاہا کہ استاد بن جائیں، ریسرچ کرنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہ بنی۔‘‘

فیضؔ صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے، صوفی غلام مصطفی تبسمؔ لکھتے ہیں۔ ’’سن 1929ء تھا، اکتوبر کا مہینہ۔ مجھے سینٹرل ٹریننگ کالج سے گورنمنٹ کالج میں آئے تین ہفتے ہوئے تھے کہ ایک بڑا مشاعرہ پطرس بخاری کی زیرصدارت ہوا ۔ شام ہوتے ہی کالج کا ہال طلبا سے بھرگیا۔ ایک طرف نیاز مندانِ لاہور اپنی پوری شان سے براجمان تھے، مقابل میں لاہور کی تمام ادبی انجمنوں کے نمایندے صف آرا تھے۔ روایتی دستور کے مطابق صدر نے اپنے کالج کے طلبا سے شعر پڑھانے کا اعلان کیا۔

دو ایک برخوردار آئے اور بڑے ادب و انکسار سے کلام پڑھ کر چلے گئے۔ اچانک ایک دبلا پتلا منحنی سا لڑکا اسٹیج پر نمودار ہوا۔ سیاہ رنگ، سادہ لباس، انداز میں متانت بلکہ خشونت۔ چہرے پر اجنبی ہونے کا شدید احساس۔ ادھر ادھر کچھ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اچانک اس نے کہا، عرض کیا ہے۔ کلام میں ابتدائے مشق کے باوجود پختگی اور اسلوب میں برجستگی تھی۔ سب نے داد دی۔ یہ حفیظؔؔ ہوشیار پوری تھے۔ پھر ایک نوجوان آئے۔ گورے چٹے، کشادہ جبیں، حرکات میں شیریں روانی، آنکھیں اور لب بیک وقت ایک نیم تبسم میں ڈوبے ہوئے۔ شعر بڑے ڈھنگ اور تمکنت سے پڑھے۔ اشارے ہوئے۔ پطرس نے کچھ معنی خیز نظروں میں لاہورکے نیاز مندوں سے باتیں کیں اور ان کی نیم راضی کو سمجھ کر دونوں نوجوانوں کو دوبارہ اسٹیج پر بلایا۔ نیا کلام سنا۔ فیضؔ صاحب نے غزل کے علاوہ ایک نظم بھی سنائی۔ مشاعرہ ختم ہوا۔ قرار پایا کہ احباب ان دونوں کو ہمراہ لے کر غریب خانے پر جمع ہوں۔ رات کافی گزر چکی تھی، پھر گھنٹے بھر کے لیے اور شعر و سخن کی صحبت قائم رہی۔‘‘

اشفاق احمد کے مضمون کا عنوان ہے ’’ملاحتی صوفی‘‘۔ کہتے ہیں ’’میرا اور فیضؔ کا نظریاتی اختلاف ہے۔ میں ایک شرعی آدمی ہوں اور فیضؔ صاحب ملاحتی صوفی ہیں ۔ تاریخ میں ڈھونڈنے سے آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں ایک شرعی اور صوفی کی دوستی ہو گئی اور دونوں نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آخری منزلیں طے کیں لیکن ایک شرعی آدمی کی کسی ملاحتی سے دوستی نہیں ہوئی۔ فیضؔ صاحب نے صوفی ازم کا اکتساب کسی سلسلے میں بیعت کرکے نہیں کیا۔ نہ ہی میرے اندازے اور تحقیق کے مطابق انھوں نے ورد و وظیفہ یا چلہ کشی کی ہے۔ انھوں نے صوفیہ کا ایک تیسرا طریقہ اختیار کیا ہے جو مجاہدے پر محیط ہے۔ اسی کو بزرگان دین، ادب اور تواضیع کا نام دیتے ہیں۔ یہ ادب، یہ صبر، ایسا دھیما پن، اس قدر درگزر، کم سخنی اور احتجاج سے گریز۔ یہ صوفیوں کے کام ہیں۔ ان سب کو فیضؔ صاحب نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ اوپر سے ملاحتی رنگ یہ اختیار کیا ہے کہ اشتراکیت کا گھنٹہ بجاتے پھرتے ہیں کہ کوئی قریب نہ آئے اور محبوب کا راز نہ کھل جائے۔‘‘

شیر محمد حمید اپنے مضمون ’’فیضؔ سے میری رفاقت‘‘ میں لکھتے ہیں۔ 1929ء کی بات ہے کہ میں گورنمنٹ کالج، لاہور میں تیسرے سال کا طالب علم تھا۔ چوہدری نبی احمد اور آغا عبدالحمید میرے دوست تھے ہم سب نیو ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ہر شام ہم سیر کو نکلتے تو ایک نوجوان کو دیکھتے جو باہر جنگلے کے پاس تنہا کھڑا گرد و پیش سے بے خبر کالج ٹاور کی سمت نظریں جمائے دور کہیں افق کی بلندیوں کو دیکھ رہا ہوتا۔ اس کا سراپا دلکش اور محویت جاذبِ نظر۔ تین چار دنوں کے بعد نبی احمد کے ذوق جستجو نے ہمیں اس نوجوان سے ہم کلام ہونے پر آمادہ کرلیا۔ قریب جا کر نبی احمد نے پوچھا ’’معاف کیجیے گا۔ آپ کون ہیں اور یوں گم سم تنہا کھڑے کیا دیکھا کرتے ہیں؟ نوجوان محویت کے عالم سے چونکا اور کہنے لگا ’’میرا نام فیضؔ ہے۔ میں نے مرے کالج سے ایف اے پاس کرکے یہاں تھرڈ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔ یہاں میرا کوئی واقف، آشنا نہیں ہے۔ نبی احمد نے معاً کہا ’’آئیے آج سے آپ ہمارے دوست ہیں۔ یہ شیر محمد ہیں، یہ آغا حمید ہیں۔ یہ بھی آپ کے ہم جماعت ہیں۔‘‘

یہ ایک ایسی دوستی کی ابتدا تھی جو آخر دم تک قائم رہی۔ وقت اس میں دراڑ نہیں ڈال سکا۔

شیر محمد حمید لکھتے ہیں ’’ہر معتدل آدمی کی طرح فیضؔ پر بھی عشق و محبت کے حادثے گزرے ہیں۔ کچھ عام نوعیت کے رومانی واقعات جن کا دیرپا اثر فیضؔ کی زندگی اور شاعری پر نہیں پڑا۔ لیکن دو ایک وارداتیں اس قدر شدید تھیں کہ فیضؔ کے قلب و جگر کو گرما کر رکھ گئیں۔ ’’نقشِ فریادی‘‘ کی نظمیں، رقیب سے، ایک راہ گزر پر، ایسے ہی حادثے کی یادگار ہیں جن کا اختتام مرگ سوز محبت پر ہوا۔ یہاں سے اس کی سوچ اور فکر کے ساتھ ساتھ اس کی شاعری نے بھی نیا رخ اختیار کیا۔

’’فیضؔ ٹھنڈے مزاج کے بے حد صلح پسند آدمی ہیں۔ بات کتنی بھی اشتعال انگیز ہو، حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں وہ نہ برہم ہوتے ہیں اور نہ مایوس۔ سب کچھ تحمل اور خاموشی سے برداشت کرتے ہیں۔ نہ گلہ، نہ چڑچڑاہٹ، نہ بدگوئی۔ فیضؔ کا ظرف کتنا وسیع ہے، سمندر کی تہہ میں طوفانوں کی رستاخیز ہے، سطح پرسکون ہے۔ یہ عظمت ہر کسی کو کہاں نصیب ہے!‘‘

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔