جج مقدمات چلانے سے ڈرتے ہیں اور الزام ہم پرعائد کردیا جاتا ہے،شرجیل میمن

ویب ڈیسک  جمعرات 27 جون 2013
کراچی میں بھتہ خوری پر تشویش ہے لیک یہ مسئلہ آج کا نہیں 25 سال پرانا ہے۔ شرجیل میمن۔ فوٹو: فائل

کراچی میں بھتہ خوری پر تشویش ہے لیک یہ مسئلہ آج کا نہیں 25 سال پرانا ہے۔ شرجیل میمن۔ فوٹو: فائل

کراچی: وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہے کہ جج مقدمات چلانے سے ڈرتے ہیں اور الزام حکومت پر عائد کردیا جاتا ہے،این آر او کی طرح اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے بنچ کیوں تشکیل نہیں دیا جاتا۔     

سندھ اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ کراچی کا امن جتنا ایم کیو ایم کو عزیزہے اتنا ہی پیپلز پارٹی کو بھی،اگر متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی کے عوام کی اکثریت حاصل ہے تو پیپلز پارٹی کا حصہ بھی کم نہیں، ایم کیو ایم کہتی ہے کہ 2003 سے 2007 کے دوران شہر میں مثالی امن تھا تو یہ بھی درست نہیں،اس دور میں قتل کی مختلف وارداتوں میں ملوث 37 ملزم پے رول پر رہا کئے گئے جن کی گرفتاری کے لئے اس وقت کے وزیر داخلہ نے احکامات جاری کئے،شہر میں 12 مئی 2007 کو جو کچھ ہوا وہ سب کو پتہ ہے،تاجر برادری بھتہ خوروں کے ہاتھوں پریشان ہے حکومت کو اس کا احساس ہے لیکن وہ بھتہ آج سےے نہیں 25 سال سے دے رہے ہیں، کراچی میں صورت حال یہ ہے کہ غیر مسلم دکاندار بھی فطرہ ادا کرتا ہے۔

شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ کراچی میں صرف ایم کیوایم کے ارکان اسمبلی اور کارکن جاں بحق نہیں ہوئے پیپلزپارٹی کے بھی کئی رہنما اور کارکنوں کو شہید کیا گیا،سابق صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم نے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی حیدر رضا اور صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں کو گرفتار کیا لیکن پیپلز پارٹی کے منور سہروردی اور عبداللہ مراد کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے،پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ کراچی اکسی ایک کا نہیں سب کا شہر ہے اس میں امن کے کے لئے بھی ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا،متحدہ قومی موومنٹ کے گرفتار اور لاپتہ کارکنوں کے معاملے پر تحقیقات کی جارہی ہیں، بےقصور افراد کو رہا کردیا جائے گا لیکن جس نے 100 قتل کئے ہیں اور جے آئی ٹی میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے اسے کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔

وزیراطلاعات سندھ نے مزید کہا کہ امن و امان کے قیام اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے حکومت پر تنقید کی جاتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جج ہی اہم مقدمات کی سماعت سے ڈرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال سانحہ12 مئی ہے جس کے گواہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر فاضل جج ہیں لیکن 7 سال بعد بھی اس کیس کی صرف 3 سماعتیں ہوئی ہیں،این آر او کی بات کی جائے تو اس کے تحت 8ہزار مقدمات ختم ہوئے لیکن کیس صرف بے نظیر بھٹو کے خلاف چلا، چیف جسٹس کہتے ہیں کہ سوئس کیس کی سماعت ہوگی پیپلز پارٹی اس کیس کی سماعت سے انکار نہیں کرتی لیکن اصغر خان کیس میں پیشرفت کیوں نہیں ہوتی اس کیس پر عملدرآمد کے لئے بنچ کیوں نہیں بنتا لیکن حقیقت یہ ہے پیپلز پارٹی سب کے لئے ایک آسان ہدف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔