ہم جنس پرستی اور ہمارا معاشرہ

محمد سعید اختر  ہفتہ 8 دسمبر 2018
 ہم جنس پرستی قطعی طور پر فطری عمل نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہم جنس پرستی قطعی طور پر فطری عمل نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

دنیا کے ہر شعبے میں اصول، قواعد و ضوابط اور شرائط کی پیروی کی جاتی ہے۔ چاہے وہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہو، کھیل کا میدان ہو یا سفارتکاری کا، ہر جگہ مختلف آزادیاں اور پابندیاں اس کھیل یا شعبے کو محفوظ اور دلچسپ بناتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ کھیلے اور دیکھے جانے والے کھیل فٹبال ہی کو لے لیجیے۔ اگر اس میں سے صرف ایک شرط یا پابندی ’’آف سائیڈ‘‘ ختم کردی جائے تو کھیل کا آدھا لطف کیا، آدھے کھیل کی سرگرمی ہی غارت ہو کر رہ جائے گی۔ بہت زیادہ مقبول یا عام کھیلوں کے علاوہ اگر بُل فائٹنگ کی بات کروں تو اس ظالمانہ کھیل کے بھی کچھ قواعد و ضوابط اور اصول ہیں۔ مثلاً جو بُل ہوگا، اس کی عمر چار سال اور وزن پانچ سو کلوگرام سے لے کر آٹھ سو کلوگرام ہونا چاہیے۔ اب اگر کسی اصول کو بھی نظرانداز کردیں جیسے بُل دو سال کا لے لیا جائے جو ابھی بچہ ہوگا، تو کیا خاک مزہ آئے گا؟

غرض زندگی کے ہر میدان کےلیے کچھ اصول قدرت نے وضع کر دیئے ہیں؛ اور کچھ انسان نے ارتقائی مراحل اور حوادث کا سامنا کرنے کے بعد وضع کیے ہیں تاکہ انسانیت کےلیے مشکلات کم ہوجائیں۔

آج کل سوشل میڈیا پر بہت سے حلقوں کی طرف سے ہم جنس پرستی کی حمایت میں مختلف آراء پر مبنی تحریریں پیش کی جارہی ہیں۔ ان میں پاکستان کی کچھ مشہور سائٹس بھی پیش پیش ہے۔ انسان کی خوبی ہے (یا آپ اسے خامی بھی کہ سکتے ہیں) کہ یہ مارکیٹنگ، پبلسٹی یا گلیمرائزیشن سے متاثر ہو جاتا ہے، خاص طور پر اگر دماغ اور وِژن یا کسی بھی پروڈکٹ کے بارے میں واضح معلومات نہ ہوں؛ بلکہ اگر واضح معلومات ہوں، تب بھی۔ اس کی مثال آگے چل کر پیش کروں گا۔

اگر کسی بھی چیز کی پبلسٹی کی جائے تو کچھ نہ کچھ لوگ ضرور متاثر ہوں گے۔ پھر آہستہ آہستہ دائرہ بڑھتا جائےگا۔ یہ بات گیری ڈاہل (Gary Dahl) نے 1970 میں ’’پالتو پتھر (Pet Rocks)‘‘ بیچ کرثابت کر دی تھی۔ (آپ گوگل کر سکتے ہیں کہ کیسے ’’پالتو پتھر‘‘ بیچ کر گیری ڈاہل کروڑپتی بن گیا)۔

ایک موضوع جو کسی بھی فورم پر قابلِ بحث نہیں، اسے بار بار میڈیا پر پیش کرکے، پہلے اس پر بات چیت کرنے کی جھجک دور کی گئی اور اب باقاعدہ اس پر مضامین، ڈرامے، ناول اور فلمیں بنائی جارہی ہیں تاکہ اسے قبولیت کی سند مل سکے۔ دیکھیے، مغرب کی بات میں نہیں کررہا، وہاں تو اس بحث کا اختتام ہوچکا ہے۔ لوگوں کے احتجاج نے وہاں کی حکومتوں کو مجبور کیا کہ اسے قانونی حق دیا جائے تاکہ ہم جنس پرست لوگ بھی معاشرے میں باعزت اور محفوظ (لوگوں سے محفوظ، نہ کہ بیماریوں سے محفوظ) زندگی گزارسکیں۔

اب کچھ بات اس بودی دلیل پر بھی کرتے ہیں کہ سوال یا بحث تو کسی بھی موضوع پر کیےجاسکتے ہیں ناں؟

بھئی، یہ دلیل وہاں کارگر ہوگی جہاں ابھی مسئلہ کسی نہج پر نہ پہنچا ہو، معاملہ ابھی حل نہ ہوا ہو، پہلو تشنہ طلب ہوں۔ لیکن جہاں پر کوئی فیصلہ یا کوئی منطقی نتیجہ اخذ کرنے کے بعد قانون سازی بھی کرلی گئی ہو، وہاں پر یہ دلیل کوئی زیادہ وزن نہیں رکھتی۔ مثلاً سرخ بتی کراس کرنے کے بعد اگر کوئی شخص قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ کہے کہ اس بات پر بحث کر لیتے ہیں کہ سرخ بتی پر رکنا چاہیے یا نہیں… تو پھر فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔

اب اس دلیل یا موضوع پر بات کرتے ہیں کہ کیا یہ انسانی فطرت ہے؟ ہم جنس پرستی کی حمایت میں یہ دلیل بھی بہت کثرت سے پیش کی جاتی ہے۔ دیکھئے، آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں، چلیں نہ بھی نکلیں، تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے گھر میں ہی کوئی اسموکر ہو۔ نہ بھی ہوا تو 2014 کے ایک سروے کے مطابق، دنیا کی 20 فیصد آبادی اسموکنگ کرتی ہے۔ تو کیا اسموکنگ کو انسانی فطرت کہا جائے گا؟ چلو یہ بات مان لیتے ہیں کہ یہ بری عادت ہے اور اسے گلیمرائز کرنے کے بعد (بلکہ اس حد تک گلیمرائز کیا گیا کہ اب یہ وبا، بری عادت یا بیماری) ہمارے معاشرے میں قابلِ قبول ہوگئی ہے۔

یہ مثال ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے کہ باوجود اس کے، ہر پیکنگ پر سگریٹ نوشی کے نقصانات لکھے ہوئے ہیں، کتنے لوگ اسموکنگ کر رہے ہیں۔

حاصل کلام یہ کہ ہم جنس پرستی قطعی طور پر فطری عمل نہیں۔ ایک خاص طبقہ یا ایک خاص مائنڈسیٹ ہم جنس پرستی کو سگریٹ کی طرح معاشرے میں قابلِ قبول بنانے اور گلیمرائز کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اس بات پر کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ جس چیز کی بھی اچھی مارکیٹنگ کی جائے، پیسہ اور وقت لگایا جائے، گلیمرائزکیا جائے، وہ چیز معاشرے میں سرایت کرتی جائے گی؛ چاہے وہ اسموکنگ ہو یا ہم جنس پرستی۔

جو لوگ اس طرف مائل ہیں، ان پر تشدد اور سختی انہیں مزید ضدی بناتے ہیں۔ ان لوگوں کو ہماری توجہ اور ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔

ہمارا فرض بنتا ہے کہ نوخیز ذہنوں کو اس گلیمرائزڈ اور سوچی سمجھی سازش کے بارے میں آگاہی دیں۔ جس شدت کے ساتھ اس کی حمایت میں لکھا جارہا ہے، اس ذہنی بیماری کے بارے میں لکھا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد سعید اختر

محمد سعید اختر

بلاگر پیشے کے لحاظ سے آئی ٹی پروفیشنل ہیں اور کئی سال سے مختلف خلیجی ممالک میں ملازمت کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔