مردم شماری کے بغیر منصوبہ بندیاں

نصرت جاوید  جمعرات 27 جون 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

حکومتوں کے لیے جو لوگ معاشی منصوبے یا پالیسیاں بناتے ہیں اور پھر وہ لوگ جو اقتصادی امور کے بارے میں اخبارات کے لیے لکھتے ہیں،کسی ملک کی معاشی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے (Macro\Micro Indicators) کا بہت تذکرہ کرتے ہیں۔

آسان الفاظ میں یہ مختلف شعبوں کے حوالے سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار ہوا کرتے ہیں۔ فی کس آمدنی، سالانہ شرح نمو اور کسی ریاست کے اخراجات اور محاصل سے اکٹھی کی گئی آمدنی کا تقابل وغیرہ۔ ان اعداد و شمار کے مسلسل حوالوں سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کوئی ملک کتنا خوش حال ہے اور اس میں معاشی نمو کے مزید کتنے امکانات ہیں۔ پاکستان میں سالانہ بجٹ پیش ہو جانے کے بعد ہمارے معاشی ماہرین بھی اسی طرح کے مضامین لکھ کر ہمارے علم میں اضافہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

اقتصادیات میرے لیے ایک بہت ہی مشکل موضوع ہے۔ مجھے اس علم کی مبادیات کی بھی کوئی خاص سمجھ نہیں۔ اپنی جہالت کے اس اعتراف کے بعد میں یہ کہنے پر بھی مجبور ہوں کہ ہمارے اتنے پڑھے لکھے لوگ بڑے دقیق اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں سرکاری طور پر ہماری ریاست ابھی تک یہ نہیں جان سکی ہے کہ اس ملک کی کل آبادی کتنی ہے۔ عام طور پر ہم خود کو 18 کروڑ کا ملک کہتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کس بنیاد پر۔

کسی کو یاد ہے کہ ہمارے ہاں آخری مردم شماری کب ہوئی تھی۔ آئین جس کی بالادستی اور مکمل اطلاق کا ہم گزشتہ پانچ سال سے پھیپھڑے پھاڑتے ہوئے مطالبہ کرتے رہتے ہیں، واضح طور پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہر دس سال بعد مردم شماری ہو۔ ہمارے ہاں 1980ء کے بعد سے کئی حکومتیں آئیں اور فارغ ہو گئیں۔ مگر آج تک کسی کو اس جانب قدم اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ ہم نے ایک وزیر اعظم کو ایک غیر ملکی حکومت کو اپنے ہی منتخب کردہ صدر کی ’’ناجائز طور پر جمع کی گئی دولت‘‘ کا سراغ لگانے والا خط نہ لکھنے کے جرم میں گھر بھیج دیا۔

آج کل نو برس تک اس ملک پر بڑی شان سے راج کرنے والے جنرل مشرف مصیبت میں ہیں۔ آئین توڑنے کے جرم میں۔ لیکن ہم مردم شماری کے جدید نظام کے ذریعے اپنی آبادی کا ٹھوس یقین کیوں نہ کر پائے یہ سوال کوئی نہیں اُٹھاتا۔

مردم شماری کے بعد حاصل کردہ کل آبادی کے ٹھوس عدد کے بغیر پاکستان کی فی کس آمدنی کا تعین جو کسی ملک کی مجموعی قومی آمدنی کو اس عدد سے تقسیم کرنے کے بعد حاصل کیا جاتا ہے، صرف ’’طالب بلوچ‘‘ جیسے فن کار ہی کر سکتے ہیں۔ ان صاحب کا تفصیلی ذکر میں ایک کالم میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ بس اتنا یاد دلانا کافی ہو گا کہ کسی سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کی عمر مکمل کرنے کے باوجود یہ صاحب پاکستان کے ہر وزیر خزانہ کو بجٹ بناتے ہوئے بڑی شدت سے درکار ہوتے ہیں خواہ اس وزیر کا نام شوکت عزیز ہو یا حفیظ شیخ اور اب جناب اسحاق ڈار۔

بحیثیت قوم مگر ہم کافی ڈھیٹ ہیں۔ خود کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست کہتے ہوئے اپنا سینہ پھلاتے ہیں مگر اپنے ملک میں موجود بندوں کی گنتی نہیں کر پاتے۔ اس گنتی کا نہ کر پانا اس وقت مزید مضحکہ خیز نظر آتا ہے جب اس ملک میں نادرا جیسے ادارے بھی موجود ہیں جہاں کمپیوٹر سے بنے بڑے ہی اسمارٹ شناختی کارڈ بنائے جاتے ہیں اور پھر ہمارے پاسپورٹ ہیں جو انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی سرحدوں پر غیر ملکیوں کے کوائف اکٹھے کرنے والی مشینوں کی ہر ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔

پنجاب کے خادم اعلیٰ کو گُڈ گورننس کا بہت شوق ہے۔ اگرچہ مردم شماری کرانا ان کی آئینی ذمے داری نہیں مگر وہ رضاکارانہ طور پر اپنے بھائی اور پارٹی کی مرکزی حکومت کو اپنے صوبے میں رہنے والوں کی گنتی کر کے دے سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جدید اور بہتر حکومت چلانے کے نسخے دریافت کر لینے والوں کی حکومت ہے۔ پرویز خٹک اپنے صوبے میں مردم شماری کرانے کے بعد اپنے اس دعوے کا عملی ثبوت فراہم کر سکتے ہیں کہ بالآخر شہباز شریف ان کی نقالی اور تقلید پر مجبور ہو جائیں گے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ دونوں میں سے ایک بھی اس جانب کوئی قدم نہیں بڑھائے گا۔ ہماری ریاست کو اس گاڑی کی طرح خدا کے سہارے چلے جانے کی عادت ہو چکی ہے جس کا انجن بہت خوب نہیں ہوتا اور ڈرائیور بھی اپنے ہنر پر کوئی کمال نہیں رکھتا۔

محض ایک رپورٹر کے طور پر میں نے کئی بار اپنے مختلف النوع حکمرانوں سے بے تکلف محفلوں میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ مردم شماری کرانے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ یہ سب حکمران خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، سرکاری افسر ہوں یا فوجی صرف ایک بات کہتے ہوئے کوئی واضح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں کہ حکومت کے لیے مردم شماری کرانا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ثابت ہو سکتا ہے۔ بلوچستان اور کراچی کا اس ضمن میں خاص طور پر ذکر ہوتا ہے۔ سائنسی اور جدید طور پر ہوئی مردم شماری اصل حقائق سامنے لا کر کونسی سیاسی جماعتوں یا نسلی گروہوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

اس کا ذکر میں بھی نہیں کرنا چاہتا۔ میر ی التجا تو صرف اتنی ہے کہ اب تک خود کو ہم نے دُنیا کی ہر قوم اور ریاست سے بالاتر ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کی بڑھکیں لگا لی ہیں۔ اب صرف ایک بنیادی کام کر ہی ڈالیں۔ اللہ کا نام لے کر اپنے لوگوں کی گنتی کر ڈالیں تا کہ اگلے سال اسحاق ڈار صاحب کو اپنے بجٹ میں عالم اسلام کی واحد اسلامی جمہوریہ کی فی کس آمدنی طے کرنے کے لیے کسی طالب بلوچ کی قوتِ تخیل سے رجوع کرنے کی ضرورت نہ محسوس ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔