بجٹ، مہنگائی اور رمضان المبارک کی آمد

ایم آئی خلیل  جمعرات 27 جون 2013

جنوبی ایشیائی ممالک کی مختلف حکومتوں نے اپنی مانیٹری پالیسی اور بجٹ میں ایسے اقدامات کیے جس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ مثلاً تھائی لینڈ میں افراط زر کی شرح 2.2 فیصد، فلپائن میں 2.6 فیصد، چین میں 2.1 فیصد اور ملائیشیا میں 1.8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ سابقہ حکومت نے 5 سال میں سیلز ٹیکس کی شرح 12 فیصد سے بڑھاکر 16 فیصد کردی تھی۔

موجودہ حکومت سے اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کردی جائے گی، لیکن سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کردیا گیا۔ اس بات کا اعلان ہوتے ہی ہر طرف مہنگائی کا طوفان برپا ہوگیا۔ مہنگائی کی اس آندھی نے ہر شخص کو لرزہ براندام کردیا۔ وطن عزیز کی یہ روایت رہی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے لیکن اس دفعہ بجٹ 2013-14 کا نفاذ بھی ایسے موقع پر ہورہا ہے جب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔

پاکستان میں ماہ جون بجٹ کا مہینہ ہوتا ہے۔ وفاقی بجٹ پیش ہونے کے بعد صوبائی حکومتیں اپنا بجٹ پیش کرتی ہیں۔ پنجاب، سندھ اور صوبہ خیبر پختونخوا کا بجٹ پیش ہونے کے کچھ دن بعد صوبہ بلوچستان کا ایک کھرب 98 ارب 30 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔ ترقیاتی اخراجات کی مد میں 43 ارب 91 کروڑ روپے رکھے گئے۔ گریڈ ایک تا 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 4493 نئی آسامیاں پیدا کی گئی ہیں۔ تعلیم کے لیے 34 ارب 39 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ تعلیمی بجٹ رواں مالی سال کے مقابلے میں 42 فیصد زیاد ہے اور زیادہ خوش آیند بات یہ ہے کہ 5 ہزار طلبا کو ملکی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کے لیے اسکالرشپ دی جائیں گی۔ صحت کے شعبے کے لیے 15 ارب 23 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جوکہ پہلے کی نسبت 37 فیصد اضافہ ہے۔

لیکن نئی صوبائی حکومت کو تعلیم اور صحت کے شعبوں کی زبوں حالی پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، محض رقم بڑھانے سے تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی میں اضافہ نہیں ہوتا۔ شمسی توانائی کے کئی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جن کے ذریعے 300 دیہاتوں کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ بجٹ میں 7 ارب 94 کروڑ کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ زراعت کے لیے تقریباً 8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان کو بے شمار سیاسی، معاشی، سماجی اور دیگر مسائل درپیش ہیں۔ عوام کی اکثریت غربت پسماندگی اور انتہائی عسرت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں یہ بتایا گیا تھا کہ ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بلوچستان میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بعض جائزوں کے مطابق یہ شرح 62 فیصد ہے جوکہ بہت زیادہ ہے۔

صوبائی بجٹ ہو یا وفاقی ان میں ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے عوام میں پائی جانے والی محرومیوں کو دور کیا جاتا ہے۔ وہ علاقے جو دور دراز ہیں، جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ غربت، مفلوک الحالی، بدحالی، پسماندگی بہت زیادہ ہے جیساکہ بلوچستان، اس کے علاوہ ملک کے کچھ اور علاقے بھی ہیں وہاں عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی ایسے اقدامات کرے جن سے عوام کو سکون میسر آسکے۔ بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت سے اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ بجٹ میں رکھی گئی رقوم کو اس طرح سے صاف اور شفاف طریقے سے استعمال کیا جائے گا کہ عوام کو معاشی انصاف نظر آسکے تاکہ غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکا جاسکے۔

پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے غربت میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امیروں پر ٹیکس عائد کرنے کی ناکامی کا بوجھ غریب عوام کی کمر پر لاد دیا جاتا ہے۔ بجٹ کے موقع پر بھی ایسے اقدامات نظر آتے ہیں جس سے امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔ حالیہ بجٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان غربت کے خلاف جنگ ہار رہا ہے۔ کیونکہ 2000 میں اقوام متحدہ نے جب غربت کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا تھا تو یہ ہدف دیا گیا تھا کہ 2015 تک غربت کی شرح میں 50 فیصد کمی لائی جائے گی۔ مختلف ممالک کی حکومتوں نے کئی اقدامات کیے جن میں بجٹ پالیسی اہم ہے، جس سے غربت کی شرح کم ہوئی، افراط زر کی شرح میں کمی واقع ہوئی، جیساکہ شروع میں چند ایشیائی ممالک میں افراط زر کی شرح کا ذکر کیا گیا۔

گزشتہ اتوار کو بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ یکم جولائی سے جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ نافذ العمل ہوگا۔ 503 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ بجٹ میں رکھا گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے بلکہ قرض اپنی شرائط پر لیں گے۔ یہاں زمینی حقائق اس بات کی طرف انگشت نمائی کر رہے ہیں کہ بجلی کے نرخ میں اضافہ اسی ادارے کے اشارے پر کیا جارہا ہے۔ اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کھاد، بجلی اور دیگر کئی اشیا پر سبسڈی دے رہی ہے لیکن اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کیا بجلی کی پیداواری لاگت اتنی زیادہ ہوگئی یا اس میں ان پیداواری اداروں کا منافع بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ یہی ادارے خطے کے دیگر ممالک کو پاکستان کی نسبت سستی بجلی مہیا کر رہے ہیں۔

اسی طرح کھاد کی اصل لاگت کیا آتی ہے اور پھر کسان سے اتنی زیادہ قیمت وصول کی جاتی ہے۔ پھر جو سبسڈی دی جاتی ہے تو وہ منافع خود ذخیرہ اندوز اڑا لے جاتے ہیں کیونکہ کاشتکار کی اکثریت زیادہ دام ادا کرکے ہی کھاد خریدتی ہے۔ ماہرین کے مطابقGST میں ایک فیصد اضافے سے بعض اوقات اشیا کی قیمت 4 تا 6 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ یکم جولائی کے چند یوم کے بعد رمضان المبارک کا آغاز ہورہا ہے لہٰذا منافع خوروں کو اشیاء کی بلاجواز قیمت بڑھانے کا بہانہ ہاتھ آجائے گا۔

سرکلر ڈیٹ کے بارے میں گزشتہ اتوار کو حکومت نے واضح کیا کہ سابقہ حکومت نے بھی 1485 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ادا کیا تھا۔ یہ کوئی فخر نہیں یہ مالی بدنظمی ہے، حکومت نے اس بدنظمی کا خاتمہ کرنا ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریہ پر ٹیکس نہ بڑھانے کا باقاعدہ بیان ایف بی آر کی طرف سے جاری کیا گیا ہے اور اراکین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں اس کا نفاذ یقینی بنائیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان اراکین اسمبلی کو اس سلسلے میں اختیارات بھی سونپے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں خاص طور پر رمضان المبارک کے موقع پر ناجائز منافع خوری، بلاجواز قیمتوں میں اضافہ، کم معیاری اشیا کی فروخت، مارکیٹ کمیٹی یا مجاز ادارے کی طرف سے پرائس لسٹ کے مطابق اشیا کی فراہمی، مضر صحت اشیا کی فروخت، ملاوٹ، اس ماہ میں خاص طور پر پھل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا جاتا ہے، ان تمام باتوں کے تدارک کے لیے ممبران قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے پاس واضح لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ بجٹ کے بعد ناجائز منافع خوروں کے ساتھ سخت کارروائی کریں گے، کافی نہیں ہے۔ اس قسم کی کارروائی کا اعلان پہلے بھی ہوتا رہا ہے، لیکن اس دفعہ پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہے، عوام کی قوت خرید ختم ہوکر رہ گئی ہے۔

بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے بعض ممبران نے یہ کہا ہے کہ کفایت شعاری کو فروغ دے کر کابینہ سیکریٹریٹ کے اخراجات میں مزید کمی کی جائے۔ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھا دیا گیا ہے ۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کو بھی زیادہ ٹیکس دینا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ہاتھ سے تنخواہوں میں اضافہ کرکے دوسرے ہاتھ سے اس اضافے کو اس طرح واپس لیا گیا ہے کہ آئندہ چل کر بجلی کے بلوں میں اضافہ اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث انھیں اپنی تنخواہوں میں معمولی اضافہ بے معنی دکھائی دینے لگے گا۔ اس کالم کے ذریعے حکومت کی توجہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ورکرز کی جانب دلانا چاہوں گا۔ جنہیں وہاں پر قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکام بھی بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور ان پاکستانی ورکرز کی بھرپور امداد کرنی چاہیے جو وہاں پر ان مسائل کا شکار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔