شاعر انسانوں کو ماضی اور مستقبل سے جوڑ کر رکھتے ہیں، مقررین

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 24 نومبر 2018
 اْردو کانفرنس کے اجلاس سے نجمہ رحمانی، صبا اکرام، ڈاکٹر آصف فرخی، خالد محمود،اخلاق احمد ودیگرخطاب۔ فوٹو: فائل

 اْردو کانفرنس کے اجلاس سے نجمہ رحمانی، صبا اکرام، ڈاکٹر آصف فرخی، خالد محمود،اخلاق احمد ودیگرخطاب۔ فوٹو: فائل

 کراچی: آرٹس کونسل کی اْردو کانفرنس کے دوسرے دن ’’ اْردو شاعری نئی پرانی تخلیقی جہات‘‘ کے عنوان پر منعقدہ پہلے اجلاس میں ممتاز شعرانے اظہارِ خیال کیا۔ صدرات کے فرائض معروف شاعر افتخار عارف، امداد حسینی، جاذب قریشی، افضال احمد سید اور برطانیہ سے آئے ہوئے باصر کاظمی نے انجام دیے نظامت معروف شاعر راشد نور نے انجام دی۔

ممتاز محقق مترجم اور دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر نجمہ رحمانی نے کہا کہ اس نسل کے پاس معاشرے کا بھرپور شعور موجود ہے،شاعرانسانوں کو ماضی اور مستقبل سے جوڑ کررکھتے ہیں، 1960/70ء کے حالات سے اب غزل نکل آئی ہے غزل میں ایک بڑی تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ وہ نئی صورتحال کو سمجھنے لگی ہے، یہ کوشش شعرا نے شعوری طور پر کی ہے۔

یاسمین حمید نے ’’شعری تخلیق میں نئی پرانی جہات کا تصور‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا شاعر صبا اکرام نے کہا کہ جدید نظم کے حوالے سے سلیم الرحمن، کشور ناہید، افضال سید، فہمیدہ ریاض، تنویر انجم، انور سن رائے، سید کاشف رضا، شبیر ناظم، سلیم شہزاد، عذراعباس، سعادت سعید، سلیم آغا قزلباش ، رئیس فروغ، علی محمد فرشی، مبین مرزا، ایوب خاور ، اقتدار جاوید، سحر انصاری، زہرا نگاہ، پیرزادہ قاسم، جاذب قریشی، مسلم شمیم اور دیگر کا نام نمایاں ہے۔

معروف شاعرہ تنویر انجم نے کہا کہ عورت کو نسائیت کے مرتبے پرمرد کے برابر دیکھنا یہ نسائی شعور ہے، 1894 میں پیدا ہونے والی شاعرہ زاہدہ خاتون شیروانی جدیدیت کی پہلی شاعرہ خاتون تھیں جبکہ ادا جعفری نے ان کے بعد جنم لیا تھا، ادا جعفری کو ہم نسائیت پسند قرار نہیں دے سکتے، زہرا نگاہ، کشور ناہید اور دیگر نے عورت کے لیے آزادی کی طرف پہلا قدم بڑھایا۔

علاوہ ازیں اْردو کانفرنس کے ’’اْردو فکشن :ماضی ، حال اور مستقبل ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے معروف افسانہ نگار مرزا حامد بیگ، اسلم جمشید پوری، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر آصف فرخی، خالد محمود سنجرانی، اخلاق احمد، زیب اذکار حسین اور دینیل جوزف نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے،اجلاس کی صدارت اسد محمد خاں، مستنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، عامر حسین اور نور ظہیر نے کی جبکہ نظامت کے فرائض اوجِ کمال نے انجام دیے۔

چوتھے اجلاس کے موقع پرجمیل الدین عالی کی تیسری برسی کے حوالے سے ان کی ’’طویل نظمیں اور جمیل الدین عالی کی نظم انسان (تجزیاتی مطالعہ) کا اجراء‘‘ بھی کیاگیا جو ان کی وفات کے تین سال بعد شائع کی گئی ہے، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ذوالقرنین جمیل اوررخسانہ صبانے اظہارِ خیال کیا جب کہ نظامت کے فرائض شہناز نصیر نے انجام دیے۔

اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ جمیل الدین عالی کی ’’طویل نظمیں اور جمیل الدین عالی کی نظم انسان (تجزیاتی مطالعہ) ‘‘ کی اشاعت ایک ایسا عمدہ کام ہے جسے روایات کا حصہ بن جانا چاہیے، پانچویں اجلاس میں ’’اْردو سائبر اسپیس میں‘‘ کے موضوع پر وجاہت مسعود، ایوب خاوراور حارث خلیق نے اظہارِ خیال کیا جبکہ نظامت اویس توحید نے کی۔

اردویونیورسٹی میں جمیل الدین عالی کی برسی پر ریفرنس کاانعقاد

وفاقی اردو یونیورسٹی کے گلشن اقبال کیمپس میں جمیل الدین عالی کی تیسری برسی پرتعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکا نے جمیل الدین عالی کی نہ صرف ہمہ جہت خصوصیات کا تذکرہ کیا بلکہ جامعہ اردو کے قیام کے حوالے سے اُن کی بے مثال شبانہ روز کاوشوں کو بالخصوص سراہاگیا،شرکا نے گورنر عمران اسماعیل کو یاددہانی کے لیے باور کرایا کہ سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے جامعہ اردو میں عالی جی کی خدمات کے پیش نظر ’’عالی چیئر‘‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا مگر بوجوہ اِس کی تکمیل نہ ہوسکی۔

لہذا اب موجودہ حکومت اِس حوالے سے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے عالی چیئرکے قیام کو ممکن بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ،جامعہ اردو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین نے کہا کہ جامعہ اردو کے قیام کے آغاز سے ہی عالی جی نے اُن پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تھا لہذا وہ نہ صرف جامعہ اُردو کے قیام کے حوالے سے تقریباً تمام ہی قانونی کاغذی کارروائیوں میں ابتداء ہی سے اُن کے ساتھ تھے بلکہ پہلے اعزازی وائس چانسلر جامعہ اردو بننے کا بھی اِسی وجہ سے انہیں شرف حاصل ہے عالی جی جیسی عظیم شخصیات دنیا میں کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ہمیں فخر ہے کہ عالی جی ہمارے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔