خواتین پر تشدد کیخلاف مضامین نصاب میں شامل کیے جائیں، ایکسپریس فورم

اجمل ستار ملک  ہفتہ 24 نومبر 2018
لڑکیوں کی شادی کی کم ازکم عمر18برس مقرر کرنے کیلیے عدالت سے رجوع کرینگے، سعدیہ سہیل رانا، سلمان عابد کا اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

لڑکیوں کی شادی کی کم ازکم عمر18برس مقرر کرنے کیلیے عدالت سے رجوع کرینگے، سعدیہ سہیل رانا، سلمان عابد کا اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

 لاہور:  حکومت خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے مضامین تعلیمی نصاب میں شامل کرنے جا رہی ہے جبکہ شعبہ تدریس سے منسلک اداروں میں سائکاٹرسٹ بھرتی کیے جائیں گے تاکہ صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

سیاسی و سماجی رہنماؤں نے ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہوم بیسڈ خواتین ورکرز کولیبر ڈپارٹمنٹ اور سوشل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ کرنے کا بل کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے، منظوری کے بعد جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ چائلڈ میرج کے خاتمے کے سلسلے میں شادی کے لیے کم از کم عمر 16 سال یقینی بنانے کیلیے شادی کو ’’ب فارم‘‘ سے مشروط کردیا گیا ہے جبکہ عمر کی حد 18 سال کرنے کیلیے عدلیہ سے رجوع کیا جارہا ہے۔

پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کو وزیر اعظم کی جانب سے آن لائن شکایات کی فہرست موصول ہوئی ہے جن کے ازالے کیلیے کام کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، متعلقہ ادارے خواتین کو بھرپور تحفظ دیں تاکہ یہ پیغام جائے کہ وہ ریاست کی بیٹیاں ہیں۔

وزیر برائے ویمن ڈیویلپمنٹ پنجاب آشفہ ریاض نے کہا ہے کہ ہمیں تشدد کے خاتمے کو تعلیمی اداروں سے جوڑنا ہوگا۔ رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف سعدیہ سہیل رانا نے کہا کم عمری کی شادیوں کے خلاف ہم نے گزشتہ 5 برس بہت زیادہ کام کیا۔ لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کرنے کے لیے جلد عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے کہا دنیا میں ترقی کو خواتین کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے لہٰذا ہم خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔