آئین سے بغاوت، مشرف تسلی رکھیں، فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جائیں گے، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس  جمعـء 28 جون 2013
 فیئر ٹرائل ہو تو مشرف کوکوئی خوف نہیں، وکیل، پنڈورا باکس کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے، جسٹس جواد،سماعت آج تک ملتوی. فوٹو: فائل

فیئر ٹرائل ہو تو مشرف کوکوئی خوف نہیں، وکیل، پنڈورا باکس کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے، جسٹس جواد،سماعت آج تک ملتوی. فوٹو: فائل

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے سابق آمر پرویز مشرف کی طرف سے3نومبر2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی تحقیقات کیلیے 4 رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بتایا کہ حکومت نے آرٹیکل 6 کے نفاذ کے حوالے سے ایک کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل خالد قریشی، ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد اعظم خان، ڈائریکٹر حسین اصغر اور ڈائریکٹر محمود الحسن پر مشتمل چار رکنی کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ کمیٹی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ وزارتِ داخلہ کو بھیجے گی۔

اے پی پی کے مطابق وزیر داخلہ نے مختلف نکتہ ہائے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مخدوم امین فہیم نے کس بنیاد پر دہرے معیار کی بات کی ہے جو ناقابل فہم ہے، سابق دور حکومت سے پٹیشن سپریم کورٹ میں تھی جو صرف 3 نومبر کے حوالے سے ہے، عدالت نے ہم سے استفسار کیا ہم نے سب سے پہلے اس ایوان کو آگاہ کیا، فاضل رکن کو پٹیشن پڑھ کر بات کرنی چاہیے تھی، ہم کسی دہرے معیار پر یقین نہیں رکھتے، کراچی کے معاملے پر صوبائی حکومت کا موقف واضح ہونے اور سندھ کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے اور صوبائی حکومت کی مرکزی حکومت کے درمیان کوآرڈینیشن کو موثر کرنے کی ضرورت ہے، وزارت داخلہ صوبے کے ہر معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی، ہم آئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں، کراچی کے عوام سمیت پورا ملک ان حالات پر اذیت کا شکار ہے۔

شیخ رشید کے نکتہ اعتراض کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 1956 سے کیس کھولنا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، پاک فوج کی کسی بھی صورت تضحیک منظور نہیں کیوں کہ جو افراد اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ملک و قوم کیلیے قربانی دیتے ہیں وہ اس ملک کے ماتھے کا جھومر ہیں، پرویز مشرف کو ایک جنرل یا سابق آرمی چیف کے طور پر دیکھنے کے بجائے مجرم کے طور پر دیکھا جائے۔ انھوں نے ایوان کو بتایا کہ عسکریت پسندی، ڈرون حملوں اور ملک میں قیام امن کے حوالے سے آئندہ ماہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز پر مشتمل اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں آرمی چیف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام بھی شرکت کرینگے۔

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے نکتہ اعتراض کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری قیادت نے کیسوں کے حوالے سے کبھی پیپلز پارٹی سے کسی سطح پر معذرت نہیں کی، میثاق جمہویت پر بات چیت کے دوران اس پر بات ہوئی کہ دونوں جماعتوں کیخلاف مقدمات واپس لئے جائیں، ہمارا موقف واضح تھا کہ مقدمات کا فیصلہ کرنے کا تمام تر اختیار عدالت کے پاس ہے، ہمیں حقائق مسخ کرنے کی بجائے اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے، سپریم کورٹ کو سوئس مقدمات کے حوالے سے آئین اور قانون کے مطابق جواب دینا ہے، سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں وفاق اور صوبوں کے درمیان کیا تعلق ہونا چاہئے اس سمیت کوئی سکیورٹی پالیسی نہیں، ان تمام امور پر بات کرنی چاہیے، ان امور کو پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس میں حتمی شکل دے کر ایوان میں پیش کرینگے۔

آن لائن کے مطابق چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ تین نومبر 2007 کے اقدامات کا ذمے دار صرف ایک شخص پرویز مشرف ہے، ساڑھے آٹھ سال اقتدار کے مزے فوج نے نہیں مشرف نے اڑائے ہیں، اب وہ فوج کو انصاف کے کٹہرے میں گھسیٹنا چاہتے ہیں لیکن ہم پاک فو ج کی عزت یا نام پر کوئی داغ نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور وفاق مل کر ایک طریقہ کار طے کریں میں اپنے تمام اختیارات صوبائی حکومت کو دینے کو تیار ہوں، مزید اختیارات فورسز کو چاہیئں تو ہم وہ بھی دینے کو تیار ہیں۔ آئی این پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ عوام اور میں دہشت گردی ایشو پر مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ نے بغاوت کیس میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو حراست میں لینے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کر دی جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ پنڈورا باکس کھلنے کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے، نتائج سے آگاہ ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ سچ اور آئین و قانون کا بول بالا ہو، شکایت کنندہ کے طریقہ کار میں سپریم کورٹ قطعی مداخلت نہیں کرے گی، پرویز مشرف تسلی رکھیں.

فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جائیں گے، گزشتہ چھ سال کے دوران آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے لیے کچھ نہیں ہوا، اب کم ازکم پیش رفت تو شروع ہوئی ہے، عدالت کو حکومت کی نیت پر کوئی شک نہیں جو بھی کارروائی ہو گی حکومت خود کرے گی، سپریم کورٹ آرٹیکل 6 کی تشریح کر کے آئندہ کیلئے مثال قائم کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کیلئے حکومت کا عزم عدالت کے ریکارڈ پر تحریری صورت میں موجود ہے، خصوصی عدالت متعلقہ چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد قائم کر دی جائے گی، پرویز مشرف کے وکیل نے سابق صدر کی جانب سے کیس میں اپنے اعتراضات عدالت میں جمع کرا دیئے۔ سابق ڈکٹیٹر جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلانے کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل بنچ نے کی۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے حکومت کی طرف سے جمع کر دہ بیان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ پہلے شواہد جمع کیے جائیں گے اس کے بعد قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔

بی بی سی کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سنگین غداری کے مقدمات کی تحقیقات کرنے کا اختیار ایف آئی اے کے پاس ہے اور اس ضمن میں سیکرٹری داخلہ کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، 3 نومبر کے اقدامات کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم جلد تحقیقات کریگی، تحقیقات مکمل ہوتے ہی خصوصی عدالت قائم کی جائے گی جس کے لئے چیف جسٹس سے مشاورت ہو گی۔ آن لائن کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ شواہد اکٹھے ہونے کے بعد سیکرٹری داخلہ  1976کے ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت میں شکایت درج کرائیں گے، خصوصی عدالت کے قیام اور تحقیقات سے متعلق دو اعتراضات آئے، ہم یہ اقدام کسی بدلے یا انتقامی کارروائی کے لئے نہیں بلکہ ہمارے اقدام کا مقصد خالصتا آئین و قانون کی بالادستی ہے، پوری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارا نظام کتنا شفاف اور بہترین ہے۔ خصوصی خبر نگار کے مطابق حامد خان نے حکومتی بیان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی ملزم کے خلاف کارروائی شروع ہونی چاہئے۔

انھوں نے پرویز مشرف کو زیر حراست لینے کی بھی استدعا کی اور کہا ملزم کی کوشش ہو گی کہ جتنا ممکن ہو سکے لوگوں کو اپنے ساتھ ملوث کرے تاکہ ٹرائل کبھی نہ ہو سکے۔ جسٹس جواد نے کہا یہ باتیں ہمارے ذہن میں ہیں کیونکہ دوران بحث پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری با رہا کہہ چکے ہیں کہ ٹرائل سے پنڈورا باکس کھلے گا، پیشہ ور افراد پر مشتمل ایک ٹیم تفتیش کرے گی، اس کے بعد جو کرنا ہے حکومت خود کرے گی۔ این این آئی کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ہم پنڈورا باکس کھلنے کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے، نتائج سے آگاہ ہیں، عدالت کے نزدیک کسی کا ذاتی فعل نہیں آئین اور قانون مقدم ہے۔ خصوصی خبر نگار کے مطابق حامد خان کا کہنا تھا پہلے شکایت درج ہو اس کے بعد تفتیش کی جائے۔ آن لائن کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ باضابطہ شکایت کے اندراج کے بغیر حراست کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے، یہ نجی نہیں بلکہ ریاستی شکایت ہے لہٰذا ریاست اسے پہلے حراست میں لے سکتی ہے، ملزم کے ساتھ مروجہ قانون کے تحت ہی کارروائی ہونی چاہئے۔

خصوصی خبر نگار کے مطابق درخواست گزار عبدالحکیم نے کہا کارروائی صرف پرویز مشرف کے خلاف ہونی چاہئے کیونکہ وہ اس وقت فوج کے سپہ سالار تھے اور کمانڈ کر رہے تھے اس پر جسٹس جواد نے کہا ہم حکومت کو پابند نہیں کر سکتے، وہ مجاز اتھارٹی ہے اور شواہد کی بنیاد پر جس کے خلاف چاہے مقدمہ دائر کر سکتی ہے۔ درخواست گزار انجنئر جمیل نے کہا حکومت کا عزم نظر آرہا ہے اس لئے انتظار کرنا چاہئے، جب ٹرائل ہو گا تو پرویز مشرف ان لوگوں کی خود نشاندہی کر دیں گے جو ان کے ساتھ شامل جرم تھے۔ جسٹس جواد نے کہا ہم اپنے آئین کے ذمہ دار ہیں اور اس پر عمل یقینی بنائیں گے۔ پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے حکومتی بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا جب حکومت ان کے موکل کے خلاف ہے اور یہ تاثر ہو کہ کارروائی سپریم کورٹ کی شکایت پر ہو رہی ہے تو پھر انصاف کیسے ہو گا۔ فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں اس عدالت پر مکمل اعتماد ہے۔

حکومت سپریم کورٹ کے نام کا استعمال نہ کرے اور عدالت ہدایت جاری کرے کہ سندھ ہائی کورٹ بار کیس کے فیصلے میں آبزرویشن کو ان کے موکل کے خلاف استعمال نہ کیا جائے، ان کے موکل کی زندگی اور موت اب عدالت کے ہاتھ میں ہے، بنچ ان کے آئینی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ان سے استفسار کیا کہ کس طرح تحفظ دیا جا سکتا ہے اس پر فاضل وکیل نے کہاکہ تمام کارروائی آزادانہ ہونی چاہئے۔ این این آئی کے مطابق پرویز مشرف کی جانب سے ابراہیم ستی نے متفرق درخواستوں کی صورت میں تحفظات عدالت میں جمع کروائے جس میں کہا گیا کہ فیئر ٹرائل کے حوالے سے میڈیا ٹرائل، موجودہ عدلیہ اور انتظامیہ پر تحفظات ہیں، سپریم کورٹ کے ریمارکس غداری کیس پر اثرانداز نہیں ہونے چاہئیں، یہ تاثر نہیں ملنا چاہئے کہ غداری کیس میں سپریم کورٹ شکایت کنندہ ہے، ایسا ہوا تو یہ فیئر ٹرائل کے بنیادی حق کے منافی ہو گا، حکومت کے موجودہ سربراہ 12 اکتوبر 1999 کے واقعے سے براہ راست متاثر ہوئے عدالت فیصلہ صادر کرنے سے پہلے میرے جواب بھی ملحوظ رکھے، فیئر ٹرائل کا حق ملے تو پرویز مشرف کو غداری کیس کا کوئی خوف نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پرویز مشرف تسلی رکھیں، کسی کو بدگمان نہیں ہونا چاہئے، فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے سے متعلق تحقیقات غیر معینہ مدت کیلیے نہیں ہو گی، وقت متعین کیا جائے گا، پرویز مشرف کو صفائی کا پورا موقع دیا جائیگا۔ خصوصی خبر نگار کے مطابق اٹارنی جنر ل نے کہا کہ ہر چیز شفاف ہو گی، غیر جانبداری سب کو نظر آئے گی۔ جسٹس جواد نے کہا لوگوں کو لٹکانے کیلئے کنگرو کورٹس بھی بنیں اور نیورم برگ ٹرائل بھی ہوا، ہمارے ملک میں بھی یہی ہوا ہے اس لیے ٹرائل ایسا ہو نا چاہئے کہ سچ خود بولے، ہمیں یقین ہے کہ استغاثہ شفاف ہو گا۔ پرویز مشرف کے دوسرے وکیل قمر افضل نے بھی اعتراضات اٹھائے اور کہا عدالتی کارروائی سے ان کے موکل کی حق تلفی ہوئی ہے۔ ابراہیم ستی نے درخواستوں کو نمٹانے کی استدعا کی تاہم عدالت نے استدعا مسترد کر دی۔ این این آئی کے مطابق سماعت کے دوران درخواست گذاروں کے وکلا نے مشرف کو گرفتار کرنے کی استدعا کی جو عدالت نے مسترد کر دی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ غداری کے مقدمے میں شکایت درج کرائے بغیر گرفتاری نہیں ہو سکتی۔

اے پی پی کے مطابق عدالت عظمٰی نے مختلف نیوز چینلز پر چلنے والی اس خبر کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ غداری ایکٹ 1973ء کے تحت پرویز مشرف کے خلاف کارروائی سے متعلق مقدمہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق سول پٹیشن نمبر 2255 آف 2010ء (مولوی حیدر بنام وفاق پاکستان بذریعہ وزارت قانون و انصاف و دیگر) میں فیصلہ محفوظ کرنے سے متعلق خبر درست نہیں۔ درحقیقت جمعرات کو معزز عدالتی بینچ نے سماعت کے بعد اپنا حکم بعد ازاں لکھوانے کا کہا تھا۔ بیان میں وضاحت کی گئی کہ اس مقدمے میں فیصلہ محفوظ نہیں کیا گیا کیونکہ مقدمے میں کارروائی جاری ہے اور کچھ فریقین کو ابھی سنا جانا ہے، مقدمے کی سماعت (آج) جمعہ کو ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔