- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
آئو، ہمالیہ سرکرتے ہیں
یہ ایک زین گروکا قصہ ہے۔
بدھ کا سندیسہ جب چین پہنچا ، تو اس نے علاقائی دانش اور تجربے سے اشتراک کیا، تائو مت کے اثرات قبول کیے، روزمرہ زندگی سے خود کو جوڑا اور یوں زین حکایتوں ظہور ہوا ۔
تو یہ ایک زین گروکا قصہ ہے، جو قریب المرگ تھا اور اس کے شاگردوں، جو اس کے الفاظ میں فلاح کھوجتے تھے، اس کی کٹیا میں موجود تھے۔ اور ان کی نظریں گرو پر ٹکی تھیں، جو آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ وہ چوکس اور چوکنے، سماعتیں وا کیے وہاں موجود تھے اور منتظر تھے کہ گیانی کچھ کہے کہ انھیں یقین تھا ، اس بزرگ کے دانش کے پیالے سے چھلکنے والے آخری قطرے، وہ قطرے ہوں گے، جن میں پورا سمندرموجزن ہوگا۔
تو وہ اس کے ہونٹوں پر نظریں مرکوزکیے بہت دیر سے منتظر تھے، مگر گرو چپ تھا اور بار بار دروازے کی سمت دیکھتا تھا۔ گویا کسی کا منتظرہو اور پھر اس کا چہیتا چیلا اندر داخل ہوا ، اوروں کے برعکس پرسکون اور مسکراتا ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں روٹی تھی۔
اور اس نے کہا ۔’’ میں آپ کے لیے یہ روٹی لایا ہوں، مجھے خبر ہے کہ آپ کو یہ پسند ہے۔ دیکھیں، یہ اب بھی گرم ہے۔‘‘
گرو نے دیکھا کہ وہ واقعی گرم ہے اور دھیرے دھیرے اسے کھانے لگا اور تب کٹیا میں خاموشی تھی اور باقی شاگرد ہمہ تن گوش تھے۔ وہ بہت دیر سے منتظر تھے، مگر گرو نے توجیسے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا ۔ آخر ان سے رہا نہیں گیا۔وہ پوچھ بیٹھے۔
’’اے گیان کے ساگر ، تو رخصت ہونے کو ہے، جاتے جاتے توہمیں کیا پیغام دیناچاہے گا؟‘‘
اور تب گرو نے لقمہ چباتے ہوئے کہا ’’یہ روٹی مزے دار ہے۔‘‘
یہ کہہ کر گیانی نے آخری سانس لیا اور رخصت ہوا۔
زین مت میں ایسی کئی سنہری حکایات ہیں، جو سماعتوں سے ہوتی ہوئی دل میں اتر جاتی ہیں۔ ٹھیک اس حکایت کے مانند ۔ یہاں روٹی زندگی کی علامت ہے اور پیغام یہ کہ زندگی جتنی بھی میسر ہے، مزے دار ہے۔
صاحبو، زندگی کا کرشمہ یہ ہے کہ ایک روز اچانک۔۔۔ یہ ختم ہوجائے گی ۔ایسے میں عقل کا تقاضا تویہی کہ اس سے قبل یہ ختم ہو جائے، اسے جی لیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ زندگی جی کیسے جائے؟ یہ تلخ زندگی، غیرمنصفانہ، مایوس کن، عدم مساوات پر مبنی زندگی ؟ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دشوار ہوتی زندگی، مصائب میں گھری زندگی ، آخر اِس ظالم کو جینے کے قابل کیسے بنایا جائے ؟
ایک نسخہ تو یہی ہے کہ موت سے پہلے انسان مرنے سے انکار کر دے۔ اجل کے آنے تک زندگی کو جیتا رہے، اسے قبول کرے، گلے لگائے، آخری سانس سے پہلے ہر سانس کو تحفہ جانے۔ اس کی تلخی ، ناہمواروں ، مشکلات کو ساتھ لیے چلتا جائے۔ ہنستا مسکراتا ، گیت گاتا آگے بڑھتا رہے۔
مگر یہ اتنا سہل نہیں ۔ ہرکوئی زین گرو سا گیانی نہیں ہوتا ، جو خود کو لمحہ حال کے اسرار سے ہم آہنگ کر لے اور پکار اٹھے کہ یہ روٹی مزے دار ہے۔
اس تجربے کے لیے اچھوتی اہلیت کی کھوج ضروری ہے۔
اوراچھوتی اہلیت سے مراد وہ قابلیت ہے، جو قدرت نے خاص آپ کو عطا کی ۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے اس نے آپ کے لیے منفرد فنگر پرنٹس تراشے۔ بے شک قدرت ایک عظیم آرٹسٹ ہے۔
یہ اہلیت وہ کام ہے، جسے کرتے سمے آپ وقت سے ماورا ہوجاتے ہیں ، مسرت سے بھرجاتے ہیں۔ کام، جسے انجام دیتے ہوئے آپ اپنی انا سے اٹھتے ہوئے لطافت کا تجربہ کرتے ہیں۔
یہ کام کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے لکھنا ، گیت گانا ، موسیقی ترتیب دینا ، رقص کرنا ، تقریر کرنا ، کھیتی باڑی، مصوری، کھانا پکانا، تدریس، صحافت، یہاں تک کہ فقط کسی کو سننا اورکبھی کبھار فقط چپ رہنا۔ کچھ بھی۔
قدرت نے انسان کو جو اچھوتی اہلیت دی ہے، اس کی کھوج اور اظہار ہی کانام زندگی ہے۔ ٹالسٹائی کے لیے یہ کام فکشن نگاری تھا، رائٹ برادرزکے لیے پرواز، چے گویرا کے لیے انقلاب، مارٹن لوتھرکنگ کے لیے خطاب اور ایلوس پریسلے کے لیے گائیکی۔
جب فرد یہ کام انجام دیتا ہے، فقط تب ہی وہ حیات ہوتا ہے۔ ورنہ تو وہ ایک مردہ شخص ہے، جو بہ ظاہر چل پھر رہا ہے، سانس لے رہا ہے۔ ہنس بول رہا ہے، مگر ہمہ وقت قبر میں ہے۔ ہر پل مر رہا ہے۔
اگر وہ زندہ ہوگا، تو مرتے ہوئے بھی کہہ سکے گا: یہ روٹی مزے دار ہے۔
اچھوتی اہلیت کی کھوج آسان نہیں ۔ اس کی راہ میں کئی رکاوٹ حائل ہیں۔ سہل پسندی، سستی، خوف ، اندیشہ ، شرم ، جھجک۔سماجی دائرے۔
ایک استاد کے لیے سہل نہیں کہ ایک دن اپنی پرانی زندگی ترک کرکے رقص کرنے لگے۔ایک ماں کے لیے آسان نہیں کہ وہ روزہ مرہ معمولات کی قید توڑ کر شعر کہنے لگے۔ ایک ڈاکٹر کے لیے آسان نہیں کہ وہ ایک صبح برش اٹھا لے۔ ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے لیے سہل نہیں کہ ایک شام کوکنگ شروع کر دے۔
اور ایسا کوئی مشورہ بھی نہیں دیا جاسکتا کہ توازن زندگی کا حسن ہے۔البتہ جب تک آپ اندر کے مصور کو، رقاص کو، فن کار کو رد کرتے رہیں گے، جب تک آپ اپنی اچھوتی اہلیت سے انکارکرتے رہیں گے، آپ نامکمل رہیں گے۔ ممکن ہے، آپ مطمئن محسوس کریں، مگر قدرت مطمئن نہیںہوگی ۔ وہ تب ہی مسرور ہوگی، جب آپ وہ قابلیت کھوج نکالیں ۔ دھیرے دھیرے اسے وقت دینے لگیں ۔ دھیرے دھیرے اُسے اختیار کرتے جائیں۔ یہاں تک کہ ایک دن آپ اسے پا لیں۔
اور یہ وہ لمحہ ہوگا، جب وقت تھم جائے گا اور آپ اس جادو کا تجربہ کریں گے، جو صرف لمحہ حال میں دستیاب ہے اور تب آپ بھی یہ کہہ سکیں گے: یہ روٹی مزے دار ہے۔
تو کیا ہے آپ کی اچھوتی اہلیت؟
اگر آج آپ نے اِس کا جواب پا لیا، تو سمجھیں، ہمالیہ سر ہوا ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔