کیسی ماں ہو تم !!

شیریں حیدر  اتوار 25 نومبر 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ کیسی ماں ہو تم !!‘‘ وہ چیخ کر بولیں تو ریستوران میں بیٹھے ہوئے آدھے سے زیادہ لوگ کھانابھول کر اس طرف متوجہ ہو گئے تھے… باقی لوگوں کو اس کا نظارہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اوٹ میں تھے مگر کان تو ان کے بھی کھڑے ہو گئے ہوں گے کیونکہ ان خاتون نے کوئی کوشش نہ کی تھی کہ ان کی آواز ہر طرف سنائی نہ دے۔

’’ جی؟؟ ‘‘ اس نوجوان لڑکی نے اپنے ہاتھوں سے مضبوطی سے اپنے بچے کو پکڑ رکھا تھا جو کہ اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا ، اس آواز کا ہدف خود کو محسوس کر کے اس نے پھر بھی بے یقینی سے پوچھا، ’’ آپ نے مجھ سے کچھ کہا آنٹی؟‘‘

’’ کوئی شوق نہیں مجھے تمہاری آنٹی بننے کا ننھی گڑیا! ‘‘ ان سے عزت کا طرز تخاطب برداشت نہ ہوا تھا، ’’ مجھے آنٹی کہہ کر مت مخاطب کرو!!‘‘ انھوں نے انتہائی غصے سے کہا۔

’’ میں تو آپ کو مخاطب ہی نہیں کرنا چاہتی … آپ نے خود ہی یہاں آ کر غالبا مجھے ہی مخاطب کیا ہے اور میرے بارے میں رائے دی ہے جس کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے!!‘‘ لڑکی کو بھی اتنے لوگوں میں اپنی ہتک محسوس ہوئی تھی اور جوان خون میں تو یوں بھی گرمی زیادہ ہوتی ہے۔

’’ میں نے کافی دیر تک برداشت کیا مگر تمہارا انداز مجھے اتنا غلط لگاکہ میں یہاں آ کر تم پر چیخے بنا رہ نہیں سکی!! ‘‘

’’ اچھا… تو آپ کا انداز درست ہے اور میرا غلط!!‘‘ لڑکی نے ابرو اچکا کر پوچھا۔

’’ ہاں جب کوئی غلط کر رہا ہو تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اور نہ ہی خاموش رہا جاتا ہے!! ‘‘

’’ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے اے اجنبی عورت!! ‘‘ اس لڑکی نے اپنے ہاتھوں کے سخت لمس سے ہی بچے کو اب تک قابو کر لیا تھا جو یوں بھی کسی کی دراندازی سے سہم گیا تھا۔

’’ یہ کیا بے ہودہ انداز گفتگو ہے لڑکی؟‘‘ وہ غصے سے بولیں ۔…’’ آنٹی آپ کہلانا نہیں چاہتیں… ماں میں آپ کو کہہ نہیں سکتی تو اور کیا کہوں میں آپ کو؟ ‘‘ …’’ تم مجھے میڈم کہہ سکتی ہو! ‘‘ انھوں نے حکمیہ انداز میں کہا۔

’’ آپ مجھے جو کچھ مرضی کہیں مگر آپ کو میں عزت سے میڈم کہوں ؟ ہونہہ… ایسا نہیں ہو گا مجھ سے !! ‘‘…’’ کیونکہ تمہیں کسی کی عزت کرنا سکھائی ہی نہیں گئی!!‘‘ انھوںنے فوراً کہا۔لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس معرکے کو ملاحظہ کر رہے تھے۔

’’ مجھے ہر اس شخص کی عزت کرنا سکھائی گئی ہے جو عزت کرواناجانتا ہو۔ بڑوں سے ادب سے بات کرنے کو کہا گیا ہے، وہ جو اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیں ، آپ میں ان میں سے کوئی خوبی نہیں ہے! ‘‘ لڑکی نے انھیں اور تپایا۔

’ تم ایک گستاخ لڑکی ہو جس کی پرورش میں اتنے سقم ہیں کہ اب ان کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی… میں فضول میں اپنا وقت ضایع کر رہی ہوں ! ‘‘ ان کی شان میں اتنی گستاخی، وہ برہم ہوئیں ۔…’’ آپ کو میں نے بلایا ہے کیا یہاں ،کہ آکر میری اصلاح کریں ، ہیں کون آپ مجھ پر یوں فضول کے فتوے لگانے والی! ‘‘

’’ تم لوگ بچے پیدا کر لیتے ہو مگر اپنے اندر برداشت پیدا نہیں کر سکتے، بچے کو کس طرح سمجھانا ہے اور اسے کس طرح کھانا کھلانا ہے یہ ہر ماں کی ابتدائی تربیت ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ پر ہر وقت الول جلول دیکھتی رہتی ہو تم لوگ، ڈرامے، فلمیں اور شو۔ اگر نہیں دیکھتی ہو تو بچوں کی تربیت کرنے کے اصول، اپنے سے بڑوں سے بات کرنے کا قرینہ!! ‘‘

’’ لگتا ہے کافی کچھ پتا ہے آپ کو آج کل کے بچوں کا… انٹرنیٹ پر کیا کیا کرتے ہیں اس کا بھی… لیکن اگر نہیں علم تو یہ نہیں کہ کسی غیر متعلقہ شخص کے بارے میں نہ رائے دینا چاہیے اور نہ ہی ناقص معلومات کی وجہ سے کوئی بات کرنا چاہیے! ‘‘

’’ تم … تم مجھے بتاؤ گی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟‘‘ ان کے منہ سے کف نکلنے لگا تھا۔ کوئی مداخلت نہ کر رہا تھا کیونکہ اس میں سے زیادہ تر لوگوں کو علم تھا کہ کسی غیر متعلقہ معاملے میں ٹانگ اڑانے سے اپنی ہی بے عزتی ہو گی اور وہ خاتون جس طرح سے ہاتھ نچا نچا کر تو تڑاک سے بات کر رہی تھیں ان سے کچھ بعید نہ تھا۔ تاہم تماشہ جاری تھا۔ کچھ منچلے اس تماشے کی خفیہ انداز میں ویڈیو بھی بنا رہے تھے، اتنا اچھا موقع کون ضایع کرتا ہے۔

’’ اگر آپ مجھے بتانا چاہتی ہیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تو میں بھی پہلے آپ کو بتاؤں گی کہ آپ کو کس طرح بات کرنا چاہیے… کرنا بھی چاہیے کہ نہیں!! ‘‘ …’’ ہو نا نئی نسل کی ایک بگڑی ہوئی بد تمیز لڑکی!! ‘‘

’’ جیسے آپ پرانی نسل کی ہیں… آپ کو کسی سے بات کرنا بھی تو کسی نے نہیں سکھایا۔ بغیر کسی کو جانے بوجھے تو مجھے یقین ہے کہ آپ سلام بھی نہیں کرتی ہوں گی مگر اصلاح معاشرہ کا بیڑا آپ نے ہی اٹھا رکھا ہے۔ آپ کون ہیں مجھے کہنے والی کہ مجھے اس بچے سے کس طرح بات کرنا چاہیے اور کس طرح نہیں!! بچہ سو طرح کی ضد کر بیٹھتا ہے اور اس کی ہر ضد نہیں مانی جا سکتی!! ‘‘

’’ تم ایک جاہل اور بے عقل لڑکی ہو جسے یہ بھی علم نہیں کہ بچے کو ہر چیز پر فوقیت دینا ہوتی ہے… بچہ جو بھی مانگے اسے دے دینا چاہیے، جو مطالبہ بھی کرے اسے پورا کرنا چاہیے!! ‘‘

’’ اچھا اگر یہ بچہ کہے کہ اس نے آپ کے منہ پر اپنا کھانا پھینکنا ہے تو میں اسے کرنے دوں ایسا کیا؟‘‘

’’ یہ کس قسم کی بکواس کر رہی ہوتم ؟‘‘ وہ چراغ پا ہوئیں ، ’’ میں کہتی تھی نا کہ تم جیسی کم عقل لڑکیاں ماں کہلانے کی اہل نہیں ہوتیں، جنھیں بچوں کی تربیت کرنا آتی ہے نہ انھیں خاموش کروانا۔ آدھے گھنٹے سے بچہ بلک بلک کر رو رہا ہے اور تم انھیں زبردستی کھانا ٹھونسنا چاہ رہی ہو… ‘‘

’’ ویسے ایک بات ہے اجنبی عورت… آپ کو واقعی علم ہے کہ بچے کو کس طرح خاموش کروایا جاتا ہے… اس کے سامنے اس سے بڑھ کر بلند آواز میں چیخنے سے۔ دیکھ لیں جس وقت سے آپ چیخ رہی ہیں، بچہ خاموش ہے!! ‘‘ اس نے طنز سے کہا تو اردگرد لوگوں کی ہنسی نکل گئی، کچھ نے خالی مسکراہٹ پر اکتفا کیا۔

’’ کاش بچوں کو سکولوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت اور تمیز بھی سکھائی جا سکتی… مگر لگتا ہے کہ تم نے تو کبھی سکول کی شکل ہی نہیں دیکھی! ‘‘ انھوںنے فائنل رائے دی۔

اسی دوران ایک اور جوڑا ریستوران میں داخل ہواا ور اس میز کی سمت بڑھا جہاں وہ لڑکی اور بچہ تھے اور محاذ گرم تھا۔ انھیں اس صورت حال کی کچھ سمجھ نہ آئی تو انھوں نے استفسار کیا۔ اس سے پہلے کہ لڑکی کچھ بولتی…

’’ جو بھی ہے تم ایک انتہائی بے ہودہ گفتگو کرنے والی ان پڑھ اورنا سمجھ لڑکی ہو اور تمہیں بات کرنے کی تمیز بھی نہیں اور ماں تو تم بہت ہی بری ہو کیونکہ تمہیں علم ہی نہیں کہ بچے کو کس طرح سمجھایا جا سکتا ہے! ‘‘ کہہ کر وہ مڑیں۔

’’ آنٹی!!‘‘ اسی لڑکی کی پکار پر وہ بے ساختہ ٹھٹھک کر مڑیں، ’’ آپ کو بتانا تھا کہ میں اس بچے کی ماں نہیں، کزن ہوں ۔ اس کے ماں باپ آگئے ہیں، آپ انھیں کچھ سکھانا چاہتی ہوں تو سکھا لیں !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔