ہماری اپنی فہمیدہ ریاض

جاوید قاضی  اتوار 25 نومبر 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کار جہاں، گوشئہ خیال، نشیب و فراز کی روداد اور ایک اکیلی فہمیدہ ریاض۔ وہ یاد میں تنہا روتی رہیں۔ لکڑی جلتی ہے تو کوئلہ بنتا ہے اور پھر کوئلہ راکھ۔ کبیر کی اسی بات کی طرح فہمیدہ بھی ایسی جلی کہ کوئلہ بنی نہ راکھ۔ میری بہن تھی وہ۔ جب حیدرآباد سے ہندوںنے ہجرت کی تو یوپی، راجھستان وغیرہ سے جو ہجرت کرنے والے مکین یہاں آباد ہوئے۔پہلے ثقافت ایک تھی تاریخ تہذیب و تمدن ایک تھا، شاید کلاس ایک نہ تھی اور یقیناً مذہب تو ایک تھاہی نہیں۔ بٹوارے کے بعد مذہب ایک تھا مگر زبان ایک نہ تھی ۔

فہمیدہ اس بٹوارے کا مقدمہ تھیں۔ میری بہنوں کے ساتھ زبیدہ کالیج میں پڑھتی تھیں۔ انیس ہارون، مہتاب راشدی اور سلطانہ صدیقی۔ وہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آئی تھیں اور ہم پہلے سے ہی اس سر زمین پر آباد تھے۔ ان کے پاس آزاد عورت کا بہتر تصور تھا اور ہمارے پاس عورت کا پسماندہ تصور۔ ہم تھے وہ سندھی مسلمان جنھوں نے بیٹیوں کو پڑھانے میں پہل کی۔

فہمیدہ چار سال کی تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ان کی فیملی میرٹھ سے یہاں آکر آباد ہوئی تھی۔ لیکن فہمیدہ کی پیدائش میر ٹھہ کی تھی۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے خمیر میں ہی ہمارے اجداد کی تاریخ بستی ہے۔ فہمیدہ کے لاشعور میں ہی میرٹھ کی چار ہزار سالہ قدیم تاریخ موجود تھی۔ وہ اس بٹوارے میں کہیں الجھ سی گئیں۔ میری آپا کہتی ہیں کہ وہ اسکول کے زمانوں سے ہی ذہنی پختگی رکھتی تھیں۔وہ میری آپا سے بہت قریب رہیں جب کہ وہ آرٹس کی طالبہ تھی اور آپا سائنس کی۔

میں نے دیکھا تھا وہ حیدرآباد۔ ہم ابا کے ساتھ بیٹل کار پر سوار ہوکر اپنی بہنوں سے حیدرآباد ملنے آتے تھے۔ ہماری دادی کو یہ سب اچھا نہ لگتا تھا کہ ان کی پوتیاں ہاسٹل میں رہیں لیکن میرے والد کسی اور سوچ و فکر کے حامی تھے۔اپنے بھائیوں کی بہ نسبت ان کے پاس آزاد عورت کا تصورزیادہ واضع تھا۔ تلک چاڑھی، ریشم گلی، ٹھنڈی سڑک، بمبئی بیکری والا حیدرآباد، بگھی اور ڈبل ڈیکر بس والا حیدرآباد۔ سانس لیتا، جاگتا حیدرآباد۔

فہمیدہ کو سندھی اور مہاجر میں تیزی سے پیدا ہونے والا تضاد سرے سے سمجھ نہ آیا۔ان کا شعور اور فطرت اس بات کو سمجھ نہ پائی کہ اس تضاد کی نوعیت کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل ضیاء نے جمہوریت پر جو قد غن لگائے اس کے گہرے اثرات سندھ اور سندھیوں پر پڑے وہ بھٹو کی پھانسی کو ایک سندھی کو پھانسی دینا سمجھتے تھے۔ جمہوریت پسند اور ترقی پسند سوچ پر قفل پڑ گئے اور پھر ایک بیانیہ جس نے سندھ میں ڈاکو، اغوا و تاوان جیسے جرائم کو جنم دیا۔

یہ 1976 کے زمانے میں فہمیدہ اپنے پہلے شوہر سے ناتے توڑ کر لندن سے ایک بیٹی کے ساتھ کراچی شفٹ ہو گئیں۔ پھر انھوں نے یہاں ظفر اجن نامی شخص سے دوسری شادی کی اور کراچی سے آواز نامہ کی اشاعت شروع کی۔ یہ جنرل جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، فہمیدہ کی چھوٹی سی اشاعت یعنی ’’آواز‘‘ نامہ آمریت کے خلاف ایک جدو جہد تھی اس اشاعت میں چھپی تحریریں غداری اور باغیانہ لگتی تھیں۔ شوہر جیل چلے گئے۔ فہمیدہ جب محفل مشاعرہ کے لیے ہندوستان گئیں تو وہاں امرتا پریتم سے پناہ کے لیے مدد مانگی۔امرتا نے اندرا گاندھی تک یہ بات پہنچائی اس طرح فہمیدہ نے سات سال جلاوطنی کے ہندوستاں میں گزارے۔ شوہر جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے بھی جلاوطنی میں فہمیدہ کا ساتھ دیا۔

فہمیدہ کیا تھیں۔ ایک عورت لیکن آزاد سوچ اور روایت کے خلاف ایک بھرپور آواز۔ فہمیدہ پاکستان  ہجرت کر کے آئیں، یتیم بھی تھیں اور دکھوں سے بھرپور زندگی گزاری لیکن ایک درد ایسا جس نے بالآخر فہمیدہ کو توڑ دیا۔ جوان بیٹے کی موت جس کی وجہ آج تک معلوم نہ ہو سکیں۔ اس کا مردہ جسم امریکا کے سوئمنگ پول میں پایا گیا۔ فہمید ہ ایک ماں تھیں۔ کیا کرتیں وہ۔ وہ کانچ کی ریشم گلی میں بنی چوڑی کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئی۔یہ وہ درد تھا جو فہمیدہ کے لیے ناسور بن گیا لیکن جو خیال تھے وہ کہیں نہ گئے، غم روزگار بھی تھے۔فہمیدہ ایک خوددار عورت تھیں تمام عمر خود کمایا اور خود ہی اپنے گھر کا چولھا جلائے رکھا۔ جب والد کا انتقال ہوا تو والدہ نے گھر سنبھالا، فہمیدہ کو پڑھایا لیکن جلد ہی فہمیدہ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے روزگار کی تلاش بھی کی۔

وہ ایک بہت اچھی شاعرہ تھیں ان کی شاعری کا محور ایک باغی عورت ہے، ایک خانہ بدوش عورت جس کو اسپین کے لوکارنو نے اپنی شاعری میں تحریر کیا۔وہ فیمینسٹ تھیں۔ اور فیمینزم کی تشریح اس کے پاس سائمن دی بیوراسے قدر ے ہٹ کر تھی۔ یوں کہیئے کہ آزاد عورت یا فیمینزم کے حوالے سے وہ اردو ادب میں لکھنے والی پہلی شاعرہ تھیں۔

وہ کمال کی سندھی بولتی تھیں۔ شاہ لطیف اورشیخ ایاز کی شاعری کے ترجمے بھی کیے۔ اس نے رومی کی شاعری کے فارسی سے اردو میں ترجمے بھی کیے۔شاعری اور ناول وغیرہ میں پندرہ کتابوں کی مصنفہ بھی رہیں۔

پلکوں کے تلے جھڑیاں پڑ گئیں، چھوٹی سی عمر میں یوں لگتا تھا کہ جیسے رات کو نیند نہیں آتی تھی مگر کبھی چشم نم نہ ہوئی۔ غبار تھے بہت مگر اپنی سوچ کی پرواز میں اسی طرح مضبوط رہیں کہ جیسے کوئی  چٹان ہو۔وہ اپنے عہد کا سچ بول گئیں، جو اس پر گزری اس کا ذکر کیا کرے کوئی۔ اس پر  بیتی ایک عورت کے حوالے سے بھی تھی۔ ایک آزاد عورت، آزاد عورت کی سوچ کی وکالت کرنے والی۔ مرد اگر عورت کے حق کی بات کر ے تو وہ ’’انقلابی‘‘ اور اگر عورت، عورت کے حق کی بات کرے تو ’’ گناہ گار‘‘۔ اور یہی ہے جو کچھ اس نے اپنی ایک تصنیف ’’ہم گناہ گار عورتیں‘‘ میں قلم بند کیا ہے۔

ہماری فہمیدہ، سمبارا، بینظیر بھٹو، عاصمہ جھانگیر اور بھٹائی کی کئی سورمائی عورتوں میں سے ایک تھیں۔ اس کی کوئی سرحد نہ تھی۔ وہ ایک محب وطن کے استعاروں سے بڑی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ جب میں مرجائوں تو مجھے مومن کہہ کر نہ پرکھنا اور نہ ہی کسی بات کا پابند رکھنا۔ میں جو ہوں سومیں ہوں، گناہ گار کہو، برا کہو، جو تمہاری نظر سے دکھتا ہے وہ کہہ دینا مگر جو میں نہ ہوں وہ نہ کہنا۔ جب فہمیدہ نے ’’بدن دریدہ‘‘ لکھی اور اس کی اشاعت ہوئی تو اس پر یہ الزام آیا کہ یہ تحریر عریانی کا عکس ہے۔ کیا کرتیں وہ، کیوں کہ وہ سعادت منٹو کی سوچ سے جو تعلق رکھتی تھیں۔

یہ نصیب لاہور کے تھے کہ عاصمہ جہانگیر فروری کی گیارہ تاریخ کو وہاں مدفن ہوئیں۔ وہ دن تھے جب جاڑیں  ٹوٹ رہی تھیں، وہ بہار بھی تھی یا خزاں، اور اب جب  خزاں کے پتے جھڑ رہے ہیں تو ہماری فہمیدہ بھی اسی لاہور شہر میں کائنات کی وسعتوں کا لاشعور بن گئیں۔

یوں گماں  ہوتا ہے جیسے آج جو میں لکھ رہا ہوں وہ میرے گھر کا حصہ تھیں۔ انگنت یادیں، انگنت باتیں ، اور کچھ یادیں اور بہت سی باتیں ایسی جیسے ان کہی رہ گئیں، اس چھوٹے سے مضمون میں کیا کچھ سمویا جاسکتا ہے۔

کچھ کھوئی کھوئی سی باتیں

کچھ سپنے میں چبتی یادیں

اب انھیں بھلا دو سو جائو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔