اسلام آباد میں پی ایس ایل ڈرافٹ کا میلہ

سلیم خالق  اتوار 25 نومبر 2018
رنگا رنگ تقریب کا آنکھوں دیکھا حال۔ فوٹو: فائل

رنگا رنگ تقریب کا آنکھوں دیکھا حال۔ فوٹو: فائل

’’اچھا آپ ہیں سلیم خالق، پڑھتا رہتا ہوں آپ کی رپورٹس ، ویسے پی سی بی والے آپ سے بڑے تنگ تھے بلکہ ہیں، ایک سابق چیئرمین نے تو مجھ سے بھی کہا تھا کہ یہ بندہ قابو نہیں ہو رہا کچھ کرو‘‘

اسلام آباد میں پی ایس ایل ڈرافٹ کے موقع پر ایک فرنچائز اونر نے جب مجھ سے یہ کہا تو میں مسکرانے لگا، اس پر وہ کہنے لگے ابھی تین دن قبل بورڈ کا ایک آفیشل آپ کے بارے میں ایک غلط لفظ استعمال کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’ نجانے اس کے پاس خبریں کیسے پہنچ جاتی ہیں‘‘ مجھے تھوڑی تشویش ہوئی اور پوچھا اچھا کیا لفظ استعمال کیا تو وہ ہچکچائے پھر میرے کان میں کہا ’’موٹا‘‘ یہ سن کر میں قہقہہ لگانے پر مجبور ہوگیا۔

پھروہ کہنے لگے ’’ عموماً صحافیوں کو بلیک میلر، لفافہ اور نجانے کیا کچھ کہا جاتا ہے، آپ کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ملا تو ذات کو نشانہ بنا لیا،اس لیے میں بھی آپ سے ملنا چاہتا تھا، اچھا اب مجھے اندر ہال میں جانا ہے، پھر ملاقات ہو گی‘‘ یہ کہہ کر وہ صاحب اندر چلے گئے اور میں اسلام آباد کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا لطف لینے کچھ دیر اور رک گیا، ارے میں یہ تو بتانا ہی بھول گیاکہ یہاں آیا کیوں تھا، وہ دراصل پی ایس ایل کے ڈرافٹ ہو رہے تھے ناں تومیں نے سوچا یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے۔

صبح صبح کی فلائٹ میں مسئلہ یہ ہے کہ نیند پوری نہیں ہو پاتی، جب ایئرپورٹ پہنچا تو وہاں ٹی وی اینکر فضیلہ صبا مل گئیں جو ایک چینل پر اسپورٹس شو کرتی ہیں، محسن خان جس کے مہمان ہوں وہ شو چٹخارے دار تو ویسے ہی ہو جاتا ہے اور میڈیا کو کبھی ’’ڈونکی کوچ‘‘ تو کبھی ’’کپتان کو نکالو‘‘ جیسی بریکنگ نیوز ملتی رہتی ہیں، سابق کپتان ظہیر عباس بھی وہاں موجود تھے، ہم تینوں کچھ دیر بات چیت کرتے رہے،دل کا آپریشن کرانے کے بعد اب ظہیر عباس فٹ لگ رہے تھے۔

میں نے پوچھا گالف کھیلنا کب شروع کر رہے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ’’بدھ کو کراچی واپس جانے کے بعد‘‘ وہ چونکہ انگلینڈ سے ایک دن قبل ہی واپس آئے تھے اس لیے ’’جیٹ لیگ‘‘ کا شکار لگے، مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی جب پی آئی اے کی فلائٹ مقررہ وقت پر روانہ ہوئی اور سروس بھی اچھی تھی، اسلام آباد پہنچنے کے بعد میں ہوٹل گیا جہاں پی سی بی کے میڈیا منیجر رضا راشد سے ملاقات ہوئی، مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا کیونکہ انھیں تعریف پسند نہیں ہے۔

لاہور سے ’’ایکسپریس‘‘ کے اسپورٹس رپورٹر عباس رضا آئے ہوئے تھے،اسلام آباد کے ساتھی ذوالفقار بیگ بھی کوریج کے لیے موجود تھے، پی سی بی نے باہر لان میں سیٹ اپ لگایا، درمیان میں چھوٹا سا ایک اسٹیج اور دائیں و بائیں جانب کھانے کے لیے جگہ مختص تھی، اسٹیج پر باری باری تمام فرنچائز اونرز اور مینجمنٹ کو بلایا گیا جن سے میڈیا نے گفتگو کی، چیئرمین پی سی بی احسان مانی بھی وہاں آئے، اسی وقت مجھے پتا چلا کہ آئی سی سی کی تنازعات حل کرنے والی کمیٹی نے بھارت کے خلاف پاکستانی درخواست مسترد کر دی ہے، مگر مانی صاحب کے آس پاس موجود رپورٹرز کے پاس خبر دیر سے پہنچی لہٰذا اس حوالے سے کوئی سوال نہ ہو سکا۔

میں نے بورڈ آفیشل سے درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ ’’ پالیسی بیان جاری ہونے والا ہے، چیئرمین اب سی او او سبحان احمداور ڈائریکٹر لیگل سلمان نصیر سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں جہاں اس حوالے سے مزید تبادلہ خیال ہوگا‘‘کچھ دیر بعد ڈرافٹ شروع ہو گئے، صوفوں پر فرنچائزز اونرز اور مینجمنٹ موجود تھی عقب میں ایک رکاوٹ لگا کر تگڑے گارڈز کھڑے کیے گئے تاکہ کرسیوں پر براجمان صحافی وہاں جانے کی جرأت نہ کر سکیں۔

ڈرافٹ کے موقع پر یقینا ابتدائی چند پک ایسی تھیں جن میں ٹیموں کو پتا تھا کہ کیا کرنا ہے، مگر جس طرح ’’کون بنے گا کروڑپتی‘‘ میں امیتابھ بچن کے سوال پر شرکا جواب آنے پر بھی آخری سیکنڈ تک انتظار کرتے ہیں ایسا ہی یہاں بھی ہو رہا تھا، لاہور قلندرز پہلی پک میں اے بی ڈی ویلیئرز یا اسٹیون اسمتھ کو لیں گے، شاہد آفریدی، محمد حفیظ اور مصباح الحق کس ٹیم کا حصہ بنیں گے، اس میں لوگوں کو زیادہ دلچسپی تھی، وہاں سینئر صحافی عالیہ رشید سے بھی ملاقات اور کافی باتیں ہوئیں۔

’’کرک انفو‘‘ کے عمر فاروق اور کوچ ایاز اکبر بھی ساتھ بیٹھے تھے، وہاں سے کچھ دیر بعد ہم باہر لان میں چلے گئے جہاں بڑی اسکرین پر براہ راست تقریب دکھائی جا رہی تھی ، کون سا پلیئر کس فرنچائز کا حصہ بنا یہ سب تفصیلات تو آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے، میں آپ کو کچھ دوسری باتیں بتاتا ہوں، ڈرافٹ کے بعد میں وقار یونس، راشد لطیف اور عالیہ رشید ابوظبی میں پاکستان کی شکست پر تبادلہ خیال کرتے رہے، پھر شعیب ملک بھی وہاں آ گئے، انھوں نے موبائل فون پر مجھے اپنے بیٹے کی تصویر بھی دکھائی جو ماشا اﷲ بہت پیارا ہے۔

پی ایس ایل نے فرنچائز اونرز کو بھی سیلیبریٹی بنا دیا ہے اور لوگ ان کے ساتھ سیلفیز بناتے رہے، فخر زمان اور شاداب خان سے بھی ملاقات ہوئی، بعد میں ڈنر کا انتظام تھا ہم سب وہاں چلے گئے، اسلام آباد میں صبح سردی محسوس ہوئی مگر دوپہر میں گرمی تھی، شام کو موسم پھر سرد ہو گیا، ڈنر کے بعد میں نے بعض انٹرویوز کیے، احسان مانی سے انٹرویو میں بھارت سے کیس پر سوالات کیے، ڈرافٹ کا میلہ دیکھ کر میں یہی سوچ رہا تھاکہ نجم سیٹھی اور نائلہ بھٹی گزشتہ برس تک سمجھتے ہوں گے ان کے بغیر پی ایس ایل میں کچھ نہیں ہو سکتا مگر سب کچھ ویسے ہی جاری ہے، لوگ صحیح کہتے ہیں دنیا میں کوئی ناگزیر نہیں ہے۔

ڈنر کے بعدایک رشتہ دار ہوٹل آئے اور اپنے گھر لے گئے، اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے مگر سڑکوں پر سناٹے کا راج نظر آیا، میں اسلام آبادایک دن سے زیادہ نہیں رکتا اس کی وجہ یہی ہے،البتہ لاہور کا ماحول کراچی کی طرح کا ہے جہاں رونق لگی رہتی ہے، ڈرافٹ اسلام آباد یونائٹیڈ کے اصرار پر یہاں رکھے گئے مگر کچھ تشنگی سی محسوس ہوئی شرکا بھی یہی کہہ رہے تھے کہ لاہور میں انعقاد ہونا چاہیے تھا، رات گئے ہوٹل واپس آیا اور لابی میں بعض کرکٹرز بھی نظر آئے۔

اس وقت میں اسلام آباد ایئرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھا یہ کالم تحریر کر رہا ہوں، ایئرپورٹ شہر سے دور مگر اچھا بنا ہوا ہے، البتہ اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کام مکمل نہیں ہوا، ماشا اﷲ ملک میں اب چائنیز اتنے آ گئے ہیں کہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ’’بیجنگ‘‘(صحیح لکھا ہے ناں) میں موجود ہوں، ایسا لگتا ہے کہ تعریف جلدی کر دی تھی یہ فلائٹ لیٹ ہو گئی ہے، خیر اب باقی باتیں انشاﷲ اگلے کالم میں ہوں گی۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔