چینی قونصلیٹ پرحملہ اور 26نومبر کی خونی یادیں

تنویر قیصر شاہد  پير 26 نومبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دہشت گردی اور خوف وہراس کی نئی لہریں پھر بپھر آئی ہیں۔افغانستان کواِس کا مرکز (Epicentre) کہا جا سکتا ہے۔ پچھلے ماہ ،19اکتوبر کو افغانستان کے صوبہ قندھار میں اچانک ایک حملہ ہُوا جس میں گورنر زلمے ویسا، صوبائی پولیس چیف جنرل عبدالرازق، صوبائی انٹیلی جنس انچارج عبدالمومن اور تین سی آئی اے اہلکار مارے گئے۔ افغان طالبان کی طرف سے کیے گئے اس مہلک حملے کے تقریباً سات دن بعد اسلام آباد سے خیبر پختونخوا کے ایس پی طاہر داوڑ کو دن دیہاڑے اغوا کیا گیا اور افغانستان لے جا کر نہائت بیدردی اور شقاوتِ قلبی سے شہید کر دیا گیا۔

افغان حکام نے اس شہادت پر پاکستان کے ساتھ جو کھیل کھیلا، اس نے پاکستانیوں کے دلوں پر گہرا زخم لگایا ہے۔ ابھی اس شہادت کی بازگشت تھمی نہیں تھی کہ 19 نومبر کو امرتسرمیں ایک مذہبی تقریب پر مبینہ طور پر خالصتانیوں نے ہینڈ گرنیڈ پھینکا۔اس میں تین افرادمارے گئے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، کیپٹن امریندر سنگھ، نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اپنے گریبان میں جھا نکے بغیر ترنت پاکستان پر الزام لگا دیا۔ پاکستان نے سختی سے اس بیہودہ الزام کو مسترد کر دیا۔ اس حملے کے دوسرے ہی دن،20نومبر 2018ء کو کابل میں کسی بد بخت خود کش حملہ آور نے عین اُس وقت خود کو مجمع میں پھاڑ ڈالا جب سیکڑوں مسلمان میلاد شریف کی ایک پاکیزہ تقریب میں شریک تھے۔

تقریباً55بیگناہ بھینٹ چڑھ گئے۔ اس سانحہ کے تین دن بعد،23نومبر کو کراچی میں تین دہشت گردوں نے چینی قونصلیٹ پر صبح ہی صبح حملہ کر دیا۔ ہماری جانباز پولیس کے جوانوں نے اپنی جانوں کا بے دریغ نذرانہ پیش کرکے چینی قونصلیٹ اور اُس کے سبھی اہلکاروں کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ حملہ آوروں کو بھی اُڑا کر رکھ دیا۔ پاک چین دوستی جس معراج کی جانب گامزن ہے اور ’’سی پیک‘‘ منصوبے جس تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کررہے ہیں، یہ مناظر ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہے ہیں؛ چنانچہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ چینی قونصلیٹ پر حملہ کرنے والے اور اُن کے منصوبہ ساز کون ہو سکتے ہیں؟ امریکا اور بھارت تو بیک زبان ’’سی پیک‘‘ اور پاک چین قربتوں کے خلاف زبان درازیاں کرتے دیکھے اور سُنے جا سکتے ہیں۔

بلوچستان میں گوادر کی عظیم بندرگاہ بھی پاکستان دشمن طاقتوں کی آنکھ میں کانٹا بن گئی ہے۔ یوں حملہ آوروں کی شناخت مبہم نہیں رہ جاتی۔ دہشت گرد قوتیں پاکستان کو چرکے لگانے سے باز نہیں آ ر ہیں۔ جس صبح کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ کیا گیا، اُسی دوپہر ہمارے قبائلی علاقے، ہنگو، میں دشمن نے بم دھماکا کر دیا ۔ تین درجن سے زائد بے گناہ پاکستانی شہید کر دیے گئے۔ افغانستان میں بھارتی اور امریکی خفیہ اداروں نے جس وحشت سے پنجے گاڑ رکھے ہیں، پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے کارن ان پنجوں سے خون رِس رہا ہے۔ اِنہی سانحات کے درمیان امریکی صدر نے بھی پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کی ہے۔ کلبھوشن یادیو کی پاکستان دشمن باقیات بھی ابھی تک رنگ دکھا رہی ہیں۔ مذکورہ بالا تمام تازہ ترین سانحات کو ایک ترتیب میں رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو ہمار ے دشمن کا بھیانک چہرہ صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

تقریباً ایک ہفتہ قبل امرتسر میں مبینہ طور پر خالصتانی نوجوانوں نے ہینڈ گرنیڈ سے جو حملہ کیا تھا، عین ممکن ہے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی یہ اپنی ہی کارروائی ہو۔ ۔ دس سال پہلے 26نومبر کو ممبئی ہوٹل پر جو مشہور حملہ ہُوا تھا اور جس میں تقریباً170 افراد مارے گئے تھے، یہ بھی دراصل بھارتی ’’را‘‘ کی خونی واردات تھی لیکن بھارت نے شور مچا کر اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ پچھلے ایک عشرے کے دوران مغربی دُنیا میں کئی ایسی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں حقائق اور اعدادوشمار سے ثابت کیا گیا ہے کہ 26نومبر کا خونی ممبئی حملہ بھارتی انٹیلی جنس (را) اور انڈین اسٹیبلشمنٹ ہی کا کھیل تھا۔

مثال کے طور پر ایلیاس ڈیوڈسن کی The Betrayal of India  نامی عالمی شہرت یافتہ کتاب۔اِسی طرح امریکی محقق Kevin Beretteنے بھی لکھا ہے کہ ممبئی حملہ بھارتی خفیہ اداروں کی کارستانی تھی اور اِس میں امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اپنے اپنے مقاصد کے لیے ملوث تھیں۔بھارت نے ممبئی حملے کے ایک مبینہ مرکزی کردار،اجمل قصاب، کو بھارتی ’’پونے‘‘ جیل میں چھ سال پہلے پھانسی بھی دے دی تھی ۔ بھارت اب تک اصرار کرتا رہا ہے کہ اس حملے میں پاکستان کا ہاتھ تھا اور یہ کہ اجمل قصاب پاکستانی تھا لیکن اب تو خود بھارت سے شہادتیں آنے لگی ہیں کہ اجمل قصاب دراصل بھارتی شہری ہی تھا۔ مثال کے طور پر 22نومبر2018ء کو کئی معروف بھارتی اخباروں نے یہ خبر نمایاں طور پر شایع کی ہے کہ اجمل قصاب بھارتی صوبے اُترپردیش کی تحصیل ’’بدھونہ‘‘ کا رہائشی تھا۔ اُس کے والد کا نام محمد عامر اور والدہ کا نام ممتاز بیگم ہے۔اجمل قصاب کو اِسی ولدیت کے ساتھ مذکورہ تحصیل کی طرف سے تصدیق شدہ ڈومیسائل بھی جاری کیا گیا تھا۔اس ڈومیسائل کا رجسٹریشن نمبر بھی بھارتی اخبارات نے شایع کر دیا ہے۔

26نومبر کی آمد کے ساتھ ہی جہاں ممبئی حملے کے نام سے پاکستان کے خلاف بھارتی تانے بانے یاد آ جاتے ہیں، وہیں 26نومبر کو سلالہ حملے کی خونی یادیں بھی دل کو ملول اور اداس کر جاتی ہیں۔ سلالہ کا علاقہ مہمند ایجنسی میں واقعہ ہے ۔ اس کے سامنے ہی سرحد پار افغان صوبہ ’’کُنر‘‘ ہے۔ سلالہ میں پاک فوج کی دو چوکیاں بروئے کار تھیں اور یہاں افواجِ پاکستان کے 40 جوان اور افسر تعینات تھے۔ افغانستان میں متعین امریکی فوج کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر اور ایک جیٹ طیارے نے(پاکستان کی طرف سے بغیر کسی اشتعال انگیز کارروائی کے)26نومبر2011ء کی صبح سحری کے وقت سلالہ کی دونوں پاکستانی چیک پوسٹوں پر اچانک حملہ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے25جوان وافسر شہید اور 13شدید زخمی ہو گئے۔

دو چار ہی فوجی سلامت بچے تھے۔ یہ خونی حملہ اس قدر افسوسناک تھا کہ افواجِ پاکستان سمیت سارا ملک سوگ اور طیش کی فضا میں لپٹ گیا۔ امریکی ظلم و دھوکا دیکھئے کہ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب (اُس وقت کے) آرمی چیف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، نے صرف دو روز قبل ہی افغانستان میں امریکی قیادت میں اتحادی افواج کے سربراہ، جنرل جان ایلن، سے تفصیلی ملاقات کی تھی کہ دہشت گردوں کا راستہ کیسے روکنا ہے۔ امریکا نے مگر خود ہی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کر ڈالی۔ امریکا نے یہ جھوٹ بول کر جان چھڑانا چاہی کہ یہ حملہ’’ غلطی ‘‘ سے ہُوا ہے۔

پاکستان نے ردِ عمل میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی کے راستے بند کر دیے۔افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے جنگی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا اکثریتی سامان پاکستان ہی سے گزرتا تھا۔ شنید ہے اسی حملے کے ردِ عمل میں پاکستان نے امریکیوں کو دی گئی کئی سہولتیں واپس لے لی تھیں اورامریکا سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی بساط بھی لپیٹ دی گئی تھی۔ اور جب امریکی صدر، بارک اوباما، کی حکومت نے پاکستان سے سلالہ کے خونی حملے پر ’’سوری‘‘ بول دیا تو پاکستان نے سپلائی لائن بھی کھول دی ۔ یہ راستے سات ماہ بند رہے تھے۔ آج جب امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان نے ہم سے ہمیشہ ڈالر کھائے ہیں، ہمارے لیے کِیا کچھ نہیں ہے‘‘ تو ہم سب پاکستانیوں کو سلالہ کی چوکیوں پر بہایا گیا ہمارے فوجیوں کا مقدس خون یاد آجاتا ہے۔ آج 26نومبر کو یہ پرانے زخم پھر سے ہرے ہو گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔