کرتار پور سے کھوکھرا پار سرحد تک

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 26 نومبر 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

اس ہفتے کی ایک اہم ترین خبر یہ بھی تھی کہ بھارتی کابینہ نے کرتار پور سرحد کھولنے کی منظوری دیدی ہے اور عنقریب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کرتار پورکوریڈور کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس سرحد کو کھولنے کی تجویز پاکستان نے دی تھی ، جس کا کریڈٹ ظاہر ہے کہ حکومت کو جاتا ہے۔ اس اہم فیصلے سے بھارت میں رہنے والے سکھوں کو اپنی مذہبی تقریبات کے لیے پاکستان آنے کا سفر آسان ہو جائے گا، یوں ان کے وقت اور پیسے کی بچت بھی ممکن ہوسکے گی۔

حکومت وقت کا یہ فیصلہ یقینا قابل ستائش ہے، یہ پایسی ضیا الحق کے دور میں بھی تھی، ضیاالحق بھی اپنے دور اقتدار میں سکھوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے، وہ بھی اسلام کا نعرہ بلند کرتے تھے اور موجودہ وزیراعظم تو اس ملک کو مدینہ کی ریاست کا رنگ دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس سے قبل نواز شریف بھی پاک بھارت دوستی کے لیے مختلف نمایاں اقدامات کرتے رہے تھے خاص کر انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان بس سروس چلانے کی کوشش کی تھی مگر ایک مذہبی جماعت کے لاہور شہر میں سخت احتجاج کے بعد وہ اس خواب کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔

عمران خان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں اور قدم بڑھائے اور اس ریاست کو مدینہ کی ریاست کا پختہ رنگ دینے کے لیے اس قسم کی سفری سہولیات دونوں ملکوں کے منقسم مسلم خاندانوں کے لیے بھی پیش کرے ۔ تقسیم ہند کے بعد ایک دہائی تک تو دونوں اطراف کے مسلمان بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے سرحد کی دونوں جانب سفر کرتے تھے مگر اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے قانونی پابندیاں اس قدر لگا دیں کہ پاکستان اور بھارت میں اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے جانا بھی تقریباً نا ممکن ہوگیا۔ یہ ایک بڑا ظلم تھا کہ ملک تو تقسیم ہوکر آزاد ہو گئے مگر دونوں ملکوں کے عوام کی سفری ’آزادی‘ چھین لی گئی۔

سندھ سے بھارت جانے والوں کے لیے کھوکھرا پار کا راستہ بند کردیا گیا جس کے بعد سندھ سے بھارت جانے والوں کو پہلے دو دن کا سفر بذریعہ ریل گاڑی ، لاہور تک کرنا پڑتا اور پھر وہاں سے بھارت کے لیے سفرکرنا پڑتا۔ یہ عمل ممبئی جانے والوں کے لیے کافی تکلیف اور مسافت کا باعث بنا ،کیونکہ اس راستے سے ان کا سفر دگنا ہو جاتا تھا۔ اب یہ سہولت بھی بہت طویل عرصے سے تقریباً ناپید ہے کیونکہ ویزے کا حصول اس قدر مشکل ہے کہ بہت سے لوگ پانچ دس برس میں بھی ویزہ حاصل نہیں کر پاتے۔ سند ھ کے لوگوں کے لیے تو یہ عمل جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ویزے کے لیے اسلام آباد جانا پڑتا ہے، صوبہ سندھ میں یہ سہولت بھی دستیاب نہیں۔

یوں دیکھا جائے تو ایک جانب بھارت جانے کے لیے ویزے کاحصول بھی مشکل ترین مرحلہ ہے اور اس کے لیے اسلام آباد جانا پڑتا ہے اور دوسری جانب کھوکھرا پار کا راستہ بند کیے جانے کے سبب سندھ سے بھارت جانے والوں کو بلا وجہ لاہور تک (بذریعہ ریل گاڑی) دو دن کا سفرکرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں ہماری اور عوام کی عمران خان سے گزارش ہے کہ جب وہ اس ریاست کو مدینہ ثانی بنانے جا رہے ہیں اور اقلیتوں کو سفرکی سہولت فراہم کرنے کے لیے بھارت سے بات کرکے عملی شکل دے رہے ہیں تو پھر اس مدینہ کی ریاست کے مسلمانوں کے لیے بھی سفر کی کم ازکم وہ سہولیات تو بحال کرا دیں جو ختم کردی گئی ہیں۔ یہ زندہ حقیقت ہے کہ آزادی کے نتیجے میں دونوں طرف کے عوام اور ان کے خاندان تقسیم ہوگئے اور بعد میں قوانین اس قدر سخت بنادیے گئے کہ آج کے بزرگ یہ دل میں خواہش رکھتے ہیں کہ مرنے سے پہلے بھارت جاکر اپنے رشتے داروں، عزیزوں سے صرف ایک بار مل آئیں مگر ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا ہے۔

راقم کے پڑوس میں ایک ایسے ہی اسی سالہ بزرگ رہتے ہیں جو پاکستان بننے کے بعد بھارت نہیں جاسکے اور گزشتہ پندرہ برس سے کوشش میں لگے ہیں کہ کسی طرح انھیں ویزہ مل جائے اور وہ بھارت جاکر اپنے عزیزواقارب سے مل آئیں، اپنے آباؤ اجداد کے زمینیں اور محلے دیکھ لیں مگر ان کی کوششیں تاحال رنگ نہیں لائیں۔ ان بزرگ کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں بہت سے رشتے داروں کا انتقال ہوگیا مگر افسوس وہ یہاں مجبور ہیں کسی سے تعزیت نہیں کرسکتے، اپنے سگے رشتے داروں کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ان بزرگ کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ مرنے سے قبل ایک بار اپنے پرانے گلی ، محلے اور رشتے داروں کو دیکھ آئیں ۔ یہ کس قدر ظلم ہے کہ دنیا آج گلوبل ولیج کے عہد میں داخل ہوگئی ہے، میلوں کا سفر جو پہلے دنوں اور مہینوں میں ہوتا تھا اب گھنٹوں میں ہو جاتا ہے، پاکستان کے رہنے والے دنیا بھر کے ممالک میں آسانی سے گھوم پھر کر آجاتے ہیں مگر اپنے ہی پڑوسی ملک میں جانے کو ترستے ہیں، ایک ایسا پڑوسی ملک جس میں ان کے آباؤاجداد کی قبریں ہی نہیں، جیتے جاگتے خونی رشتے رکھنے والے انسان بھی ہیں۔

مذکورہ بالا حقائق گو تلخ ضرور ہیں مگر ان تلخیوں کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان جو اس ملک کو مدینہ ثانی بنانے کے لیے بہت سے ’یوٹرن‘ لے چکے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کو بھی حل کریں چاہے اس کے لیے انھیں ایک اور ’یو ٹرن‘ لینا پڑے یعنی نواز شریف کی طرح بسیں چلانے کا بھی فیصلہ کرنا پڑے تو ضرور یہ فیصلہ کریں۔ ویزا پالیسی ختم کریں یا پھر زیادہ سے زیادہ نرم اور آسان کریں، مثلاً پچھلی حکومتوں میں سینئیر سٹیزن کو ویزے سے استثنیٰ حاصل تھا، اسی طرح کھوکھرا پار سرحد کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہوا تھا، اب اس پر عمل ہونا چاہیے۔سندھ سے کھوکھرا پارکی سرحد کھولنے کے علاوہ کراچی شہر سے ویزے کی فراہمی بھی شروع کرے اور ویزے کی شرائط بھی نرم سے نرم کرے۔ عوام منتظر ہیں کہ کب مدینہ ثانی کی اس ریاست یا نئے پاکستان میں یہ اعلانات ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔