خواتین کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ۔۔۔۔ ؛ والدین بیٹیوں کو فاختہ نہیں۔۔۔شاہین بنائیں!!

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے مگر اس کے باوجود انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے ہر سال خواتین پر تشدد کے ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں جبکہ زیادتی، غیرت کے نام پرقتل و دیگر مظالم کی صورتحال بھی افسوسناک ہے۔

اگرچہ پاکستان میں ان جرائم کی روک تھام کے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے خواتین مشکلات کا شکار ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

آشفہ ریاض
(وزیر برائے وویمن ڈویلپمنٹ پنجاب )

ہمارے معاشرے میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ آگاہی پیدا ہوئی تاہم ابھی اس کی مزید ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں تشدد کے خاتمے کو تعلیمی اداروں سے جوڑنا ہوگا۔ میرے نزدیک پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک تعلیمی نصاب میں خصوصی مضمون شامل کیا جائے اور اس میں سے امتحان میں سوال بھی لازمی دیا جائے تاکہ طلبہ اسے توجہ کے ساتھ پڑھیں۔ ایسا کرنے سے معاشرے میں تیزی سے آگاہی پیدا ہوگی۔ 2002ء میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ ڈومیسٹک وائلنس کے حوالے سے قانون سازی کی گئی اورہراسمنٹ کی سزا بھی مقرر کی گئی۔

میں نے اس وقت جب لوگوں کو آگاہی دینا شروع کی تو بعض مردوں کی جانب سے کہا گیا کہ ہمارے گھر بسنے دیں اورلوگوں کو یہ باتیں نہ بتائیں۔ میں چاہتی تھی کہ اس قانون سازی کو سکولوں کے باہر آویزاں کیا جائے تاکہ وہاں آنے والے لوگوں کو آگاہی مل سکے مگر بعض وجوہات کی بناء پرمیرے ساتھ اتفاق نہیں کیا گیا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک معاشرے میں صنفی احساس پیدا نہیں ہوگا تب تک نہ تو سماجی انصاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے کا احترام ہوگا۔ ماضی میں جب میں وزیر رہی تب ہم نے پولیس کو ٹریننگ دی۔ اب بھی جلد یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔

جس کی وجہ یہ ہے کہ ڈی پی اوز اور ڈی ایس پیز اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ’’جینڈر سینس ٹائزڈ‘‘ ہیں تاہم ایس ایچ اوز اور ان سے نیچے کا عملہ کم تعلیم یافتہ ہے اور یہاں مسائل بھی زیادہ ہیں۔جرم صرف مرد نہیں کرتے بلکہ خواتین بھی کرتی ہیں اور جیلوں میں خطرناک جرائم میں ملوث خواتین بھی قید ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پولیس مستحق خاتون کے بجائے جرائم پیشہ خاتون کو سپورٹ کر دیتی ہے جو افسوسناک ہے۔ ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جو خواتین معاشی طور پر مضبوط ہوتی ہیں ان کے ساتھ ہراسمنٹ نہیں ہوتی مگر بدقسمتی سے ہماری سوچ انتہائی پسماندہ اور ہمارے رویے خراب ہوچکے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ ایس ڈی او سطح کی خواتین کو ان کا ماتحت عملہ ہراساں کرتا ہے جبکہ دیگر خواتین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ہمیں ان تمام حالات میں اپنی خواتین کو ذہنی طور پر مضبوط بنانا ہوگا کیونکہ جب وہ ذہنی طور پر مضبوط ہوں گی تو جسمانی طاقت خود بخود پیدا ہوجائے گی۔ والدین سے میری گزارش ہے کہ اپنی بیٹیوں کو فاختہ نہیں شاہین بنائیں۔ کوئی بھی لڑکی صرف اپنے والدین کی نہیں بلکہ ریاست کی بیٹی ہوتی ہے اور اس کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی اداروں کو چاہیے کہ خواتین کو بھرپور تحفظ دیں تاکہ یہ پیغام جائے کہ وہ ریاست کی بیٹیاں ہیں۔ میں جلدہی حکومت کو یہ تجویز دوں گی کہ تعلیمی اداروں میںطلبہ کو سائیکالوجیکل ٹریٹمنٹ فراہم کیا جائے تاکہ ان کی کاؤنسلنگ ہوسکے۔ اس کے لیے سائکاٹرسٹ بھرتی کیے جائیں تب ہی ہم صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے چھوٹے چھوٹے آگاہی ویڈیوکلپ بنا کر لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے۔ افسوس ہے کہ ہم اپنی روایات اور کلچر سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کس سمت میں جارہی ہے یہ ہم سب کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ ہمیں ان پر توجہ دینا ہوگی۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں ریسرچ کرتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں صرف ڈگریاں جاری کی جاتی ہیں جبکہ ریفریشر کورسز بھی نہیں کروائے جاتے، میری تجویز ہے کہ شعبہ تدریس سے منسلک اداروں میں افسران و اساتذہ کی ترقی کو ریفریشر کورسز سے مشروط کیا جائے اور سول سروسز اکیڈمی کے نصاب میں جینڈر سٹڈیز کو شامل کیا جائے۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں نچلی سطح تک تربیت دی جائے کیونکہ وہاں خواتین کو جائیداد کے حصول کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس وقت ہماری توجہ 100 روزہ پلان کی جانب ہے جس میں ہمارے ساتھ 13 ادارے تعاون کررہے ہیں۔ تیزاب گردی، گھریلو ملازمین، ڈومیسٹک ورکرز، زرعی مزدور و دیگر کے حوالے سے قانون سازی کیلئے تجاویز دی گئی ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز کو تحفظ دینے کیلئے لیبر ڈیپارٹمنٹ اور سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ان کی رجسٹریشن و پینشن کے حوالے سے کابینہ کو تجاویز بھجوا دی گئی ہیں جسے منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ ہم صرف خواتین کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کیلئے قانون سازی کررہے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی ایک طبقے کو نظر انداز کرکے معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ سندھ میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس ہے جبکہ پنجاب میں یہ حد 16 برس ہے۔ اس کویقینی بنانے کے لیے نکاح کو ’’ب فارم‘‘ سے مشروط کردیا گیا ہے اور نکاح نامے کے ساتھ ’’ب فارم‘‘ منسلک کرنا لازمی قررا دے دیا گیا ہے۔ اس سے کم عمر کی شادیوں کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

فوزیہ وقار
(چیئرپرسن پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن)

24 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے جبکہ اس حوالے سے 16 روزہ عالمی مہم 25 نومبر سے 10 دسمبر تک جاری رہتی ہے جس میں دنیا بھر سے لاکھوں خواتین اپنا حصہ ڈالتی ہیں تاکہ تشدد کے خاتمے کیلئے بھرپور آواز اٹھائی جاسکے۔ عالمی سطح پر گزشتہ کئی دہائیوںسے یہ مہم جاری ہے جبکہ پاکستان میں وفاق اور صوبائی سطح پر خصوصاََ پنجاب میں اس حوالے سے کافی زیادہ کام ہوا ہے۔ اس عالمی دن کا مقصد یہ ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلا ف آواز اٹھائی جائے، تشدد کی مختلف اقسام اور نوعیت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے سدباب کیلئے اقدامات کا تعین کیا جائے۔ موجودہ حکومت کے 100 روزہ پلان میں وویمن ڈویلپمنٹ ایک لازمی جزو ہے جس میں بے شمار قانونی و انتظامی اقدامات شامل ہیں، وویمن ڈویلپمنٹ کی وزیر اس کی قیادت کررہی ہیں۔ کمیشن برائے حقوق خواتین بھی اس پلان کے اہداف کے حصول میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ میرے محکمے نے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔

پنجاب کے تمام اضلاع میں ڈویژن کی سطح پر تعلیمی اداروںمیں، کمیونٹی کی سطح پر اور میڈیا کے ذریعے تقریباََ 45 پروگرام منعقد کروائے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی دی جاسکے۔ اس وقت ہم 16 روزہ عالمی مہم پر کام کررہے ہیں۔ خواتین کے تحفظ کیلئے ہائر ایجوکیشن اور سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے تعلیمی اداروں کے فزیکل ایجوکیشن کے ٹرینرز کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنی طالبات کو یہ تربیت دے سکیں۔27 نومبر کو وزیر برائے وویمن ڈویلپمنٹ ایوارڈز تقسیم کریں گی۔ 2014ء سے 2018ء تک کے اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2014ء میں یہ تعداد 6 ہزار تھی جو اب 8 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ تمام صوبوں کے اعداد و شمار اکٹھے کریں تو صورتحال تشویشناک ہے۔

لہٰذا ایسی صورتحال میں خواتین کو سیلف ڈیفنس کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ خواتین کے مسائل کے حوالے سے آگاہی اور ان کے حل کے لیے دسمبر میں پولیس ٹریننگ سینٹرز میں پولیس کیلئے تربیتی پروگرامز شروع کررہے ہیں تاکہ تفتیش، تشخیص، بیان کی ریکارڈنگ، میڈیکل چیک اپ ودیگر مراحل کوخواتین کے حوالے سے بہتر کیا جاسکے۔ اس میں ہمیں محکمہ پولیس کا تعاون حاصل ہے۔ تشدد کا شکار خواتین کی دادرسی کیلئے ایک ہی چھت تلے تمام سہولیات فراہم کرنے کے ماڈل پر ملتان میں وویمن کرائسس سینٹر بنایا گیا جو بہترین ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی اس بات کوسراہا ہے کہ ایک ہی جگہ خواتین کوتمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس حوالے سے اتھارٹی موجود ہے لہٰذااس طرح کے مزید سینٹرز بھی تعمیر کیے جائیں گے۔

ممکن ہے کہ پہلے سے موجود دارالامان کو ہی اپ گریڈ کرکے سہولیات دے دی جائیں۔ وویمن کرائسس سینٹر ملتان میں شکایات سیل، پولیس کاؤنٹر، میڈیکولیگل، کورٹ و دیگر سہولیات موجود ہیں لہٰذا دیگر اضلاع میں بھی اس ماڈل پر کام کیا جائے گا۔ خواتین کی دادرسی کے لیے خصوصی ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جس پر خاطر خواہ کام ہوا ہے۔ خواتین پہلے متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں، اگر وہاں ان کی دادرسی نہیں ہوتی تو پھر ہماری ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔

آن لائن شکایات کے سسٹم سے بہتر نتائج آرہے ہیں۔ ہمیں روزانہ 100 سے 150 کالز موصول ہوتی ہیں جبکہ وزیراعظم شکایات سیل کی جانب سے بھی ہمارے محکمے کو شکایات کی ایک فہرست بھیجی گئی ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ جلد از جلد ان شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ ہیلپ لائن کے حوالے سے مثبت پہلو یہ ہے کہ ہماری پولیس کے ساتھ کووآرڈینیشن بہت اچھی ہے۔ اس حوالے سے ’’اے آئی جی‘‘ جینڈر کرائمز تعینات کی گئی ہیں جنہیں ایڈیشنل آئی جی انوسٹی گیشنز ہیڈ کرتے ہیں۔ ہمیں گزشتہ 3 برسوں میں 90ہزار سے زائد کالز موصول ہوئی ہیں جن پر ایک دن کے اندر اندر ایکشن لیا جاتا ہے اور متعلقہ اداروں کو ریفر کردیا جاتا ہے۔ معاشی لحاظ سے خواتین بہت پیچھے ہیں یہی وجہ ہے کہ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس ہم 144 ممالک میں سے 143 ویں نمبر پر ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ہمارے جی ڈی پی کا 30 فیصد صرف اس لیے ضائع ہوجاتا ہے کہ معاشی ماڈل میں خواتین کی شمولیت نہیں ہے۔

سعدیہ سہیل رانا
(رکن صوبائی اسمبلی پنجاب و رہنما پاکستان تحریک انصاف )

کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے حوالے سے ہم نے گزشتہ 5 برسوں میں بہت زیادہ کام کیا اور اس پر قانون سازی کی کوشش بھی کی تاہم بعض وجوہات کی بناء پر ایسا نہیں ہوسکا لہٰذا لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کرنے کے لیے بہت جلد عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ ڈومیسٹک ورکرز کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ میں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ کرنے کا بل کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے جو منظوری کے مراحل سے گزرنے کے بعد جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

اس بل کی منظوری سے نہ صرف ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق کو تحفظ ملے گا بلکہ چائلڈ لیبر کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ میں نے اس حوالے سے تجویز دی تھی کہ یونین کونسل کی سطح پر گھریلو ملازمین کا اندراج لازمی قرار دیا جائے، اس سے نہ صرف ملازمین کو حقوق دینے میں آسانی ہوگی بلکہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ چوری، ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی کمی آئے گی۔ گھریلو ورکرز کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔ خواتین گھر میں اشیاء تیار کرتی ہیں جبکہ ’’مڈل مین‘‘ انہیں جائز معاوضہ نہیں دیتالہٰذا ہاتھ کا کام کرنے والوں کیلئے فی گھنٹہ اجرت مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ گزشتہ برسوں میں خواتین کے حوالے سے بہت زیادہ قانون سازی ہوئی۔ تشدد کا شکار خواتین کے لیے ملتان میں کرائسز سینٹر بھی بنایا گیا جہاں ایک ہی چھت تلے تمام سہولیات فراہم کی گئیں مگر بدقسمتی سے خواتین کے حوالے سے اقدامات کیلئے مناسب بجٹ نہ رکھنے اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ ہمارے ملک میں جزا و سزا کا نظام درست نہیں ہے۔

تیزاب گردی، زیادتی، غیرت کے نام پر قتل و دیگر جرائم ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا گیا؟ تیزاب گردی اور زیادتی جیسے جرائم کی کم از کم سزا موت ہونی چاہیے ۔ قوانین پر عملدرآمد کے بغیر معاشرے میں سدھار نہیں آسکتا لہٰذا ہماری توجہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانے اور موجودہ قوانین میں بہتری لانے کی جانب مرکوز ہے۔ بدقسمتی سے کوئی بھی واقعہ رونما ہونے کے بعد اس پر کارروائی کی جاتی ہے جبکہ روک تھام کیلئے کوئی میکانزم نہیں ہے۔

ہمیں اس کا ادراک ہے لہٰذا ان واقعات کو رونما ہونے سے پہلے روکنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ معذور افراد اور خواجہ سرا بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ معذور خواتین کو بھی بے شمار مسائل درپیش ہیں جبکہ خواجہ سرا کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان دونوں طبقات کے حوالے سے موثر آواز نہیں اٹھائی جاتی لہٰذا ان کے مسائل کے حل کیلئے انہیں اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان ہے۔ معاشرے میں سدھار پیدا کرنے اور نوجوان نسل کی سمت درست کرنے کیلئے والدین اور اساتذہ کو بچوں کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی۔

سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار و سماجی کارکن )

دنیا میں ترقی کو خواتین کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے لہٰذا خواتین کی شمولیت کے بغیر ہم ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکتے۔ اب صرف تعلیم یا صحت پر بات نہیں ہوتی بلکہ اس میں خواتین کی تعلیم اور صحت پر بھی بات ہوتی ہے۔ اب ممالک کی درجہ بندی کو صنفی مساوات سے جوڑ دیا گیا ہے لہٰذا ہمیں جینڈر بیسڈ گورننس کے ماڈل کی جانب بڑھنا ہوگا۔اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اب لوگ آواز اٹھاتے اور شکایت کرتے ہیں جیسے جیسے خواتین میں شعور بیدار ہورہا ہے تو انہیں معلوم ہورہا ہے کہ جسے وہ اپنی قسمت سمجھتی تھیں ، دراصل وہ ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ پاکستان میں خواتین بڑی تیزی سے ہر شعبے میں لیڈ لیتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

فیصلہ سازی، سکیورٹی، تعلیم، صحت و دیگر شعبوں میں بھی خواتین نمایاں ہیں جبکہ گزشتہ دنوں چینی قونصلیٹ پر دہشت گردی کی کارروائی کے خلاف آپریشن بھی خاتون نے لیڈ کیا جس سے دنیا کو مثبت پیغام گیا۔ اب ہمارے ہاں کلچر تبدیل ہورہا ہے اور خواتین کی شمولیت بڑھ رہی ہے لہٰذا انہیںسازگار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایک جامع پالیسی بنائی جائے، قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، آگاہی مہم چلائی جائے اور معاشرے میں خواتین کے احترام کا پہلو اجاگر کیا جائے۔ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین پر تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر وہاں ادارے بروقت ایکشن لیتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے اداروں میں بہتری لانا ہوگی۔ وویمن کرائسس سینٹرز بہترین قدم ہے مگر صرف ایک سینٹر کافی نہیں، اسے دیگر علاقوں میں بھی پھیلایا جائے تاکہ خواتین کے مسائل حل ہوسکیں۔ پسماندہ علاقوں اور جہاں جاگیردارانہ نظام ہے وہاں خواتین پر تشدد زیادہ ہے۔

ان علاقوں کی حالت بہتر کرنے اور ہیومن ڈویلپمنٹ پر کام کرنے سے صورتحال بہتر بنائی جاسکتی ہے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور سے اب تک خواتین کے حوالے سے بہت زیادہ قانون سازی ہوئی۔ اس حوالے سے اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں بھی بنائی گئیں مگر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہوسکے۔ نوجوان، خواتین اور ہیومن ڈویلپمنٹ تحریک انصاف کے منشور میں شامل ہیں اور موجودہ حکومت اس حوالے سے کام کررہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ماضی میں جو کام ہوچکا اسے مدنظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسی بنائے جس سے تیزی سے ترقی ہوسکے۔ میرے نزدیک معاشرے کی بہتری کیلئے لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں جن میں تربیت کا پہلو شامل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سوک ایجوکیشن کو فروغ دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔