کیا جنوبی پنجاب صوبہ بن پائے گا؟

 منگل 27 نومبر 2018
اگر جنوبی پنجاب صوبہ بن گیا تو یہ تحریکِ انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ (فوٹو: فائل)

اگر جنوبی پنجاب صوبہ بن گیا تو یہ تحریکِ انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ (فوٹو: فائل)

تحریک انصاف کی حکومت کے سو دن مکمل ہوچکے ہیں، نئی نویلی حکومت نے اپنے ہنی مون پیریڈ میں بڑے بڑے وعدے مکمل کرنے کےلیے بہت تگ و دو کی، سنگ میل عبور کرنے کےلیے ہاتھ پیر مارے۔ کچھ وعدے پورے ہوئے تو کچھ پر یوٹرن مار لیا کیونکہ بقول وزیر اعظم عمران خان، وہ لیڈ ر نہیں ہوتا جو یوٹرن نہ مارے، اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہوتا جو یوٹرن نہیں لیتا۔ پیارے قائد کے الفاظ سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں لیکن اس پاپی پیٹ کا کیا کریں جو بھوک مٹانے کےلیے روٹی مانگتا ہے، سردی سے ٹھٹھرتا ننگا جسم کپڑے مانگتا ہے، بارش میں بھیگتے آنگن چھت مانگتے ہیں۔ مجبوریاں اپنی جگہ لیکن ووٹرز تو وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔

وزیراعظم اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں لمبا چوڑا لیکچر جھاڑیں گے، سازندے، کارندے تعریفوں کے پل باندھیں گے، کچھ فرض ہمارا بھی ہے کہ ہم بھی لوگوں کو بتائیں کہ ہمارے حکمران کہاں تک کامیاب ٹھہرے؟ سب وعدوں کا قصہ چھیڑا تو پڑھنے والے اکتا جائیں گے۔ اس لیے ابھی صرف جنوبی پنجاب صوبے کی بات کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ بن پائے گا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے اعلان کے مطابق صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ شاید اس وعدے کی تکمیل کےلیے پانچ سال کا وقت بھی کم پڑ جائے۔ اگر نیا صوبہ بنتا ہے تو یہ تاریخی قدم ہوگا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار کسی صوبے کی تقسیم کی جائے گی۔ پی ٹی آئی یہ سہرا اپنے سر سجاتی ہے تو اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔ فی الحال تو یہ کامیابی جنوبی پنجاب میں سب سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دے کر سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نئے صوبے کی تشکیل میں کئی طرح کی رکاوٹیں بھی ہیں جن میں سرفہرست تحریک انصاف کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کا نہ ہونا ہے، اسی لیے انہیں دوسری سیاسی جماعتوں کی مدد درکار ہو گی جن میں مسلم لیگ ن سر فہرست ہوگی؛ کیونکہ آئین کی دفعہ 239 کے تحت نئے صوبے کی تشکیل کےلیے ہونے والی قانون سازی کو صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی حمایت لازم ہے۔ اور اسی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظوری لازم ہے۔ اس کے بعد ہی نیا صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔

پنجاب میں کم ازکم 245 ارکان کی حمایت چاہیے جب کہ حکومتی اتحاد میں 188 ایم پی ایز ہیں۔ اس لیے جنوبی پنجاب صوبے کا قیام پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ ن کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ آئین کی دفعہ 239 کے تحت نئے صوبے کی تشکیل کےلیے ہونے والی قانون سازی کو صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی حمایت لازم ہے۔ مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں تین انتظامی ڈویژن شامل ہوں گے جن میں ملتان، ڈی جی خان اور بہاولپور شامل ہیں اور یہ تینوں ڈویژن گیارہ اضلاع ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور، بہاولپور، رحیم یار خان اور بہاولنگر پر مشتمل ہیں۔

ان اضلاع کی حلقہ بندیوں کے مطابق مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں صوبائی اسمبلی کی 95 اور قومی اسمبلی کی 46 سیٹیں آتی ہیں۔ موجودہ پنجاب اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 371 ہے جن میں 297 منتخب ایم پی ایز اور مخصوص نشستوں پر 66 خواتین اور 8 غیر مسلم ایم پی ایز شامل ہیں۔ اگر نئے صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے گا تو اس میں منتخب ایم پی ایز کو اپنے علاقوں کی بنیاد پر اپنے اپنے متعلقہ صوبے کی اسمبلی میں جانا ہوگا۔

اس کے بعد وہاں کی نئی پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کے ایم پی ایز اسمبلی میں آئیں گے۔ نئے صوبے جنوبی پنجاب اور پنجاب کی پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح سے ہو گی:

یہاں 95 ایم پی ایز میں سے 53 کا تعلق تحریک انصاف سے، 29 کا مسلم لیگ ن سے، پیپلز پارٹی سے 5، مسلم لیگ ق سے 2 جبکہ ایک آزاد ایم پی اے ہیں۔ اس طرح اس نئے صوبے میں تحریک انصاف کے حکومتی اتحاد کے پاس 95 میں سے 55 سیٹیں ہیں۔ اس لیے یہاں کا وزیراعلی اور صوبائی حکومت آسانی سے تحریک انصاف کو مل جائے گی۔ لیکن دوسری طرف جنوبی پنجاب کے علاوہ رہ جانے والے پنجاب کی نئی حکومت پر تحریک انصاف کو سخت مشکلات کا سامنا ہوگا۔ یہاں پارٹی پوزیشن جنوبی پنجاب سے مختلف ہے جہاں 202 ایم پی ایز میں سے 97 کا تعلق مسلم لیگ ن جب کہ تحریک انصاف کے 87، مسلم لیگ ق کے 6، پیپلز پارٹی ایک، راہ حق پارٹی ایک اور دو آزاد ایم پی ایز ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اس وقت حکومتی اتحاد کے پاس 192 (182تحریک انصاف، 10 ق لیگ) اور اپوزیشن کے پاس 179 (مسلم لیگ ن 179، پیپلز پارٹی 7) سیٹیں ہیں، تین آزاد اور ایک نشست راہ حق پارٹی کے پاس ہے۔

پی ٹی آئی پنجاب میں اپنی حکومت بچانے کےلیے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے فرار چاہتی ہے۔ صوبے کی آواز کو وقتی طور پر دبانے کےلیے جنوبی پنجاب میں ایک الگ سیکریٹریٹ کا قیام عمل میں لانے کے پروگرام کا آغاز کردیا ہے لیکن اس میں ابھی تاخیر ہوگی کیونکہ اس سیکریٹریٹ کے قیام کےلیے شہر کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کےلیے سابق ایم این اے طاہر بشیر چیمہ کی قیادت میں بنائی گئی کمیٹی بہاولپور میں سیکریٹریٹ کا قیام چاہتی ہے جبکہ دیگر ارکان ملتان میں قیام پر زور دے رہے ہیں۔

اُدھر اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکومت الگ صوبے کے قیام کی قرارداد اسمبلی میں لائے۔ حکومت پیشکش قبول کرنے کے بجائے آگے آگے بھاگ رہی ہے۔

پیپلز پارٹی نے حکومت کو بے نقاب کرنے کےلیے منصوبہ بندی کرلی ہے اور اس معاملے پر تحریک چلانے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کی حمایت کےلیے رابطوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کے بعد حکمران جماعت تاخیری حربوں کا جواز کھو دے گی۔ تحریک انصاف صوبہ بنانے کا اعلان کرتی ہے تو اس کی پنجاب اسمبلی میں اکثریت ختم ہوجائے گی جو اس کی حکومت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت یہ کام عام انتخابات سے چند ماہ قبل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت وعدہ کرکے پھنس گئی ہے، اگر وعدہ پورا کرتی ہے تو صوبائی حکومت ہاتھ سے جاتی ہے؛ یوٹرن لیتی ہے تو عوام کی اکثریت کا اعتماد کھو دے گی۔ آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی۔ حکومت کس میں چھلانگ لگاتی ہے؟ اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔