احتیاط کریں

نصرت جاوید  جمعـء 28 جون 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چوہدری نثار علی خان 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی کے پہلی بار رکن بنے تھے اور اس برس سے اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان میں حصہ لے کر بدستور اس ایوان میں آتے رہے ہیں۔ پریس گیلری میں ایک نوجوان رپورٹر کے طور پر بیٹھے ہوئے مجھے ان کی موجودگی کا احساس اس وقت سے ہونا شروع ہوا جب ڈاکٹر محبوب الحق نے انھیں اپنی وزارت کا پارلیمانی سیکریٹری بنوایا اور قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ اور منصوبہ بندی کے بارے میں جتنے بھی سوالات یا تحاریک سامنے آئیں، ان سے چوہدری نثار ہی نبردآزما ہوتے اور اکثر اپنے نپے تلے جوابات اور متعلقہ موضوع پر بھرپور تیاری سے رپورٹروں کو متاثر کرتے۔

بالآخر انھیں مرحوم جونیجو نے وزارتِ پٹرولیم کا مکمل وزیر بنا دیا۔ مگر چوہدری صاحب کے مکمل وزیر بن جانے کے چند ہفتوں بعد جنرل ضیاء نے پوری حکومت اور اسمبلیوں کو فارغ کر دیا۔1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں تو چوہدری نثار علی خان اپوزیشن میں چلے گئے۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں لیکن وہ بہت زیادہ شور شرابہ نہ کرتے۔ان کے حاسدین نے کہانی یہ پھیلائی کہ چونکہ ان کے سسرال کا پیپلز پارٹی سے دیرینہ تعلق ہے، اس لیے چوہدری نثار اپوزیشن بنچوں پر کبھی کبھار اور وہ بھی خاموشی سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔

میں نے اس الزام کے تناظر میں اپنے طور پر سراغ لگانے کی کوشش کی تو دریافت ہوا کہ چوہدری نثار اپنا زیادہ تر وقت لاہور میں گزارتے ہیں۔ لاہور میں بیٹھ کر وہ اور شہباز شریف ایک خاص گروہ کے ساتھ مل کر بے نظیر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ ان کے ساتھ وابستہ گروہ میں ان دنوں ملک نعیم کا نام بھی شامل تھا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ چونکہ نثار اور نعیم کا تعلق ’’جرنیلی خاندانوں‘‘ سے ہے اس لیے یہ دونوں نواز شریف کے لیے ’’اصل حکمرانوں‘‘ سے روابط استوار کر کے انھیں گہرا بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔

بالآخر نواز شریف 1990ء میں اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ ان کی پہلی حکومت میں ہونے والی سب برائیوں کا ذمے دار نواز شریف کے ’’پانچ پیاروں‘‘ کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ چوہدری نثار ان پیاروں میں سب سے اول گردانے جاتے تھے۔ شاید اسی لیے جب 1997ء میں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے تو ان کے دوسرے دور کے ابتدائی دنوں میں چوہدری نثار ذرا دبے دبے سے نظر آتے رہے۔ شہباز شریف کے ساتھ ان کی گرم جوش دوستی مگر اپنی جگہ قائم رہی اور چند ماہ کے وقفے کے بعد چوہدری نثار دوبارہ حکومتی پالیسیاں بنانے کے حوالے سے بہت موثر نظر آنا شروع ہو گئے۔

پھر 12 اکتوبر 1999ء آ گیا۔ نواز شریف اور ان کا خاندان تو اٹک قلعہ کے تہہ خانوں میں بند کر دیا گیا مگر چوہدری نثار علی خان کو ان کے اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس ’’آرام دہ‘‘ ٹھہرائی جانے والی نظر بندی کو نثار علی خان کے رقیبوں نے بڑی بیدردی سے استعمال کیا۔ اس کے باوجود جب 2002ء کے انتخابات ہوئے تو وہ مسلم لیگ نون ہی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ اس ایوان میں اپوزیشن کا اصل ٹھیکہ جاوید ہاشمی، خواجہ سعد رفیق اور تہمینہ دولتانہ نے اُٹھائے رکھا۔ اس کے باوجود جب 2008ء کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف نے جاوید ہاشمی کے بجائے چوہدری نثار علی خان کو اپوزیشن لیڈر بنایا۔

نواز شریف کا یہ فیصلہ مسلم لیگ کے بہت سارے اراکین قومی اسمبلی نے دل سے قبول نہ کیا۔ صرف بہت ہی قریبی دوستوں کی محفلوں میں اس پر جلتے کڑھتے رہے۔ چوہدری نثار علی خان کی اپنی جماعت کے لوگوں میں موجود ایسی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری سے لے کر نچلی سطح کے عہدے دار ہمیشہ اصرار کرتے رہے کہ ان کی جماعت کے اصل دشمن چوہدری نثار علی خان ہیں۔ وہ نواز شریف اور زرداری کے درمیان تعلقات کو بہتر نہیں ہونے دیتے۔

اس خیال کو پھیلاتے پھیلاتے نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ پیپلز پارٹی کے کئی وزیر اپنی نجی محفلوں میں نواز شریف کے وفاداروں کو پوری سنجیدگی سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے کہ فوجی خاندان سے اپنے تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چوہدری نثار علی خان بالآخر خود اس ملک کا وزیر اعظم بننے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان اور نواز شریف کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے کی خاطر لگائی یہ گیم کامیاب نہ ہوپائی۔ مگر 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف ہی کے بہت سارے وفادار چکری کے اس پیال راجپوت کی ’’رعونت اور ضد‘‘ کو راولپنڈی اور ٹیکسلا سے مسلم لیگ نون کی تحریک انصاف کے ہاتھوں بدترین شکست کا ذمے دار ٹھہراتے پائے گئے۔

میرے بہت سارے صحافی دوستوں کا خیال تھا کہ شاید راولپنڈی ڈویژن کے انتخاباتی نتائج کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں کوئی تگڑی وزارت نہ حاصل کر پائیں گے۔ ہوا مگر اس کے بالکل برعکس۔ چوہدری صاحب کو قومی اسمبلی کا اسپیکر، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ میں سے کسی کا انتخاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے وزارتِ داخلہ کا انتخاب کیا تو میرے بہت سارے ساتھیوں نے طے کر لیا کہ انھوں نے یہ وزارت دراصل ایک بڑے نام والے ٹھیکے دار کو ’’نتھ ڈالنے‘‘ کے لیے چُنی ہے۔ کہانیاں شہر میں یہ گردش کر رہی ہیں کہ ٹیکسلا کی آبائی نشست سے چوہدری نثار علی خان کی شکست دراصل اس بڑے نام والے کی دریا دلی کے باعث ممکن ہوئی۔

میں اس کہانی سے ذاتی طور پر ہرگز اتفاق نہیں کرتا۔ ویسے بھی افواہوں اور کہانیوں سے بالاتر ہو کر قومی اسمبلی کی گیلری میں بیٹھے ہوئے مجھے چوہدری نثار علی خان نواز شریف کی تیسری حکومت کے سب سے متحرک اور با اثر وزیر نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کا پارلیمانی ہنر اس وقت اپنے پورے جوبن پر نظر آیا جب عمران خان انتخابات کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی میں حلف اٹھا کر بجٹ کے بارے میں اپنی تقریر کرنے تشریف لائے۔ ان کی بڑی موثر تقریر کا جسے قومی اسمبلی کے تمام اراکین اور گیلریوں میں بیٹھے کپتان کے مداحین نے پوری توجہ اور احترام سے سنا، چوہدری نثار علی خان نے بڑا جاندار جواب دیا۔

اپنے پتے اس ہوشیاری سے کھیلے کہ بالآخر عمران خان کو چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ایچی سن کالج میں گزارے دن یاد آ گئے۔ ان ہی دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے عمران خان نے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ایوان سے رخصت ہوتے گرم جوش مصافحہ کیا اور تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ کے درمیان انتخابی مہم کے دنوں میں پیدا ہونے والی تلخیاں ہوا میں گم ہوگئیں۔

اللہ خیر کرے، آج کل تقریباً روزانہ ایم کیو ایم والے وزیر داخلہ کو کراچی کے حالات کے بارے میں کچھ کرنے پر اُکساتے رہتے ہیں۔ فی الحال چوہدری نثار بس یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ امن و امان قائم رکھنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے، ان کی نہیں۔ مجھے لیکن یہ خدشہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے بار بار اُکسانے کی وجہ سے وہ ایک دن ’’واقعی پورے ملک کا وزیر داخلہ‘‘ بھی بن سکتے ہیں۔ وہ ایسا بن گئے تو کیا ہو گا؟ ایم کیو ایم میں وہ کون ہے جو چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ایچی سن کالج میں عمران کی طرح موجود تھا۔ اگر ایسا کوئی حوالہ نہیں تو احتیاط برتنے میں کیا ہرج ہے؟!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔