سیاحوں پر حملے کی بزدلانہ کارروائی

محمد فیصل شہزاد  جمعـء 28 جون 2013

اتوار کو نیٹ پر جب یہ خبر پڑھی کہ پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں نانگا پربت بیس کیمپ میں دہشت گردوں نے دس غیر ملکیوں اور ایک پاکستانی سیاح کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے تو دماغ سن ہو کر رہ گیا۔ یوں تو ملک میں جاری دہشت گردی کی نئی لہر میں ہونے والے سارے واقعات ہی افسوس ناک ہیں، لیکن گلگت کا یہ واقعہ بہت ہی زیادہ قابل مذمت ہے۔

یہ بہت ہی برا ہوا، بہت ہی برا… بیرون ملک سیاح دراصل اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں اور جس ملک میں جاتے ہیں، وہاں کے مہمان تصور ہوتے ہیں۔ اور مہمانوں اور سفیروں کو حالت جنگ میں بھی کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ سیاح ایسے مہمان ہیں جو آپ کے گھر آتے ہیں تو لاکھوں ڈالر زرمبادلہ اور روزگار کے چھوٹے بڑے سیکڑوں مواقع ساتھ لے کر آتے ہیں اور جاتے ہوئے میزبان کے گھر سے حسین یادیں اوراس کے سوفٹ امیج کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو ایڈونچر ٹورازم، قدرتی خوبصورتی، مذہبی سیاحت اور تاریخی مقامات سے مالامال ہے۔ ان مقامات میں سے کئی خاص مقامات گلگت، بلتستان میں ہیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 5 چوٹیاں، 7 ہزار میڑ سے بلند 101 چوٹیاں، 5 ہزار ایک سو گلیشیر، چوبیس سو مربع میل پر مشتمل برفانی علاقہ، سیکڑوں قدرتی جھیلیں، ہزاروں سال پرانا تاریخی ورثہ، دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے نہایت پرکشش ہیں۔

یہاں ہی دنیا کا منفرد ترین مقام ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، یعنی یہاں تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش ہم آغوش ہوتے ہیں۔ ان سحر انگیز مقامات کی وجہ سے گلگت سیاحوں کی جنت کہلاتا تھا لیکن اس جنت میں پچھلے ایک عشرے سے امن و امان کی حالت نہایت خراب ہے، جس کی سنگینی میں کئی گنا زیادہ اضافہ اس سانحے سے ہوگیا ہے۔

سیاحت کا شعبہ کسی بھی ملک کا بہت اہم شعبہ ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف زر مبادلہ ملک میں آنے کا بڑا ذریعہ ہے بلکہ یہ کسی بھی ملک کے مثبت تاثر کو بیرونی دنیا میں عام کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ سیاح جس ملک میں جاتے ہیں، وہاں کی سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی اقدار کے بارے میں جان کر پھر دنیا بھر میں ایک طرح سے اس ملک کے بغیر تنخواہ کے سفیر بن جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں کئی ایسے ممالک ہیں، جن کی مجموعی ملکی آمدن کا دار و مدار ہی سیاحت پر ہے۔ دنیا بھر میں سیاحت ایک بڑی صنعت بن چکی ہے جس سے لاکھو ں لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے۔

شعبہ سیاحت سے وابستہ انھی کثیر الفوائد مقاصد کی وجہ سے وہ ممالک جو خوبصورت قدرتی مناظر اور تاریخی و ثقافتی ورثہ سے مالا مال ہیں، وہاں سیاحوں کو ہر ممکن سہولیات پہنچائی جاتی ہیں، جن میں سب سے بڑھ کر ان کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں امن و امان کی حالت اتنی مخدوش ہے کہ اب ہم مہمانوں کی حفاظت بھی نہیں کرسکتے۔ کتنے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ وردی پوش دہشت گرد انتہائی دشوار گزار راستوں سے گزر کر آتے ہیں، اپنے ہدف کو ہٹ کرتے ہیں اور بحفاظت اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہوجاتے ہیں اورذمہ دار ادارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

یہ اگر تحریک طالبان کی کارروائی ہے جیسا کہ میڈیا پر چرچا ہے، تو انتہائی ظالمانہ و بزدلانہ کارروائی ہے۔ اس میں ملوث لوگ محب وطن تو خیر کیا ہوتے، شاید مسلمان بھی نہیں ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ڈرون حملوں کے ردعمل میں اور دنیا کو ڈرون حملوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ کارروائی کی گئی ہے۔ یہ دلیل انتہائی بھونڈی دلیل ہے۔ یہ اسلام کے احکامات کے بالکل خلاف ہے۔

افغان طالبان، جن کے نام پر یہ لوگ خود کو طالبان کہتے ہیں، کے بارے میں غیر ملکی میڈیا بھی معترف ہے کہ وہ جنگی اخلاقیات کی پابندی کرتے ہیں۔ عین حالت جنگ میں ایک برطانوی صحافی خاتون جو بہروپ بدل کر جاسوسی کرنے کے لیے افغانستان میں داخل ہوتی ہے اور طالبان کے قبضے میں آجاتی ہے تو صرف دس دن میں طالبان کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہوجاتی ہے اور دوسری طرف ان کے نام لیوا یہ پاکستانی ہیں جو بزعم خود اپنے اوپر ظلم کا بدلہ معصوم اور نہتے سیاحوں کو خون میں نہلا کر لیتے ہیں۔

بہرحال یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کا تاثر جو انتخابات کے بعد سے عالمی طور پر مسلسل بہتر ہو رہا تھا، بے حد منفی ہوجائے گا۔ اس واقعے کے ضمن میں دفتر خارجہ اور گورنر گلگت کے بیانات بھی انتہائی اہم ہیں، جس سے شک ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اور اس کا پس منظر اتنا سادہ نہیں، جتنا واقعے کے ذمے دار نے ذمے داری قبول کرتے ہوئے بتایا ہے۔ دفتر خارجہ نے سانحے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے ذمے داران پاک چین تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی بات گورنر گلگت بلتستان نے بھی کی۔ انھوں نے بھی واقعے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا عندیہ دیا ہے۔

دہشت گردی کا یہ واقعہ اس حوالے سے اور بھی سنگین ہے کہ ویسے بھی سیاحت کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں پاکستان کا حال انتہائی دگرگوں ہے۔ ابھی پچھلے ماہ مئی میں سیاحت کے حوالے سے ایک رپورٹ کی بازگشت عالمی میڈیا پرسنائی دیتی رہی۔ اس رپورٹ میں پاکستان کو جو سیاحت کے زمرے میں عالمی طور پر کم ازکم پہلے پانچ ممالک میں جگہ پانے کا استحقاق رکھتا تھا، ہماری نااہلی کی وجہ سے سیاحت کے لیے دنیا کے پہلے پانچ خطرناک ترین ممالک میں پانچویں نمبر پر شمار کیا گیا ہے۔

یہ شرمناک اعزاز پچھلے ماہ مئی 2013 میں امریکی جریدے فوربز کی اس حوالے سے مرتب کردہ فہرست میں پاکستان کو دیا گیا۔ اس فہرست میں ڈکیتیاں، قتل و غارت، کرپشن، اغوا برائے تاوان، دہشت گردی اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھا گیا۔ فہرست میں صومالیہ کو سیاحت کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا، دوسرے نمبر پر افغانستان موجود ہے، تیسرے نمبر پر عراق کو رکھا گیا ہے، چوتھے نمبر پر افریقی ملک کانگو ہے اور اس کے بعد پاکستان کا نمبر ہے جہاں دہشت گردی عروج پر ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد اب پاکستان کو سیاحت کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پہلے نمبر کا ’’اعزاز‘‘ دے دیا جائے۔اﷲ ہم سب پر رحم فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔