سندھ حکومت کے خلاف سازشیں

شرمیلا فاروقی  جمعـء 28 جون 2013

پاکستان ایک وفاقی مملکت ہے۔ 1972 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد چار وفاقی یونٹوں پر مشتمل اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا۔ ان میں جنوبی صوبہ سندھ سمندر کے کنارے واقع ہے۔ ملک کی اہم بندرگاہیں کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم اسی صوبہ میں واقع ہیں۔

پاکستان کی معیشت میں کراچی اور اس کی بندرگاہوں کا اہم کردار ہے اور یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پورٹ قاسم اور پاکستان اسٹیل جیسے عظیم منصوبے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کا کارنامہ ہیں۔ صوبے کے لیے پی پی پی کی اعلیٰ خدمات کے سبب سندھ کے عوام پیپلز پارٹی پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ سید قائم علی شاہ کا تیسری بار وزیراعلیٰ بننا اس بھروسے کا مظہر ہے۔

مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائدین کو پیپلزپارٹی کی مقبولیت چبھ رہی ہے۔ وہ بے چین ہیں کہ کسی طرح اورکسی بھی بہانے سے سندھ پر اپنا قبضہ جمالیں۔ وہ کبھی سندھ میں گورنر راج لگانے کی بات کرتے ہیں، کبھی مارشل لاء کی پھلجڑی چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی سندھ کی منتخب جمہوری حکومت کو الٹی میٹم دیتے ہیں۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے حالیہ بیان سے سندھ کے عوام کو بڑا صدمہ پہنچا کہ ایک ماہ میں حالات درست نہ ہوئے تو وفاق کارروائی کرے گا۔ اگرچہ بات صرف امن و امان کی ہے تو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو بہت ہی خوفناک صورتحال ہے، جہاں آئے دن بم دھماکے اور خودکش حملے ہوتے رہتے ہیں اور بلوچستان میں تو پاکستان کی بنیاد قائداعظم ریزیڈنسی کو ہی تباہ کردیا گیا۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان شاید بھول گئے کہ اب وہ اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں۔ سندھ حکومت کو دی جانے والی ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کی ’’الٹی میٹم‘‘ کا ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں نے نوٹس لیا ہے اور حیرت کا اظہار کیا کہ الٹی میٹم صرف سندھ حکومت کے لیے کیوں، امن و امان کی صورتحال تو تمام صوبوں میں مخدوش ہے، کرائم ریٹنگ میں پنجاب سرفہرست ہے، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان بھی مسلسل دہشت گردی کا شکار ہیں، مگر کیا الٹی میٹم صرف سندھ حکومت کے لیے ہے۔

یہ چوہدری نثار کی جانب سے سیاسی تعصب کا کھلا مظاہرہ ہے، مینڈیٹ کے احترام کا درس دینے والے شاید یہ بھول گئے کہ سندھ کے اکثریتی عوام نے پیپلزپارٹی کو بھرپور مینڈیٹ دے کر منتخب کیا، لہٰذا پیپلزپارٹی کا سندھ میں حق حکمرانی تسلیم کرنا قومی سلامتی و استحکام کے لیے لازم و ملزوم ہے، چوہدری نثار کو اس بات کا مینڈیٹ بھی نہیں کہ وہ صوبے کی حکومت کو بائی پاس کریں، یہ صوبائی خودمختاری کے برخلاف ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے گزشتہ 5 سال میں کبھی پنجاب حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کی، مگر افسوس چوہدری نثار اپنے آقاؤں کے اشارے پر امن و امان کا بہانہ بناکر سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔ سندھ کے شکست خوردہ عناصر سے ساز باز کرکے سندھ حکومت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں، مگر سندھ کے عوام بیدار ہوچکے ہیں، سندھ کے عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہیں، جس طرح انھوں نے عام انتخابات میں سندھ کے نام نہاد سیاسی رہنماؤں کو مسترد کیا، اسی طرح وہ چوہدری نثار کی سازشوں کو بھی اپنے اتحاد سے ناکام بنائیں گے۔

تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ بعض حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چوہدری نثار اور ان کی ٹیم ایک ایسی سازش کررہی ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں امن و امان کی صورتحال پیدا کرکے سندھ حکومت پر قبضہ کیا جائے، اسی طرح کی سازش حکیم محمد سعید کے قتل کے وقت بھی تیار کی گئی تھی اور حکیم سعید کے قتل کی آڑ میں سندھ حکومت برطرف کی گئی تھی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اب ایک بار پھر کراچی میں کوئی بڑی کارروائی کرا کر سندھ حکومت کو برطرف کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔

لیکن اب عوام باشعور ہیں، سندھ کے عوام اپنے حقوق کے دفاع کے طریقہ کار سے اچھی طرح واقف ہیں، جمہوری عمل کو سندھ میں پٹڑی سے اتارنے کے انتہائی خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ دراصل نواز حکومت اس بات سے پریشان ہے کہ اس نے شوق حکمرانی میں انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے وعدے کر ڈالے جس میں سے کوئی وعدہ نہ پورا ہوا اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔

چند ہفتوں میں نئی حکومت کی کارکردگی واضح ہے، غربت اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوتا جارہا ہے، پورے ملک میں دہشت گردی عروج پر ہے، انتظامیہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے، فیصل آباد میں پولیس نے چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر عورتوں اور بچوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا مگر چوہدری نثار نے پنجاب حکومت کی کارکردگی کی علامتی مذمت بھی نہیں کی۔ چوہدری نثار، جنرل چوہدری نثار نہ بنیں اور ان کو جو ذمے داریاں دی گئی ہیں وہ اس کو آئینی دائرے میں رہتے ہوئے پورا کریں۔ سندھ حکومت کے خلاف سازشوں میں استعمال ہونے والی اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو قومی مسائل کے حل کے لیے استعمال کریں، تو یہ ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا اور خود ن لیگ کے حق میں بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔