افریقہ کا پہلا شہر

جاوید چوہدری  منگل 27 نومبر 2018
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہم نے طریفہ سے فیری لی اور آدھ گھنٹے میں اسپین سے طنجہ پہنچ گئے‘ طنجہ جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے حیران کن شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ یورپ کی طرف سے براعظم افریقہ کا پہلا شہر ہے‘ یہ دو براعظموں‘ دو تہذیبوں اور دو جغرافیائی اکائیوں کا نقطہ اتصال بھی ہے‘ آپ سمندر میں بیس منٹ کا سفر کرتے ہیں اور ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے۔

کہاں یورپ کا سکون‘ صفائی اور آرام اور کہاں افریقہ کی افراتفری‘ گندگی اور شور‘ کہاں چرچز کی گھنٹیاں اور حرام کھانا اور کہاں حلال اور اذان کی آوازیں غرض بیس منٹ کے سفر نے ہر چیز بدل کر رکھ دی‘ طنجہ (تانجیر) دو سمندروں کا مقام وصل بھی ہے‘ یہاں بحراوقیانوس (اٹلانٹک اوشن) اور بحیرہ روم (میڈٹیرین سی) آپس میں ملتے ہیں‘ میڈٹیرین گرم اور اٹلانٹک ٹھنڈا سمندر ہے‘ یہ دونوں ملتے ہیں اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے سبز اور سرمئی پانیوں کو ساتھ ساتھ بہتا دیکھتے ہیں۔

شہر کا ایک حصہ میڈٹیرین سی پر آباد ہے‘ دوسرا اٹلانٹک اوشن پر ہے اور تیسرا حصہ دونوں سمندروں کے مقام وصل پر۔سمندروں کے درمیان ٹریفالگر نام کا وہ مقام بھی موجود ہے جہاں 1805ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان خوفناک بحری جنگ ہوئی‘ یہ مہم نپولین وار کا حصہ تھی‘ اسپین نے فرانس کا ساتھ دیا تھا‘ یہ مقام بحری جہازوں کا قبرستان بھی کہلاتا ہے کیونکہ یہاں دونوں فریقین کے درجنوں جہاز ٹوٹ کر ڈوب گئے تھے تاہم یہ جنگ برطانیہ جیت گیا اور اس نے اس جیت کی یاد میں لندن میں ٹریفالگر اسکوائر بنایا ‘ یہ اسکوائر لندن آنے والے ہر سیاح کی تصویر کا حصہ بنتا ہے‘ طنجہ میں زمانہ قدیم کے غار بھی ہیں‘ یہ غار ہرکولیس کیو کہلاتے ہیں‘ غار کا دھانہ سمندر کی طرف کھلتا ہے۔

سمندر کی لہریں جوش میں چٹانوں سے ٹکراتی ہیں اور پانی اڑ کر غار کے اندر داخل ہو جاتا ہے‘ غار گیلریوں کی طرح اندر ہی اندر پھیلتا چلا جاتا ہے‘ زمانہ قدیم میں یہاں افریقہ کے قدیم باشندے رہتے تھے‘ غار کے دہانے کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ہو بہو براعظم افریقہ کا نقشہ محسوس ہوتا ہے‘ مراکش دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے امریکا کو تسلیم کیا تھا‘ امریکا نے 1776ء میں سول وار کے بعد برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا اور مراکش کے شاہ محمدالثالث بن عبداللہ نے 1777ء میں امریکا کو آزاد ملک تسلیم کر لیا ‘اس کے بعد دنیا بھر کے ملک امریکا کو امریکا مانتے چلے گئے۔

سلطان سلیمان نے 1821ء میں امریکا کو طنجہ میں سفارت خانہ بنانے کے لیے زمین دی‘ یہ امریکا سے باہر امریکا کی پہلی جائیداد تھی‘ امریکا نے طنجہ میں سفارت خانہ بنایا‘یہ افریقہ‘ جنوبی یورپ اور اسلامی ممالک میں پہلا امریکی سفارت خانہ تھا اور یہ آج تک شہر کے قدیم حصے میں موجود ہے‘ طنجہ ہی وہ شہر ہے جس میں پہلا امریکی شہری امریکا کے باہر آباد ہوا‘آئیون پردیکا ریس (Ion Pardicaris) نے 1872ء میں طنجہ کی ایک پہاڑی خریدی اور اس پر سمندر کے رخ گھر بنایا‘18مئی 1904ء کوپردیکارس اور اس کے سوتیلے بیٹے کو مولائے احمد الرئیسونی نے اغواء کرلیا۔

رئیسونی نے پردیکارس کے عوض سلطان عبدالعزیزسے 70 ہزار امریکی ڈالرزاور مراکش کے دو اضلاع کا کنٹرول مانگا‘ سلطان نے انکار کر دیا‘ امریکی صدر روزویلٹ نے پردیکارس کو چھڑوانے کے لیے ایک نیول دستہ طنجہ بھجوا دیاجب کہ امریکا کے وزیر خارجہ جان ہے (John hay) نے سلطان عبدالعزیز کویہ مشہور زمانہ ٹیلی گرام بھیج دیا’’ہمیں زندہ پردیکارس یا مردہ احمدرئیسونی چاہیے‘‘ سلطان یہ دباؤ برداشت نہ کر سکا‘ اس نے رئیسونی سے معاملات طے کر لیے اوریوں پردیکارس رہا ہوگیا‘پردیکارس کا گھر اور پہاڑی آج تک موجود ہے تاہم حکومت نے پہاڑی کے ایک بڑے حصے کو خوبصورت پارک میں تبدیل کر دیاہے۔

پارک کے قدیم درختوں کے نیچے سے سمندر کا نظارہ ایک لائف ٹائم تجربہ ہے‘ ہالی ووڈ نے پردیکاریس کے اغواء پر1975ء میں ’’ دی ونڈ اینڈ دی لائن‘‘ کے نام سے خوبصورت فلم بنائی‘ فلم میں شین کانری نے رئیسونی کا کردار ادا کیا‘ طنجہ میں برگد کا 9 ہزار سال پرانا درخت بھی ہے‘ برگد ہندوستان کا درخت ہے‘ یہ افریقہ یا یورپ میں نہیں اگتا‘ یہ درخت طنجہ کیسے پہنچا اور اس نے کس طرح افریقہ میں اپنی گنجائش پیدا کی اور یہ نو ہزار سال سے کیسے قائم ہے‘ یہ ایک مسٹری ہے۔

یہ درخت کبھی گورنر ہاؤس یا شاہی محل کے صحن میں ہوتا تھا لیکن یہ شاہی محل اب کامرس منسٹری میں تبدیل ہو چکا ہے‘ درخت واقعی پرانا ہے اور یہ قدرت کا کرشمہ بھی‘ طنجہ ماضی میں بھی غیر ملکیوں کی آماجگاہ تھا اور آپ کو آج بھی یہاں دنیا بھر کی قومیتیں نظر آتی ہیں‘ مراکش 1947ء میں آزاد ہوا‘ طنجہ کی آبادی اس وقت ایک لاکھ تھی‘ان ایک لاکھ لوگوں میں مقامی لوگ صرف 20 ہزار تھے‘ 80 ہزار غیر ملکی تھے‘ آج شہر میں پندرہ لاکھ لوگ ہیں۔

ان میںاڑھائی لاکھ غیر ملکی ہیں‘ آپ کو نیویارک کے بعد دنیا کے ہر رنگ اور قومیت کا شخص یہاں مل جاتا ہے‘ کیوں؟ اس کا جواب طنجہ کی شاندار لوکیشن ہے‘ یہ شہر دنیا کی سب سے بڑی تجارتی گزر گاہ پر واقع ہے چنانچہ دنیا جہاں کے بزنس مینوں نے یہاں اپنے دفتر بنا رکھے ہیں یا یہ یہاں رہائش پذیر ہیں‘ یورپ کے مقابلے میں طنجہ کا موسم بھی خوش گوار ہے‘ سردیوں میں یہاں زیادہ سردی نہیں پڑتی اور طنجہ کی گرمیاں بھی زیادہ گرم نہیں ہوتیں‘ یہ ایک ایسا دلچسپ شہر ہے جس میں سمندر‘ پہاڑ اور ہموار زمین تینوں ہیں‘ آپ چند قدم اٹھاتے ہیں اور آپ پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں اور آپ چند قدم اٹھا کر ٹھوس زمین پر آ کھڑے ہوتے ہیں اور آپ چند کلو میٹر کا سفر طے کر کے ٹھنڈے اور گرم دونوں سمندروں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

یہ ایک ایسا دلچسپ شہر بھی ہے جس میں آپ کو مسجد‘ چرچ اور سیناگوگا تینوں ساتھ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں‘ شہر میں یہودیوں کے محلے‘ قبرستان‘ مارکیٹیں اور سینا گوگا بھی موجود ہیں‘ عیسائیوں کے محلے اور چرچ بھی ہیں اور مسجدیں تو سیکڑوں ہیں‘ مسجدوں کے مینار سیویا کی قدیم مسجد کے مینار جیسے ہیں‘ آپ دونوں کو دیکھیں تو یہ آپ کو ایک دوسرے کے کزن محسوس ہوں گے۔

مجھے یہودیوں کے محلے اور قبرستان میں بھی جانے کا اتفاق ہوا‘ میرے گائیڈ نے سینا گوگا میں جانے کا بندوبست بھی کر دیا‘ یہ سینا گوگا پرانے شہر کی تنگ گلیوں میں تھا اور یہ خاصا قدیم تھا‘ سینا گوگا کی دیوار پر ربیوں کی تصویریں اور نام لکھے تھے‘ قبرستان میں دفن لوگوں کے نام بھی وہاں موجود تھے‘ میں زندگی میں پہلی بار کسی سینا گوگا میں داخل ہوا تھا چنانچہ میرے لیے وہاں کی ہر چیز انوکھی تھی۔

یہودی صبح اور شام دو وقت سینا گوگا آتے ہیں‘ ان پر روزانہ دو نمازیں فرض ہیں‘ مرد نیچے عبادت کرتے ہیں اور خواتین بالائی منزل پر‘ عبادت عیسائیوں کی طرح لکڑی کے بنچوں پر کی جاتی ہے‘ سامنے آلٹر (محراب) پر ایک کھڑکی ہوتی ہے‘ کھڑکی کے پیچھے ہرن یا گائے کی کھال کی بڑی بڑی تین پھرکیاں ہوتی ہیں اور تورات ان پھرکیوں پر کندہ ہوتی ہے‘ یہ پھرکیاں قالین میں ملفوف ہوتی ہیں‘ ربی آلٹر کے دائیں طرف بیٹھتا ہے‘ اس کے ڈیسک پر تین رنگوں کی تورات پڑی ہوتی ہے۔

میں بڑی دیر تک سیناگوگا میں بیٹھا رہا‘ سینا گوگا کے دروازے پر سفید لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا چپکا ہوا تھا‘ یہودی اس ٹکڑے کو چوم کر عبادت گاہ میں داخل ہوتے ہیں‘ یہ لکڑی سینا گوگا کے فنکشنل ہونے کی نشانی ہوتی ہے‘ شہر میں 1263ء میں بننے والی ایک قدیم مسجد بھی موجود تھی‘ مسجد کا مینار سیویا کے کیتھڈرل کے مینار جیسا تھا‘ شہر کے تین حصے ہیں‘ پہلا حصہ مدینہ کہلاتا ہے‘ یہ قدیم شہر ہے‘ گلیاں تنگ اور پتھریلی اور گھر قدیم اور پرشکوہ‘ مدینہ سے باہر جدید شہر آباد ہے‘ یہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں بنا اور شہر کا تیسرا حصہ امراء کی جدید ترین آبادی پر مشتمل ہے۔

یہ حصہ پہاڑوں کی اترائیوں پر قائم ہے‘ یہاں محلات ہیں اور ہر محل ارب روپے مالیت کا ہے‘ ان محلات میں مراکشی رئیس بھی رہتے ہیں‘ یورپ اور امریکا کے امراء بھی اور عرب ملکوں کے تاجر‘ صنعت کار اور شہزادے بھی‘ طنجہ شہر میں پاکستان کے کل ہوٹلوں سے زیادہ ہوٹل ہیں اور یہ ہوٹل اس کی سیاحتی انڈسٹری کے طاقتور ہونے کی نشانی ہیں۔میں اور سہیل مقصود ایک رات وہاں رکے‘ ہم رات کے وقت طریفہ سے طنجہ آئے‘ شہر کے قدیم علاقے میں گھر میں قائم مراکشی ریستوران میں کھانا کھایا اور عربی اور اسلامی روایات کی آغوش میں سو گئے۔

ہم نے اگلی صبح گائیڈ لیا اور ہم طنجہ کی قدیم گلیوں میں اتر گئے‘ یہ آنت جیسی باریک اور طویل گلیاں تھیں جن کے ہر مکان‘ ہر کوچے اور ہر چوراہے میں تاریخ دفن تھی‘ ہم ان گلیوں میں گھومتے گھومتے دنیا کے پہلے امریکی سفارت خانے کی عمارت میں پہنچ گئے‘ یہ مراکشی طرز کی پرانی عمارت تھی‘چھوٹے پتھروں کا وہی صحن اور صحن میں وہی فوارہ اور صحن کی طرف کھلتی گھر کی تمام کھڑکیاں اور ہر کھڑکی اور ہر دروازے سے لٹکتی بیلیں اور بیلوں کے سرخ پھول‘ وہ عمارت ماضی اور حال کا خوبصورت گلدستہ تھی مگر اس کی خوبصورتی اپنی جگہ اور ابن خلدون اور ابن بطوطہ کا محلہ اپنی جگہ۔

ہم اپنے مرشد ابن بطوطہ کی جائے پیدائش اور مزار تلاش کر رہے تھے‘ ہم تلاش میں مارے مارے پھرتے ہوئے بالآخر اس چوک میں پہنچ گئے جس کی ایک پتلی گلی پر ابن خلدون کا بورڈ لگا تھا اور دوسری پر ابن بطوطہ لکھا تھا‘ ابن خلدون نے چند ماہ طنجہ میں قیام کیا تھا‘ وہ گلی اس قیام کی یاد تھی جب کہ ہمارا مرشد ابن بطوطہ پیدا ہی اس گلی میں ہوا تھا‘وہ پہاڑی گلی تھی‘ اونچی نیچی اور اس اونچی نیچی گلی کے دونوں طرف کندھے سے کندھا اور سینے سے سینہ جوڑ کرکھڑے چھوٹے چھوٹے مکان تھے‘ میں گلی میں دوڑتا ہوا تیزی سے اوپرچلا گیا اور پھر ایک موڑ پر میری دھڑکنیں رک گئیں‘ سامنے ایک چھوٹا سا مزار تھا اور مزار پر ابن بطوطہ لکھا تھا‘ وہ دس بائی بارہ فٹ کا کمرہ تھا۔

ابن بطوطہ نے زندگی کا آخری حصہ اس کمرے میں گزارہ تھا‘ مرشد نے دنیا کا شاندار ترین سفر نامہ بھی اسی جگہ لکھا تھا‘ اس نے آخری سانسیں بھی یہیں لی تھیں اور وہ انتقال کے بعد مدفون بھی یہیں ہوا تھا‘میں مزار کے ساتھ گلی میں بیٹھ گیا‘ دنیا جہاں کی تاریخ اور 44 ملک پاؤں کے بل میرے سامنے بیٹھ گئے اور طنجہ کی رونقیں دائیں بائیںقطار اندر قطار کھڑی ہو گئیں‘ ہم سب مرشد کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔