پاکستان نایاب پودوں کے معاملے میں خود کفیل ہے، ماہرین

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 29 جون 2013
جامعہ کراچی میں قیمتی پودوں کے موضوع پر ورکشاپ سے مقررین کاخطاب فوٹو: فائل

جامعہ کراچی میں قیمتی پودوں کے موضوع پر ورکشاپ سے مقررین کاخطاب فوٹو: فائل

کراچی:  جامعہ کراچی میں ’’پاکستان کے مخصوص ماحول میں قیمتی پودوں کا مستقل تحفظ اور مطالعہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ 2 روزہ سیمینارکے آخری روز خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان دیگر ممالک کی بہ نسبت قدرتی جنگلات اور نایاب درختوں و پودوں میں خود کفیل ہے۔

شعور اور آگہی کی کمی کے باعث یہاں موجود دنیا کے بیش قیمت اور نایاب درختوں وپودوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، یہاں موجود مختلف پودوں سے جگر، آنتوں اور دل کی بیماریوں کا علاج کا میابی سے کیا جاسکتا ہے، دنیا بھر میں جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے فوائد حاصل کیے جارہے ہیں، پودوں کے سائنسی اور شناخت کے اعتبار سے نام نہ رکھنے کے باعث زہریلے اور انسانی صحت کے لیے نقصان دہ پودے کھانے میں بھی استعمال ہوجاتے ہیں، ان خیالات کا اظہار شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر محمد قیصر، ڈاکٹر انجم پروین، ڈاکٹر منصور احمد، ڈاکٹر شیرولی قراقرم یونیورسٹی، ڈاکٹر ضبطہ خان شنواری اور ڈاکٹر حید ر علی شامل نے اپنے خطاب میں کیا، ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ پودوں کا نام اور ان کی شناخت تکنیکی اور سائنسی اعتبار سے رکھنا چاہیے تاکہ زہریلے پودے کھانے والے پودے سمجھ کر استعمال نہ کر لیے جائیں۔

ڈاکٹر انجم پروین نے کہا کہ پولن گرین پر سندھ کے علاقے خیر پور میں گھاس اور خودرو پودوں کی ان اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں دیگر پودوں کے مقابلے میں پولن گرین کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے، یہ پودے ساری دنیا میں سانس اور دمے کے مرض کا موجب بنتے ہیں، ڈاکٹر منصور احمد نے کہا کہ پاکستان میں موجود مختلف پودوں پر تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہاں ارجونا، مکو اور مکی جیسے انواع کے پودے آنتوں، جگر اور دل کے امراض کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر ضبطہ خان شینواری نے کہا کہ پودوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جانے والا کیمیکل اور دیگر دوائیں فصل کش کیڑوں کا خاتمہ کرتی ہیں، پاکستان میں بائیوٹیکنالوجی کے استعمال سے پودوں کا مثبت استعمال بڑھایا جاسکتا ہے، سرگودھا یونیورسٹی کے ڈاکٹر امین شاہ، شیرولی اور ڈاکٹر حید علی نے کہا کہ چترال میں11ایسے نایاب قیمتی پودے ہیں جو پوری دنیا میں اور کہیں نہیں پائے جاتے، سیمینار کے آخر میں شیخ الجامعہ نے شرکا کو اعزازی شیلڈ پیش کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔