اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغان حکومت کا کنٹرول ملک کے بہت تھوڑے حصے پرہوگا، برطانوی جنرل

ویب ڈیسک  ہفتہ 29 جون 2013
2002 میں ہونے والی بون کانفرنس میں ہمیں افغانستان کے تمام موثر گروپوں کو مدعو کرنا چاہئے تھا، برطاوی جنرل۔ ۔فوٹو : فائل

2002 میں ہونے والی بون کانفرنس میں ہمیں افغانستان کے تمام موثر گروپوں کو مدعو کرنا چاہئے تھا، برطاوی جنرل۔ ۔فوٹو : فائل

کابل: افغانستان میں تعینات برطانوی کمانڈر جنرل نک کارٹر نے کہا ہے کہ  2014 سے نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد  افغان حکومت کا کنٹرول ملک کے بہت تھوڑے حصے پر ہوگا اور اس کے لئے بھی کابل حکومت کو مغربی امداد پر انحصار کرنا ہوگا۔

برطانوی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں جنرل نک کارٹر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پچھلی ایک دہائی سے جن مسائل کا سامنا ہے وہ سیاسی ہیں اور سیاسی مسائل کا حل صرف بات چیت ہی سے نکلتا ہے۔ 2002 میں طالبان شکست خوردہ اور ذہنی طور پر پسپا ہوچکے تھے اگر اس وقت نیٹو اور امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتیں ان سے مذاکرات کا آغاز کرتیں تو نتائج بالکل مختلف ہوتے اور نہایت آسانی کے ساتھ افغانستان کا سیاسی نکالا جاسکتا تھا۔ 2002 میں جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس میں ہمیں افغانستان کے تمام موثر گروپوں کو مدعو کرنا چاہئے تھا۔

برطانوی فوجی کمانڈر نے اعتراف کیا کہ ملک کے اکثر علاقوں میں طالبان یا حکومت مخالف گروپس نہایت مضبوط اور متوازی حکومت قائم کئے ہوئے ہیں 2014 سے نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد  افغان حکومت کا کنٹرول ملک کے بہت تھوڑے حصے پر ہوگا اور اس کے لئے بھی کابل حکومت کو مغربی امداد پر انحصار کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔