جہاں کوئی نہیں گیا

زبیر نیازی  اتوار 30 جون 2013
قصہ ایک دل چسپ اورخطرناک مہم کا،سمندر کی سب سے نچلی تہہ ’’ماریانا ٹرینچ‘‘ تک پہنچنے کا سفر ۔ فوٹو : فائل

قصہ ایک دل چسپ اورخطرناک مہم کا،سمندر کی سب سے نچلی تہہ ’’ماریانا ٹرینچ‘‘ تک پہنچنے کا سفر ۔ فوٹو : فائل

 مہم جوئی بڑا ہی نرالاشوق ہے۔

بس ایک مرتبہ کسی کے ذہن پر یہ سوار ہو جائے تو پھر وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ وہ اپنی ایک الگ دنیا بسالیتا ہے۔ ایسی دنیا جس میں خواب اُس کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ وہ خواب جنہیں سن کر لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں، اُسے پاگل یا دیوانہ کہتے ہیں لیکن اُسے ان سب باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اُس کی یہ ضد ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے ان خوابوں کو عملی شکل دے۔ اپنے ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کبھی وہ مائونٹ ایورسٹ کی بلندیوں پر چڑھ جاتا ہے تو کبھی مائیکرو سافٹ جیسا عجوبہ بناکر دنیا کو حیران کر دیتا ہے۔ کبھی چاند کی بلندیوں کو چھوتا ہے تو کبھی پیدل دنیا کے سفر پر نکل پڑتا ہے۔ الغرض ناممکن کو ممکن بنانا ہی اُس کی منزل ہوتی ہے۔

زیر نظر مضمون ایک ایسی ہی مُہم کی روداد ہے۔ عالمی شہرت یافتہ فلم ڈائریکٹر اور ’’ٹائی ٹینک‘‘ جیسی شان دار فلم کے خالق جیمز کیمرون ایک مہإ جو بھی ہیں، انہوں نے پنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا تاریخی سفر انجام دیا جسے دنیا اب تک ناممکن سمجھتی رہی تھی۔ یہ سفر دنیا بھر کے سمندروں میں سب سے گہری تہہ ’’ماریانا ٹرینچ‘‘ تک پہنچنے کا تھا، جسے جیمز کیمرون نے اپنی ٹیم کے ساتھ ممکن بنایا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے اُنہوں نے سات برسوں کی انتھک محنت کے بعد ایک آب دوز تیار کی تھی جس کا نام ’’ ڈیپ سی چینلجز‘‘ رکھا گیا۔ آئیے اس سفر کی روداد جیمز کی زبانی سنتے ہیں۔

سفر کا آغاز
٭ڈبلیو ایس ڈبلیو آف گام، ویسٹرن پیسیفک

26 مارچ 2012 وقت 05:15
میرے ’’ڈیپ سی چیلینجر‘‘ کو جیسے ہی گہرے سیاہ سمندر میں اتارا گیا تو مجھے ایسے لگا جیسے سمندر نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔ ہم گذشتہ آدھی رات سے ہی اس کی تیاری کر رہے تھے اور پوری ٹیم بڑی محنت سے اپنا کام کر رہی تھی۔ اپنی مہم جوئی کی تاریخ میں میرے ساتھ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ اس وقت میں اپنے چھوٹے سے کاک پٹ میں بیٹھا بیرونی کیمروں کی مدد سے دو غوطہ خوروں کو دیکھ رہا ہوں، جو میری سب وے کے اردگرد منڈلا رہے ہیں۔ انہی غوطہ خوروں نے مجھے الوداع کہنا ہے۔

پائلٹ چیمبر43 انچ ڈایا میٹر پر مشتمل ہے اور میں کسی اخروٹ کی طرح اس میں قید ہوں۔ میرے گھٹنے، بیٹھے ہوئے شخص کی طرح، خم کھائے ہوئے ہیں اور مجھے اس پوزیشن میں اگلے 8 گھنٹوں تک بیٹھنا ہے۔

لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اگر مجھے اس مہم میں خطرناک صورت حال پیش آئی تو پھر کیا ہوگا؟ میرے لیے اس میں ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تو اسے بہت آرام دہ اور محفوظ سمجھتا ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے اس وقت چار اسکرینیں ہیں۔ تین اسکرینیں بیرونی کیمروں سے لی گئی ویڈیوز دکھا رہی ہیں جب کہ ایک ٹچ اسکرین اوزاروں کا پینل ہے۔

ہلکے سبز رنگ کی یہ آب دوز بیچ سمندر میں کھڑی اپنی مہم پر جانے کے لیے تیار ہے۔ میں نے اپنے تھری ڈی کیمرے کو باہر کی طرف نکالا تاکہ آب دوز کے رخ کا جائزہ لے سکوں۔ مجھے اس قسم کی مہم جوئی کرتے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے اور اس وقت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ گذشتہ چند ہفتوں سے میں یہ سوچ کر خوف زدہ نہیں ہو جاتا کہ اگر کچھ گڑ بڑ ہوگئی تو پھر کیا ہوگا، لیکن اس وقت میں بہت ہی پرسکون محسوس کر رہا ہوں۔

ایک معاون ڈیزائنر کی حیثیت سے میں اس آب دوز کے تمام فنکشنز کو اچھی طرح سے سمجھتا ہوں۔ کئی ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد اب میرے ہاتھ پیر بغیر سوچے سمجھے، خود بخود اپنا کام کر رہے ہیں۔ مجھے کسی بھی قسم کی مشکل پیش نہیں آ رہی، بس ایک خواہش ہے کہ ہم وہ کام کرلیں جس کے لیے ہم یہاں جمع ہیں، علاوہ ازیں بچپن کی طرح کا ایک تجسس بھی ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ چلیں آئیں اپنی مہم شروع کرتے ہیں۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور مائیک میں کہا ’’اوکے‘‘ میں تیار ہوں۔ چھوڑ دو، چھوڑ دو، چھوڑ دو۔

ہینگنگ بیگ چھوٹتے ہی آب دوز کسی پتھر کی مانند سمندر کی گہرائی میں جاگری اور چند ہی لمحوں میں غوطہ خور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اب میرے ارد گرد اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اسکرینیں مجھے بتا رہی ہیں کہ میں500 فٹ فی منٹ کی رفتار سے نیچے جا رہا ہوں۔ عمر بھر کا خواب، سات برس کی انتھک محنت کے بعد بالاخر میرا ’’ڈیپ سی چیلنجر‘‘ ماریانا ٹرینچ کی طرف بڑھ رہا ہے، جو کہ دنیا کے سمندروں میں سب سے گہرا مقام ہے۔

 

٭وقت، 5:50 ، رفتار 3.5 ناٹس، گہرائی 12,500فٹ

میں ٹائی ٹینک کی گہرائی تک صرف 35 منٹ میں پہنچ گیا۔ یہ 1995ء کا ذکر ہے جب ہم روسی آب دوز کے ذریعے مشہور زمانہ فلم ’’ ٹائی ٹینک‘‘ کی شوٹنگ کے سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ اُس وقت مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ٹائی ٹینک جہاز زمین کی عمیق گہرائیوں میں ہے اور اس تک پہنچنا چاند پر پہنچنے کے مترادف ہے۔ لیکن آج مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اپنے گھر کے قریب سے کوئی چیز خریدنے آیا ہوں۔ اس وقت ہماری آب دوز اُس وقت کے روسی آب دوز سے چارگنا زیادہ رفتار سے یہاں پہنچی ہے۔ 15منٹ بعد میں15,617فٹ کی گہرائی تک اتر گیا۔ یہ گہرائی جنگی جہاز ’’بسمارک‘‘ کی ہے۔ (1940ء میں بننے والا یہ جنگی جہاز اُس وقت جرمنی کا سب سے بڑا اور یورپی ممالک میں دوسرے نمبر پر بڑا جہاز تھا، جو27 مئی1941ء کو شمالی اوقیانوس میں ڈوب گیا تھا۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جہاز جنگی حملوں کی وجہ سے ڈوبا تھا۔ تاہم اصل وجوہات کے بارے میں اختلاف ہے)

2002ء میں جب میں اس مقام پر پہنچا تھا، تو ہماری آب دوز کا بیرونی بلب آب دوز کے قریب ہونے والے دھماکے سے پھٹ گیا تھا۔ یہ گہرے پانی میں کسی بھی چیز کے پھٹنے کا میرے لیے پہلا تجربہ تھا۔ اگر اس وقت ہمارے ڈیپ سی چیلینجر کا یہ ڈھانچا ناکام ہوتا ہے تو مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا، لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ ہم نے اسٹیل سے بنے اس ’’حیرت کدے‘‘ کی تحقیق ڈیزائننگ اور اس کی بناوٹ پر تین سال صرف کیے ہیں۔ مجھے اپنے انجینئرز پر پورا بھروسا ہے، جنھوں نے اسے بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

باہر کا درجۂ حرارت اس وقت 35 ڈگری فارن ہائٹ ہے۔ جس وقت ہم نے سطح سمندر سے سفر شروع کیا تھا، اس وقت یہ درجۂ حرارت85 ڈگری فارن ہائٹ تھا۔ میں جس جگہ بیٹھا ہوں وہ جگہ مسلسل سرد ہوتی جا رہی ہے۔ میرے پیر برف بن رہے ہیں۔ اس مختصر سی جگہ پر گرم جُرابیں اور واٹر پروف چیزیں پہننے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ باہر گُھپ اندھیرا ہے اور ایسے لگ رہا ہے جیسے میں کسی برفانی طوفان میں گاڑی چلا رہا ہوں۔

٭وقت 06:33، گہرائی 23,200 ، رفتار 2.8 ناٹس

چینی آب دوز ’’جیائو لونگ‘‘ کو دنیا میں سب سے زیادہ گہرائی تک جانے والی آب دوز کا اعزاز حاصل ہے۔ اب سے کچھ دیر قبل ہم اس گہرائی میں بھی اتر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چند منٹ قبل ہم نے روسی میرس، فرانسیسی نائوٹائل اور جاپانی ’’شنکائی6500‘‘ کا ریکارڈ بھی توڑا ہے۔ میں اس وقت وہ تمام گہرائیاں عبور کر چکا ہوں جہاں اب تک کی بنائی گئی آب دوزیں جا سکتی ہیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ جتنے نام میں نے گنوائے ہیں، ان سب کے پیچھے حکومتی اخراجات کار فرما تھے۔

اس کے برعکس ہمارا یہ چھوٹا سا سبز رنگ کا میزائل نما عجوبہ نجی سطح پر تیار ہوا ہے۔ ہماری ٹیم میں اکثر لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اس سے پہلے کبھی کسی آب دوز میں کام نہیں کیا۔ یہ دنیا بھر کے خواب دیکھنے والوں کا ایک جذباتی منصوبہ تھا، جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ کسی بھی ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں اور آج ہم ان کے اس جذبے کو عملی شکل دیں گے۔

٭وقت، 6:46 گہرائی27,000فٹ، رفتار2.5 ناٹ

میں نے اب سے چند منٹ قبل اپنا سابقہ ریکارڈ توڑا ہے، جو تین ماہ قبل میں نے ’’نیو بریٹن ٹرینچ‘‘ میں قائم کیا تھا۔ یقین ہی نہیں آتا کہ اب بھی9 ہزار فٹ کا سفر باقی ہے۔ میں نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا۔ ایک بھاری قوت ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر آب دوز تھوڑی سی بھی رِستی ہے تو پانی لیزر کی طرح اندر داخل ہوگا اور پھر مجھ سمیت اس کے راستے میں جو بھی چیز آئے گی، یہ اِسے کاٹ ڈالے گا۔

٭وقت 07:43، گہرائی 35,600 فٹ، رفتار0.5 ناٹس

آخری9 ہزار فٹ کی گہرائی کے ساتھ ہی سب وے کی رفتار کم ہوگئی ہے۔ اسی اثناء میں ایک اور گھنٹہ گزر گیا۔ الٹی میٹر اشارہ دے رہے ہیں کہ میری منزل اب صرف 150فٹ رہ گئی ہے۔ تمام کیمرے حرکت میں آگئے ہیں۔ روشنیاں نیچے کی طرف پھیل گئی ہیں۔ میں نے کنٹرول مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام لیا ہے۔

100فٹ… 90 فٹ…… مجھے کچھ نظر آنا چاہیے۔ 70 فٹ… 60 فٹ اور بالآخر مجھے نیچے سے کچھ روشنی نظر آ ہی گئی ۔ یہ انڈے کے چھلکے کی طرح ہم وار ہے، جس کی نہ ہی کوئی تفصیل دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی اس کے فاصلے کا کوئی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میں نے روشنیاں بالکل اس کی سیدھ میں موڑ دیں۔ 5 سیکنڈ بعد یہ روشنیاں سطح زمین سے ٹکرائیں۔ اب میرے نیچے صرف پانی کی چھوٹی چھوٹی لہریں ہیں، جو کسی ریشمی پردے کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ ایک ٹھوس سطح ہے۔ میں نے کنٹرول مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام رکھا ہے۔ میرا مقصد زمین کی تہہ پر روشنی ڈالنا ہے۔ پانی ایک دم شفاف ہے۔ میں اس میں بہت دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ میں80 سے زاید مرتبہ مختلف سمندروں کی تہہ تک گیا ہوں لیکن یہ منظر میرے لیے بالکل نیا ہے۔

٭وقت 7:46، گہرائی35,756، رفتار صفر ناٹ

نیچے کی طرف ایک خالی جگہ ہے۔ میں نے سب وے کا رخ اس کی طرف موڑ دیا۔ نیچے جو کیمرے لگے ہوئے ہیں، ان کی مدد سے میں نے دیکھا کہ ہماری سب وے رکنے سے پہلے چار انچ تک اس میں دھنس گئی۔ اس عمل میں ڈھائی گھنٹے لگ گئے۔ اس خوب صورت مقام سے سگریٹ کی مانند دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس کے بعد سات میل اوپر سے آواز آئی ’’ڈیپ سی چیلنجر۔ یہی سمندر کی تہہ ہے۔‘‘ آواز بہت زیادہ بھاری نہیں تھی لیکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ ہمارا اندازہ تھا کہ زمین سے اتنی دور کسی قسم کی آواز سنائی نہیں دی جا سکتی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا، میں نے مائیک کا بٹن دبایا اور کہا:’’سمندر کی تہہ! ہاں یہی ڈیپ سی چیلینجر ہے۔‘‘ میں اس وقت نیچے کھڑا ہوں۔ گہرائی 35,756 فٹ ہے۔ لائف سپورٹ بہتر ہے۔ ہر چیز بہترین ہے۔‘‘

میرے لیے اب جو کام باقی تھا وہ اس لمحے کو یادگار بنانا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے نیل آرم اسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھ کر انجام دیا تھا۔ میں نے ’’واچ کیپ ‘‘ پہنی۔ اوپر بیٹھے ہوئے عملے سے میری براہ راست گفت گو ہو رہی تھی۔ میں ان تمام لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو اوپر جہاز پر بیٹھے تالیاں بجا رہے تھے اور خوشی سے جھوم رہے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ میری بیوی کا اس وقت خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا، ساتھ ہی ساتھ میں اس خوشی کو بھی محسوس کر سکتا ہوں جو میری ٹیم کو اس کام یابی پر ملی ہوگی۔ جن لوگوں نے یہ عجوبہ بنایا ہے ان میں سے اکثر اوپر جہاز پر موجود ہیں اور انھیں اب تک یقین نہیں آرہا کہ وہ کیا بنا چکے ہیں۔ یہ آب دوز ان کی خواہشات، علم اور خوابوں کی عملی تعبیر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سب لوگ اس وقت میرے ساتھ ہیں۔

میں اس وقت 36 ہزار فٹ کے قریب ہوں۔ اگلی آواز جو میں نے سنی وہ بالکل غیر متوقع تھی،’’اچھی رفتار ہے۔۔۔۔۔ بچے۔‘‘ یہ میری بیوی سوزی کی آواز تھی، جو ریڈار کے ذریعے سمندر کی اوپری سطح سے اپنی محبت کا پیغام سمندر کی نچلی تہہ تک بھیج رہی تھی۔ اس کی آواز سنتے ہی میری دو دنیائیں ایک اجنبی مگر خوب صورت انداز میں آپس میں مل گئیں۔ سوزی اس مہم میں تمام عرصہ میرے ساتھ رہی۔ اُس نے مجھے ہر طرح سے سپورٹ کیا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ لمحہ اس کے لیے کتنا مسحور کن ہوگا۔

اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ہم نے اس مقام پر5 گھنٹے تک منصوبہ بندی کی۔ میں نے کیمروں کی مدد سے سب وے کو موڑا، تاکہ اس نئی دنیا کا جائزہ لے سکوں۔ یہ زمین بالکل ہم وار اور اس کی تمام سمتیں ایک جیسی ہیں، ایک عجیب سی جگہ جہاں آپ کچھ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ آپ نے کرنا کیا ہے۔ میں نے اوپر کی طرف زور لگایا اور سائنس کمپارٹمنٹ کی طرف بیرونی دروازہ کھولا، تاکہ شکنجے کی مدد سے کچھ ذَرّات حاصل کیے جائیں۔ اگر10منٹ تک میری یہ ساری محنت ضائع بھی جاتی ہے تو کم از کم سائنس دانوں کے لیے کچھ مٹی تو یہاں سے مجھے مل ہی جائے گی۔ میرے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ یہ آب دوز دنیا کی سب سے گہری جگہ پر جانے کا ریکارڈ قائم کرے، میرے لیے یہ بھی زیادہ اہم ہے کہ یہ سائنس کا ایک پلیٹ فارم بنے۔

٭وقت 9 بج کر10منٹ، گہرائی 35,752 فٹ، رفتار0.5 ناٹ

ایک ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ میری سب وے شمال کی طرف غوطہ لگانے جارہی ہے۔ یہ زمین ایسی ہے جیسے ابھی ابھی یہاں دور تک برف باری ہوئی ہو۔ میں نے اس مقام پر کسی زندہ چیز کو نہیں دیکھا۔ جلد ہی میرا سامنا یہاں کی دیواروں سے ہوگا۔ اب تک میں جو بھی چیزیں دیکھ رہا تھا وہ ہائی کیمروں کی مدد سے نظر آرہی تھیں۔ مجھے وہ وعدہ یاد آیا جو یہاں آنے سے پہلے میں نے خود سے کیا تھا۔ میں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ مجھے اپنی سب وے کو ہر حال میں نیچے تک پہنچانا ہے۔ لہٰذا اب کوئی مطلب نہیں رہ جاتا کہ میں بغیر دیکھے اس مقام سے واپس چلا جائوں۔ کھڑکی سے براہ راست باہر کا نظارہ کرنے کے لیے مجھے کچھ وقت لگے گا، تاکہ میں اوزاروں کو ٹھیک کرلوں اور خود کو اس پوزیشن میں لے آئوں۔ انسانی آنکھ نے اتنی گہرائی کا نظارہ اس سے پہلے صرف ایک مرتبہ کیا تھا۔ 1960ء میں امریکی نیوی کے ایک منصوبے کے تحت لیفٹیننٹ ڈان واش اور جلیکس پکارڈ اس گہرائی تک پہنچے تھے، لیکن ان دونوں نے یہاں سے23 میل مغرب کی طرف ایک مقام جسے ’’ Vitiaz deep‘‘ کہتے ہیں، وہاں پر غوطہ لگایا تھا، اس مقام کو آج سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

اس سے پہلے جن سمندروں کی تہوں تک میں گیا ہوں، اُن میں 27,000 فٹ گہری ’’ نیو بریٹینس ٹرینچ‘‘ بھی شامل ہے، وہاں میں نے مختلف آبی مخلوقات کا مشاہدہ کیا، لیکن یہاں زندگی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کبھی کوئی نہیں آیا۔

٭وقت 10:25، گہرائی35,686 فٹ، رفتار0.5 ناٹس

میں اس وقت اپنے ’’لینڈنگ سائٹ‘‘ سے تقریباً ایک میل دور ہوں۔ ابھی تک میرے راستے میں کوئی پتھریلی چیز نہیں آئی ہے۔ اب تک میں نے جن ہم وار تہوں پر سفر کیا ہے وہاں میں نے زندگی کی دو ممکنہ علامات دیکھی تھیں۔ میں نے ان کی تصویریں بھی بنائی تھیں۔ ان میں سے ایک موٹا جیلی نما غبارہ تھا، جس کا سائز اس بچے کے برابر تھا جو پہلی مرتبہ بیٹھنا سیکھا ہو، جب کہ دوسرا پانچ فٹ لمبا ایک غار تھا جو ممکن ہے کہ مختلف اقسام کی آبی مخلوقات کا گھر رہا ہو۔ یہ دونوں چیزیں بالکل ناقابل فہم اور ایسی تھیں جو اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھیں۔ میں نے ان دونوں کی تصویریں بھی بنائیں اور سائنس دانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ میری کچھ بیٹریاں لو ہو رہی ہیں۔ کمپاس میں بھی کچھ خرابی محسوس ہو رہی ہے، لگتا ہے جلد ہی یہ جواب دے جائے گا۔ سب وے کی رفتار بھی کافی سست ہوگئی ہے اور اسے کنٹرول کرنے میں بھی مشکل پیش آرہی ہے۔ شدید دبائو بھی اپنا کام دکھا رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وقت نکلتا جا رہا ہے مگر مجھے امید ہے کہ میں کچھ اس طرح کی پہاڑیاں تلاش کر لوں گا جو میں نے ’’نیو بریٹین ٹرینچ‘‘ میں دیکھی تھیں۔ ان پہاڑیوں میں بالکل مختلف قسم کے جانور تھے۔

اچانک میں نے ’’سب وے‘‘ کو داہنے طرف جھکتا ہوا محسوس کیا۔ مجھے سب وے میں کوئی بڑی خرابی محسوس ہوئی، لہٰذا اب میں سیمپل اُٹھا سکتا ہوں اور نہ ہی اس مقام سے آگے جا سکتا ہوں۔ اب یہاں مزید رہنے کا کوئی معقول جواز نہیں رہا۔ اسی اثناء میں مجھے اوپر سے کال آئی کہ، ’’ میں اب اوپر آنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔