’’40 سال ہاتھ سے کپڑا ُبنا لیکن سر پرچھت نہیں بنا پایا‘‘

رانا نسیم  اتوار 30 جون 2013
بیوی کو گزرے 6سال بیت گئے، اُس کی بیماری کا قرضہ آج بھی سرپر ہے ۔ فوٹو : فائل

بیوی کو گزرے 6سال بیت گئے، اُس کی بیماری کا قرضہ آج بھی سرپر ہے ۔ فوٹو : فائل

پتھرکے دور میں رہنے والے انسان نے جب شعور اور تہذیب کا سفر شروع کیا تو سب سے پہلے اسے جسم کو ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور اسی ضرورت نے انسان کو کانٹوں سے پتوں کو جوڑنے سے لے کر ہاتھ سے کپڑا بنتے ہوئے آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جدید ٹیکسٹائل انڈسٹری تک پہنچا دیا۔

تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کپڑا بننے کے کام کے بارے میں کوئی حتمی سال یا مہینے کا پتہ نہیں چلتا لیکن اس امر کی تصدیق ضرور ملتی ہے کہ یہ کام قبل از مسیح سے جاری ہے۔ دور مسیح میں کپڑا بننے کا کام ہر طرف اپنی پہچان بنا چکا تھا اور قدیم مصری اس میں ماہر سمجھے جاتے تھے، اُس دور میں کپڑا بننے والے عمومی طور پر بچے اور غلام ہوتے تھے۔ برصغیر میں ہاتھ سے کپڑا بننے والے کو ’’جولاہا‘‘ کا نام دیا گیا جو لفظ جولی سے نکلا ہے جس کا مطلب بستر پر بچھائے جانے والی چادر ہے۔ جولاہے دستی کھڈی (handloom) پر قالین، چادریں، کھیس، تہبند سمیت ہر طرح کا پہننے والا کپڑا بھی بنتے ہیں۔

مشین پر بننے والے کپڑے کی اہمیت اپنی جگہ مگر ہاتھ سے بنائے جانے والے کپڑے کی مانگ بھی کم نہیں ہو سکی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ہاتھ سے بنایا جانے والا کپڑا بلاشبہ مشین کے مقابلے میں زیادہ معیاری اور پائیدار ہوتا ہے، اسی لئے یہ مہنگا بھی ہوتا ہے۔

پاکستان میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً دستی کھڈی کے کپڑے کا کاروبار نہایت نفع بخش ہے لیکن اس منافع میں محنت کش (جولاہا) کا حصہ انتہائی قلیل اور دستی کھڈی کے مالک کا زیادہ ہوتا ہے۔ دستی کھڈی پر بیٹھے ایک محنت کش کی تمام عمر دھاگے کے تانے بانوں میں گزر جاتی ہے لیکن اس کی گنجلک زندگی کبھی سلجھ نہیں پاتی۔ ایسے ہی ایک جولاہے سے جب ہم نے اس کی زندگی کا احوال جاننا چاہا تو پہلے پہل وہ اسے زخموں پر نمک پاشی قرار دیتے ہوئے بات کرنے پر آمادہ نہ ہوا لیکن جب ہم نے اسے اپنائیت کا احساس دلایا تو پھر وہ کچھ یوں گویا ہوا کہ آج ہی اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال دے گا۔

ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے شہر کمالیہ سے تعلق رکھنے والے 70سالہ جولاہے محمد صادق کو اللہ تعالیٰ نے 4 بیٹوں اور 4 بیٹیوں سے نواز رکھا ہے جن میں سے وہ جیسے تیسے کر کے 3 بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی کا فرض بھی ادا کر چکے ہیں۔ محمد صادق کا کہنا تھا کہ’’ گو کہ گھریلو حالات کچھ اچھے نہیں تھے، لیکن پھر بھی والد صاحب مجھے تعلیم دلوانا چاہتے تھے تاکہ پڑھ لکھ کر میں ان کی طرح مزدوریاں نہ کروں۔ والد صاحب کی شدید خواہش تھی کہ میں کوئی سرکاری افسر بنوں لیکن گھریلو حالات کی سختی نے مڈل سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔

میرے ساتھ جو دوست پڑھتے تھے آج وہ مختلف محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، مگر میں چھوٹی عمر میں ہی قالین بافی کا کام کرنے پر مجبور ہو چکا تھا۔ خود پڑھ نہیں سکا تو سوچا اپنے بچوں کو ہی پڑھا دوں، سب بچوں کو میٹرک تک تعلیم دلوائی لیکن اس کے بعد کم آمدنی اور مہنگائی کے باعث میری ہمت بھی جواب دے گئی اور نتیجتاً آج وہ سب بھی مزدوری ہی کر رہے ہیں۔‘‘ دستی کھڈی کا کام کرنے کے حوالے سے محمد صادق نے کہا کہ ’’ یہ کام ہم آج سے نہیں پشتوں سے کرتے آرہے ہیں، ہمارا یہ وراثتی کام ہندوستان میں بھی جاری تھا لیکن فرق یہ ہے کہ میرے پاس اب اپنا کام کرنے کی استعداد نہیں بلکہ دوسروں کے ہاں مزدوری کرتا ہوں جہاں سے ماہانہ 8 ہزار روپے تک کما لیتا ہوں۔

خدا کا شکر یہ ہے کہ مالکان کا رویہ میرے ساتھ اچھا ہے، اس کی وجہ شائد میرے کام کا تجربہ ہے یا وہ میری ضعیف العمری کا لحاظ کرتے ہیں۔ دستی کھڈی پر کپڑا بننے کا کام بہت اچھا ہے لیکن اگر خود کیا جائے۔ مجھے یہ کام کرتے ہوئے 40 سال بیت چکے ہیں لیکن اب یہ کام میں نے اپنی اولاد کو نہیں سکھایا یعنی ہمارا یہ وراثتی کام میری زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ ہمیشہ حلال رزق کو ترجیح دی، اپنے بچوں کو بھی یہی سبق دیا کہ بیٹا روکھی سوکھی کھا لینا لیکن حرام مت کھانا۔ دستی کھڈی پر کپڑا بننا کوئی آسان کام نہیں، یہ کام کرتے آنکھوں میں موتیا اتر آیا اور دھاگے سے نکلنے والی روئی کی وجہ سے سانس کا بھی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن کیا کریں؟ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے سب کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔‘‘

جولاہے محمد صادق نے گفتگو کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ہمیں اپنے کام کی نوعیت کے بارے میں بتایا کہ ’’ہم زیادہ تر کھدر کا کپڑا بنتے ہیں، کھدر مختلف قسم کا ہوتا ہے لیکن سب سے اچھا اور معیاری کھدر خاکی رنگ کے دیسی دھاگہ سے بنتا ہے۔ (واضح رہے کہ کھدر کی وجہ سے ملک بھر میں کمالیہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے، بڑے شہروں میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے تاجر اپنے دکانوں میں باقاعدہ لکھ کر لگاتے ہیں کہ یہاں کمالیہ کا کھدر دستیاب ہے) کپڑا بُننے کے لئے دھاگے کا ایک رولر (جسے کام کرنے والوں کی زبان میں تانی کہا جاتا ہے) ملتا ہے جسے کھڈی میں لگا دیا جاتا ہے،

نیچے پیڈل بنا ہوتا ہے جہاں پاؤں چلانے سے ایک خاص ترتیب کے ذریعے دھاگہ کھڈی کے سامنے والے حصے تک پہنچتا رہتا ہے، سامنے بیٹھے جولاہے کے ہاتھ میں ایک نال ( انگریزی میں اسے شٹل اور جولاہوں کی زبان میں بامن کہا جاتا ہے) ہوتی ہے جس سے دھاگہ اِدھر اُدھر کیا جاتا ہے تاکہ کپڑا بُنا جا سکے۔ دستی کھڈی کا وسیع تجربہ رکھنے کے باعث مجھے بڑے شہروں میں لگنے والی نمائشوں میں بھی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے جہاں میں لوگوں کے سامنے انہیں کپڑا بُن کر دکھاتا ہوں اور پھر اس سے مجھے کچھ مالی فائدہ بھی پہنچتا ہے، نمائش میں جانے کا سارا خرچہ مالکان برداشت کرتے ہیں۔‘‘

گزشتہ کئی سال سے لوڈشیڈنگ نے نہ صرف قوم کو ایک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے کہ بلکہ معیشت بھی تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ کے کام میں تو بجلی کا کوئی عمل دخل نہیں تو پھر کیا آپ بھی لوڈشیڈنگ سے متاثر ہوتے ہیں؟ اس سوال پر بوڑھے محنت کش کا کہنا تھا کہ ’’ اگرچہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہمارا دیگر شعبوں کی طرح بہت زیادہ نقصان تو نہیں ہوتا لیکن ہم اس کے متاثرین ضرور ہیں۔ نظر کمزور ہو چکی ہے، بجلی چلی جائے تو دھاگے کے تانے بانے درست نہیں ہو پاتے۔ دھاگہ نظر نہیں آتا اور اگر کوئی تان (دھاگہ) ٹوٹ جائے تو اندھیرے کی وجہ سے بوڑھی ہڈیوں کے لئے یہ بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ بار بار دھاگہ ٹوٹنے سے زیادہ مشقت نہیں ہو پاتی، نتیجتاً کام تاخیر کا شکار ہو جاتا جس سے پھر مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی بڑی خواہش ضرور ہوتی ہے، کیا آپ کی بھی کوئی ایسی خواہش ہے؟ سوال سن کر صادق نے ایک لمبا سانس لیا تو اسے کھانسی شروع ہو گئی’’ زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی چھت بنانا ہے، آج تک اپنا ذاتی گھر نہیں بنا پایا، کرائے کے مکان میں رہتا ہوں اور یوں لگتا ہے کہ یہ خواہش دل میں لئے ہی اس دنیا سے چلا جاؤں گا۔ میرے بچے بھی تاحال اسی کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ جسم کمزور ہو رہا ہے اور اس وجہ سے آمدن میں بھی کمی آرہی ہے۔

6 سال قبل اہلیہ کا انتقال ہوا، اس کی بیماری پر جو خرچا آیا اس میں سے آج بھی ساڑھے 17ہزار روپے کا قرض چکانا ہے جو بہت بڑا پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔‘‘ اہلیہ کے انتقال کا ذکر ہوتے ہی صادق کی آنکھیں نم ہو گئیں، میں نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بولے ’’ آج میری اولاد جوان ہے، خود 70سال کا ہو چکا ہوں لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ بڑھاپے میں اہلیہ کے بغیر کوئی زندگی نہیں۔ تنہائی بہت محسوس کرتا ہوں، اب بچے کچھ بھی کہہ لیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔

میرے دل و دماغ میں بہت سے خیالات جنم لیتے ہیں جنہیں میں کسی سے بیان کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ میری اہلیہ کے انتقال کے بعد دنیا میں کوئی ایسا رہا ہی نہیں جس سے اپنے دُکھ سُکھ بانٹ سکوں۔‘‘ گفتگو کرتے ہوئے اچانک محمد صادق جانے کے لئے ہاتھ ملاتے ہوئے اٹھ کر کھڑا ہو گیا، میں نے کہا اتنی بھی جلدی کیا ہے؟ جواباً بولے ’’ صاحب کام کا وقت ہے، اپنے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے یہ خیال ہی نہیں رہا کہ اگر کام کم کیا تو پیسے بھی کم ہی ملیں گے جن سے میرے یا بچوں کا پیٹ تک نہیں بھرتا۔ کہنے کو ابھی اور بھی بہت کچھ ہے پھر کبھی موقع ملا تو تفصیل کے ساتھ آپ کو اپنی زندگی کی کتاب کے پنّے پڑھ کر سناؤں گا‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔