جنرل پرویز مشرف۔ ایک آئینہ

امجد اسلام امجد  ہفتہ 29 جون 2013
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

مسائل اور ایشوز کی پہچان اور اہمیت کے مطابق ان کی ترتیب کے حوالے سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہماری حکومتیں، میڈیا اور معاشرہ عام طور پر ایک مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات یہ مخمصہ اصل اور حقیقی ہوتا ہے لیکن زیادہ تر یہ صورتِ حال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم یا تو کسی مسئلے کو حل کرنے سے دانستہ آنکھ چراتے ہیں یا نان ایشو اور کمتر اہمیت کے مسائل کو اتنا اُچھالتے ہیں کہ اس عمل سے اُٹھنے والی گرد میں سب کچھ گڈ مڈ ہو جائے۔ مثال کے طور پر اس میں کوئی شک نہیں کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ( غیر آئینی) دورِ حکومت میں ملک کو بہت سے مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔

ان کے پیش رَو ’’جنرل ضیاء‘‘ نے بھی ملک کو رُوس افغان جنگ میں اس طرح سے اُلجھایا کہ اس کے منفی اثرات آج تک ہماری جان کا روگ بنے ہوئے ہیں۔ جب کہ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے واقعے کے بعد ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کی وجہ سے پاکستان نہ صرف طرح طرح کے ملکی اور بین الاقوامی مسائل کا شکار ہو گیا اور ہماری معیشت، سیاست، عدالت، قومی ترقی، خارجہ پالیسی اور آئین سب کے سب ایک منجدھار میں چکرانے لگے۔

بلکہ پاک فوج اپنی تمام تر شاندار قومی خدمات کے باوجود ایک ایسے ادارے کے طور پر دیکھی جانے لگی جس کے چند طالع آزما جرنیل جب چاہیں کوئی بہانہ بنا کر اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں اور تقریباََ دس دس برس پر محیط اپنے دورِ حکومت میں جمہوریت کے کاروان میں مزید انتشار پیدا کر کے اگلی باری کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ اس تباہ کن چکر کا اب تک کا آخری مظہر (اور اﷲ کرے یہ آخری ہی ہو) جنرل پرویز مشرف اور ان کا دورِ حکومت ہے۔ لیکن اُن پر کوئی بات کرنے سے پہلے یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ سیاسی نظام میں فوج کی اس بار بار کی دخل اندازی کے اصل اسباب کیا ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کام قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد قائد کی زندگی میں ہی جزوی طور پر شروع ہو گیا تھا۔ لیکن جنرل گریسی اور جنرل آکن لیک کے زمانے تک کشمیر کی جنگ، مہاجرین کی آمد، سیاستدانوں کی ناتجربہ کاری اور شاعروں کی ’’کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ کے مِلے جُلے ماحول کے باوجود فوج ملک کے اندرونی اور سیاسی معاملات سے بہت حد تک دُور رہی۔ لیکن قائد کی رحلت، لیاقت علی خان کی شہادت اور ایک بیوروکریٹ غلام محمد کی حکومت کی وجہ سے فوج میں جس بے چینی نے جنم لیا۔

اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ ایک طالع آزما جرنیل اس قدر مضبوط ہو گیا کہ سات برس کے اندر اندر اِن سروس کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے سیاستدانوں کے پیدا کردہ خلا سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس وقت کی قومی اسمبلی میں وزیرِ دفاع کا عہدہ حاصل کر لیا۔ اور یوں پہلی بار وہ مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہوئی جو بعد میں ایک روایت بنتی چلی گئی جس کی تفصیلات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ پر غور طلب ہے کہ کس طرح بیک وقت بطور وزیرِ دفاع جنرل ایوب سیکریٹری ڈیفنس کے باس اور بطور کمانڈر انچیف اس کے ماتحت ہوا کرتے تھے۔ جس خاموشی اور بے حسی سے ہمارے معاشرے نے فوج کی طرف سے کی جانے والی اس پہلی دراندازی کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا میرے نزدیک وہ بھی اس جرم میں برابر کا حصے دار ہے۔ ایک انگریز سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے بنائے ہوئے فوجی نظام کے باعث تمہاری چھوڑی ہوئی نو آبادیوں میں مسلسل فوجی انقلاب آتے رہتے ہیں اگر اس کا تعلق نظام کی کسی اندرونی کمزوری سے ہے تو تمہارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا کیونکہ تم تو اس کے مُوجد ہو۔ اس نے جو جواب دیا وہ سننے اور سوچنے کے لائق ہے۔ کہنے لگا۔

’’میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک میں کسی طالع آزما جرنیل نے ایسی کوشش کی اور وہ کامیاب بھی ہو گیا تو وہ حکومت تو شائد قائم کر لے مگر وہ اور اس کے بیوی بچے اس ملک میں نارمل زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ یہ معاشرہ انھیں اس کی اجازت نہیں دے گا‘‘۔

میں سمجھتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف پر غداری کے مقدمات قائم کرنے اور انھیں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزا دلوانے کے لیے جو احباب گلے پھاڑ پھاڑ کر شور مچا رہے ہیں انھیں اس آئینے میں اپنی صورت بھی غور سے دیکھنی چاہیے۔ مختلف سرکاری ادارے اور ایجنسیاں جو جنرل پرویز مشرف کے عہد میں بھی قائم اور موجود تھیں جس طرح سے نئے نئے شواہد سامنے لا رہی ہیں انھیں دیکھ کر مجھے سابق رُوسی وزیر اعظم خروشیف سے متعلق ایک جملہ اور واقعہ بہت یاد آتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک محفل میں وہ رُوس کے سابق مرد آہن اسٹالن کی پالیسیوں کے خلاف تقریر کر رہا تھا۔ کسی نے اسے ایک چِٹ بھیجی کہ آپ تو خود اس کی کابینہ کے وزیر تھے اس وقت آپ کیا کر رہے تھے؟ خروشیف نے وہ چِٹ پڑھی اور کہا جن صاحب نے یہ چِٹ بھیجی ہے وہ ذرا اپنی جگہ سے کھڑے ہو جائیں۔ ظاہر ہے کس میں ہمت تھی جو ایسا کرتا۔ چنانچہ وہ صاحب بھی دبک کر بیٹھے رہے۔ خروشیف نے دو تین بار اپنا سوال دہرایا اور پھر مسکرا کر بولا ’’میںان صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں بھی اس وقت یہی کر رہا تھا‘‘۔

اس ساری گفتگو کا ما حاحصل یہ ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف نے کوئی مالی بدعنوانی، ملکی مفادات کے خلاف اقدامات یا آئین سے رُوگردانی کی ہے تو یہ معاملہ عدالتوں کو دیکھنے دیجیئے۔ سرکاری بیانات یا میڈیا پر کی جانے والی بحثیں عدالت کے کام میں دخل اندازی کے مترادف ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ چند طالع آزما جرنیلوں کی وجہ سے باقی کے تمام محبِ وطن اور فرض شناس جرنیلوں اور ملک کی آزادی اور حفاظت کے لیے بے پناہ قربانیاں دینے والی فوج کو ایک جماعت کے طور پر قصور وار ٹھہرایا جانا ان کے ساتھ کھلی نا انصافی ہو گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ مسائل اور ایشوز کی ترتیب میں جنرل پرویز مشرف کے مسئلے کو اُس کی صحیح جگہ پر رکھا جائے۔ عوام کے نزدیک جنرل مشرف کو فوری اور قرار واقعی سزا دینے سے کہیں زیادہ ضروری اور اہم باتیں یہ ہیں کہ انھیں تعلیمی، معاشی اور معاشرتی حوالے سے مضبوط اور آزاد کیا جائے۔ انرجی اور پانی کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے مناسب اور مسلسل اقدامات کیے جائیں۔ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی نیک نامی اور اقتصادی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں (اور ان پر عمل بھی کیا جائے)

جنرل پرویز مشرف کا کیس پاکستانی قوم کے لیے ایک آئینہ ہے اور ہمیں یا د رکھنا چاہیے کہ آئینے پر جمی گرد کا علاج آئینے کو توڑنا نہیں بلکہ اس کو صاف اور شفّاف کرنا ہوتا ہے تا کہ ہر کوئی اس میں اپنا اصلی عکس دیکھ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔