پانی پانی کر گئی مجھ کو

شیریں حیدر  ہفتہ 29 جون 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آسیہ اور اس کے شوہر کا خمیر تو اس مٹی سے اٹھا اور وہ اپنا بچپن اور لڑکپن پاکستان میں گزار کر پردیس جانے والے لوگوں میں سے ہیں مگر ان کی بیٹیاں اس نسل میں سے ہیں جو دو ممالک کی شہریت رکھتے ہیں، پیدائش کینیڈا میں مگر پاکستان سے تعلق اس طرح ہے کہ والدین کے وطن سے محبت رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اگلی نسل کا رابطہ بھی ملک سے رہے۔ چند برس پہلے سے وہ بچوں کو پاکستان میں منتقل کر کے انھیں تعلیم دلوا رہے ہیں تا کہ ان کی ملک سے ربط کی ایک بنیاد بن جائے۔ اس نظام میں رہ کر وہ نظام کو سمجھیں، یہاں اپنی کلاس کی لڑکیوں سے وہ طور اطوار سیکھیں جو کہ پاکستانی لڑکیوں کا خاصہ ہوتے ہیں۔ وہ جس مشرقیت کا خواب نظر میں بسا کر آئے تھے، وہ یہاں مفقود ہے اور وہ اپنے فیصلے پر بارہا پچھتاتے ہیں۔

’’اسکول کے باہر ہزاروں کے مجمعے میں ہماری مما سے دو نوجوان گن پوائنٹ پر ان کا پرس چھین کر بھاگ گئے… کوئی مدد کو کیوں نہیں بڑھا، کسی نے مجرموں کو کیوں نہیں روکا، کسی نے پولیس کو کال کیوں نہیں کی… کوئی کیا کال کرتا، پولیس تو گاڑی سے چار قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی…‘‘

’’گاڑی اشارے پر کھڑی ہو تو ہر آتا جاتا گاڑی کے اندر تک کیوں جھانکتا ہے… جیسے جانچ رہا ہو کچھ، خوف آتا ہے…‘‘

’’ہر کام کے لیے سفارش اور رشوت کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟‘‘

’’ہر روز عام استعمال کی اشیا کے نرخ بڑھتے ہیں… کیا اس ملک میں کوئی پرائس کنٹرول کمیٹی نہیں… کوئی چیک نہیں، قیمتیں یوں کیوں آسمان سے باتیں کرتی ہیں؟‘‘

بد قسمتی سے وہ جس نظرئیے کے تحت بچیوں کو پاکستان لائے تھے وہ انھیں پورا ہوتا نظر نہیں آتا اسی لیے قدم قدم پر وہ بچیوں کے منہ سے ایسے سوالات کا سامنا کرتے ہیں کہ انھیں کوئی جواب نہیں سوجھتا۔ بچیوں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں تفریح کاپروگرام بنا تو وہ انھیں اسلام آباد لے کر آئے اور مجھے ان بچیوں سے نہ صرف تفصیل سے ملاقات کا موقع ملا بلکہ کچھ ایسے سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا جو اکثر مجھے آسیہ کی زبانی علم ہوتا رہتا ہے۔’’ہم لاہور سے اسلام آباد تک آئے ہیں مگر اسلام آباد کے علاوہ کہیں سیٹ بیلٹ باندھنے کی پابندی ہے نہ ہی سیٹ بیلٹ نہ باندھ کر گاڑی چلانے پر جرمانہ؟‘‘

’’سیٹ بیلٹ تو ہماری ہی حفاظت کے لیے ہوتی ہے بیٹا اس لیے اس کی پابندی کوئی بری بات تو نہیں…‘‘

’’وہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ کیا صرف اسلام آباد میں رہنے والوں یا یہاں گاڑی چلانے والوں کیزندگیاں قیمتی ہیں… باقی شہروں میں رہنے والے کیڑے مکوڑے ہیں کیا؟‘‘ میں اسے کیا جواب دیتی۔

’’آپ نے آج کا واقعہ سنا جو ہمارے ساتھ ہوا؟‘‘
’’نہیں بیٹا، خیریت؟‘‘

’’اصل میں لاہور سے ہم دسیوں شہر گزر کر راولپنڈی پہنچے… دن بھر گھومتے پھرتے رہے، جونہی آپ کے گھر آنے کا ارادہ کیا، فیض آباد چوک سے گھوم کر اسلام آباد ہائی وے پر چڑھے ہی تھے کہ ایک پولیس والے نے روک لیا… اس نے پاپا سے کہا کہ انھوں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھ رکھی تھی، پاپا نے کہا کہ میں سارے دن سے اسی طرح گاڑی چلا رہا ہوں، لاہور سے لے کر یہاں تک آیا ہوں اور میرے اردگرد سے درجنوں گاڑیاں ایسی گزر کر جا چکی ہیں جن کے ڈرائیوروں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی ہے…کہنے لگا، ان کی بات چھوڑیں، اپنی بات کریں، اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھائیں۔ پاپا نے اپنا لائسنس نکال کر اس کے حوالے کیا، ’’اب آپ کل یہ فلاں بینک میں چالان فیس جمع کروا کر فلاں تھانے سے اپنا لائسنس لے لیں…‘‘

’’مگر ہمیں تو کل واپس جانا ہے…‘‘ پاپا نے اس سے کہا اور میں بغیر لائسنس کے گاڑی کس طرح چلا کر جا سکتا ہوں۔ اس کے انداز میں ایسی بے نیازی تھی کہ ہم خود کو بے بس محسوس کرنے لگے۔ پاپا نے اس کی منت کی تو کہنے لگا کہ گاڑی سے باہر آئیں، پاپا گاڑی سے باہر نکل گئے اور گاڑی کے پاس ہی دونوں کے مابین گفتگو ہونے لگی۔

’’یار کیا چاہیے…‘‘ پاپا نے اس سے سوال کیا، ’’یہیں بات کر لو!‘‘ اس کے چہرے پر پہلے ناراضی نظر آئی مگر تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد اس کے چہرے کا تناؤ کم ہو گیا۔

میں اپنے فون سے کھیل رہی تھی، جب میں نے دیکھا کہ کوئی ڈیل ہو رہی ہے تو میں نے کیمرہ خواہ مخواہ آن کر لیا، اس نے اپنے منہ سے پانچ سو کا مطالبہ کیا، پاپا نے نوٹ اس کی طرف بڑھایا تو اس نے پاپا کا ہاتھ جھٹک دیا، (اس نے اپنے فون پر ویڈیو آن کر رکھی تھی جو اس قدر صاف نہ تھی مگر اس کے بتانے سے سمجھ آ رہی تھی)۔ پاپا نے حیرت سے اس سے پوچھا کہ وہ خود پانچ سو مانگ رہا تھا تو اب لے کیوں نہیں رہا تھا۔ اس نے کچھ کہا اور ایک ٹیکسی والے کی طرف اشارہ کیا، پاپا نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہ نوٹ اس ٹیکسی والے کے حوالے کر دیا اور پولیس والے نے پاپا کا لائسنس واپس کر دیا۔

پاپا واپس گاڑی میں آکر بیٹھے اور واردات کا احوال سنا ہی رہے تھے کہ اس ٹیکسی والے کے ہاتھ سے وہ نوٹ پولیس والے کے ہاتھ میں منتقل ہو گیا۔ یہ دیکھیں…‘‘ میں نے اس بھیانک منظر کو دیکھا اور دل کی گہرائیوں تک پانی پانی ہو گئی۔

’’کیا خیال ہے ڈالوں یہ فلم یو ٹیوب پر؟‘‘ اس نے ہنس کر سوال کیا۔

’’رہنے دو بیٹا…‘‘ میں نے التجا کی، ’’پہلے کون سا کوئی ہم کم تھپڑوں کی زد میں ہیں، کیا اچھا ہے ہمارے ملک کے بارے میں انٹر نیٹ پر، کون سی بدنامی ہے جو ہماری ’’نیک نامی‘‘ کا باعث نہیں ہے… ایک اور کیل ہمارے تابوت میں نہ ٹھوکو بیٹا…‘‘
’’حیرت ہے…‘‘ اس نے کندھے اچکا کر فون بند کیا، ’’آپ جیسے لوگ بھی اس طرح کی زیادتی ہوتے دیکھ کر خاموش رہتے ہیں… صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے، آپ لکھیں تو دیکھیں کیسے اس طرح کے بدعنوان لوگ اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے!‘‘

’’کاش ایسا ہی ہوتا پیاری!‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’ہم سب ایک یوٹوپیا میں رہتے ہیں، ہم سب نے اس ملک کی ایک بہت اچھی تصویر اپنے ذہن میں تراش رکھی ہے مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے، جتنا ہم اپنے ارد گرد اچھا دیکھنا چاہتے ہیں، بد قسمتی سے اتنا اچھا کچھ ہے نہیں… اور کچھ ہے بھی تو اسے افشاء نہیں کیا جاتا، اگر کچھ تشہیر ہوتی ہے تو ان خرابیوں کی جن کا ہم سب کسی نہ کسی طرح بلا واسطہ یا بالواسطہ حصہ ہوتے ہیں۔ ہر برائی کے ارتکاب میں کم از کم دو پارٹیاں ضرور ہوتی ہیں، جھوٹ ہو یا چوری… قتل ہو یا ڈاکہ، سفارش ہو یا رشوت… ایک فاعل اور ایک مفعول، سو جب کوئی ظلم ہونے دیتا ہے تو اس پر ظلم کیا جاتا ہے… ہر خرابی کو دورکرنے کی خواہش تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ہم خود کو درست کریں اور اس کے بعد توقع کریں کہ ہمارے ارد گرد سب درست ہو… اگر تم اس ملک کی نیک نامی کے لیے کچھ کر سکتی ہو تو ایک چھوٹا سا کام کرو… دل میں خواہش کتنی بھی مضبوط ہو مگر اس وڈیو کو یوٹیوب پر upload نہ کرو، اگر تمہارے پاس کچھ مثبت نہیں جو upload کر سکو تو کم از کم لوگوں کو اس بھیانک چہرے سے متعارف نہ کرواؤ!‘‘

اس نے میرے سامنے وہ ویڈیوdelete کر دی، thank you dear! میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، اس نے میرے ملک کے تاثر کو مسخ کرنے والی ایک ویڈیو اپنے فون سے ختم کر کے کم از کم اس ملک پر ایک چھوٹا سا احسان کیا ہے، مجھ پر اور آپ سب پر بھی!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔