برکت والی رات

موسیٰ رضا آفندی  ہفتہ 29 جون 2013
moosaafendi@gmail.com

[email protected]

پندرہ شعبان کی رات شب قدر کے بعد سال کے بارہ مہینوں میں راتوں میں سب سے زیادہ افضل اور برکت والی رات ہے کیونکہ اس رات میں حساب کتاب مرتب ہوتے ہیں۔ اس رات تقدیریں لکھی جاتی ہیں اور اعمال کے بارے میں فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ عمروں کا تعین ہوجاتا ہے اور غموں اور مسرتوں کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے۔ پڑھنے میں آیا ہے کہ حضور پاکؐ کی ایک حدیث مبارک ہے کہ تقدیر کے اس رات لکھے کو صرف دو چیزیں یعنی دعا اور صدقہ بدل سکتے ہیں۔ بس یہیں سے ہماری بات شروع ہوتی ہے۔

شعبان کی اس مبارک رات کو لوگ ہر طرح کی دعائیں مانگتے ہیں۔ زندگی میں مختلف قسم کی کامیابیوں کے حصول کے لیے۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ساتھیوں پر سبقت لیجانے کے لیے۔ حاسدوں کو اس طرح جلانے کے لیے جیسے خود حسد میں جلتے ہیں، جان لیوا وسوسوں سے بچنے کے لیے جن کے پیچھے صرف اور صرف اپنی بداعمالیوں کے نتائج کا خوف ہوتا ہے۔ ہم تو غالباً ان بدبختوں میں شامل ہیں جو اپنے لیے دعائیں کرنے کی بجائے دوسروں کے لیے بدعائیں کرنے میں زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے کی خوشی ہمارے لیے موت ہے اور دوسرے کی موت ہمارے لیے زندگی۔ اس کے باوجود اُس مخصوص دوسرے شخص کے ساتھ جس محبت اور گرم جوشی کے ساتھ ہم ملتے ہیں وہ ہمیشہ قابل دیدنی ہوتا ہے۔ منافقت ہماری شناخت بن چکی ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں تو یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ لوگ اسے کیسے دیکھیں گے اور کیا سمجھیں گے۔ اس عظیم رات کے میسر ہونے کے باوجود اگر ہم خدا کو راضی کرنے کی بجائے اپنی نفسانی خواہشات کو راضی کرنا چاہیں تو پھر بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے۔

میں ایک ایسے دفتر کو جانتا ہوں جس کے اندر یونین بھی کام کرتی ہے۔ میں نے اس دفتر کے اندر ایک ایسے معاہدے کو بھی دیکھا جس کے تحت انتظامیہ اور یونین کا اتفاق طے پایا ہے کہ شب برات کو عبادت الہی کے باعث اگلے دن دو گھنٹے کی چھٹی دینا ہوتی ہے۔ وہ چھٹی دی جاتی ہے کیونکہ وہ معاہدے کا حصہ ہے۔ ذرا سوچیں اس قدر کام چور بھی کوئی قوم ہوسکتی ہے جو عبادت کو بنیاد بنا کر چھٹیاں منائے۔

ویسے تو بڑے آرام سے کہہ دیا جائے گا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی سارے سرکاری ملازمین کو دوتین گھنٹے پہلے چھٹی دیدی جاتی ہے تو اس چھٹی میں کیا حرج ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا اور میں حیرت زدہ رہ گیا جب مجھے بتایا گیا کہ بعض بزرگان دین کے عرس کے موقعوں پر ملازمین کو کام کرنے کے لیے اوور ٹایم ملتا ہے اور یہ بھی ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر نہ ہنسا جاسکتا ہے اور نہ ہی رویا جاسکتا ہے۔ بس دعا کرنی چاہیے کہ خدا ان جیسا کسی کو نہ کرے تاکہ دین ودنیا دونوں کی رسوائی سے بچا جاسکے۔میں نے ایک ایسے ملک میں بھی ملازمت کی ہے جس کے لوگ کہتے تھے کہ ہم نو بجے سے پانچ بجے تک اپنے لیے کام کرتے ہیں کیونکہ اس کی ہمیں تنخواہ ملتی ہے اور پانچ بجے کے بعد کم از کم دو گھنٹے یعنی سات بجے تک ہم اپنے ملک کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ ہمارا ملک ترقی کرے۔ جب ہمارا ملک بہت زیادہ ترقی یافتہ ہوگا تو ہم بھی اور زیادہ خوشحال ہونگے۔ مجھے ان کی قوم کی خوش بختی اور اپنی قوم کی بد بختی پر یقین آگیا کیونکہ ایسی قوم دنیا بھر کے لوگوں میں جگ ہنسائی کا باعث نہیں بنے گی تو اور کیا بنے گی۔

یہ بات ہمیں اور زیادہ پریشان اور غم زدہ کردیتی ہے جب ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری قوم کا بانی ایک ایسا شخص تھا جس نے زندگی بھر سوائے کام کے کچھ نہیں کیا اور اس کا نعرہ بھی یہی تھا۔

’کام کام اور بس کام‘ کتنی عجیب بات ہے ایک شخص کے کام کام اور بس کام نے تو ایک نیا ملک کھڑا کرکے دیدیا۔ لیکن پھر اس ملک والوں نے ’’چھٹی چھٹی اور بس چھٹی‘‘ کا نعرہ لگا کر اسے تباہ و برباد کردیا۔ اس قدر تباہ و برباد کردیا کہ اب اس عظیم بانی کی آخری عمر میں زیر استعمال رہنے والی رہائش گاہ کو بھی زیارت میں آگ لگادی اور راکھ کا ڈھیر بنادیا۔ ان آرام طلبوں اور بے شرموں کو احساس نہیں ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں کو بھی اپنی اسی چُھٹی کی برکتوں کے باعث آگ میں جھونک رہے ہیں۔

اپنے بچوں کو بھی سُستی اور کاہلی سکھلا سکھلا کر کسی قابل نہیں چھوڑ رہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ اپنی آخری عمروں میں ایسے کاہل سست اور آرام طلب لوگ اپنی اولادوں کے ہاتھوں بھی اِسی طرح ذلیل وخوار ہونگے جس طرح وہ اس وقت اپنی اولادوں کو کر رہے ہیں کیونکہ مکافات عمل کا اصول تو بہرحال کارفرما رہتا ہے۔ کیونکہ یہ قدرت کا بنایا ہوا اصول ہے اور اس سے کسی کو مفر نہیں۔ ایسے بد بخت لوگ تو کام کاج کے دوران بھی چھٹیوں کے بارے میں ہی سوچ سوچ کر خوش رہتے ہیں جس کے باعث اب پورا ملک تاریکی میں بھی ہے اور غم زدہ بھی حکومت بھی اپنے کسی ترقیاتی منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ایسے کام چوروں کو ٹھکانے نہ لگا دے۔گذشتہ پیر اور منگل کی درمیانی شب شب برات تھی۔

خداوند تعالیٰ نے اپنے فیصلے صادر کردیے ہونگے۔ جن لوگوں نے اپنے لیے اور اس بدنصیب قوم کے لیے دعائیں مانگی ہیں خدا کرے کہ انھیں بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت حاصل ہوا ہو۔ میں نے بھی اس رات اپنی ساری بداعمالیوں کے باوجود صدق دل سے یہ دعا کی تھی کہ خدا ہمارے ملک کے اندر امن و سکون پیدا کرے، خدا ہمیں شرو فساد سے بچائے رکھے، خدا ہمیں نفرتوں کی بجائے محبتیں عطا کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا ہمیں اپنی رذلیل کرتوتوں اور اپنی کاہلی اور سُستی پر شرمندہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب یہ تو صرف اللہ کو معلوم ہے کہ میری دعا قبول ہوئی یا نہیں۔ بندے کے پاس تو حدیث پاکؐ کے مطابق صرف دعا ہے یا صدقہ جو تقدیر کے لکھے کو بدل سکتا ہے۔

خدا ہم سب کاحامی و ناصر ہو۔ امین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔