امریکا کا ڈکٹیٹر صدر اور سی این این

فرحین شیخ  اتوار 2 دسمبر 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

یہ نیوز کانفرنس پورے امریکا اور کیوبا میں براہِ راست دیکھی جارہی تھی۔ دونوں ممالک کے سربراہان صحافیوں کے سوالات کا جواب مسکراہٹ سے دے رہے تھے۔ مائیک سی این این کے رپورٹر کی گرفت میں آیا اور ایک انتہائی حساس معاملے پر چبھتا ہوا سوال ہال میں گونجا، جس پر گردنیں گھومیں اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ رپورٹر نے کیوبا کے صدر راوول کاسترو سے سوال کیا کہ ’’کیوبا میں سیاسی قیدیوں کی وجہ کیا ہے اور آپ ان کو رہا کیوں نہیں کرتے؟‘‘

یہ مارچ 2016کی ایک دوپہر تھی۔ امریکی صدر باراک اوباما کیوبا کے تاریخی دورے کے بعد ہوانا میں کاسترو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ سی این این کے رپورٹر جم اکوسٹا کے اس سوال پر ہال میںسناٹا چھا گیا کیوں کہ 1950کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کسی غیرملکی رپورٹر نے کیوبا کی لیڈر شپ کو براہ راست مخاطب کیا تھا۔ کاسترو لمحے بھر کوجم اکوسٹا کے سوال پر چونکے، پہلو بدلا اور جواب دیا،’’مجھے ان تمام سیاسی قیدیوں کے ناموں کی فہرست لا دیجیے میں انہیں فوراً رہا کر دوں گا۔‘‘ کیوبا کی حکومت آزادیٔ صحافت کے لیے ہمیشہ ہی سے آزار بنی رہی اور زباں بندی کے سارے گر آزماتی رہی ہے۔ اس کے باوجود کسی نے اکو سٹا کے تند سوال پر ان کے ہاتھ سے مائیک چھینا، نہ ان کو باہر کا راستہ دکھا یا اور نہ کاغذات ضبط کیے۔

دو سال بعد اپنی ہی سرزمین امریکا میں جہاں آزادی صحافت اور احترامِ آدمیت کا ڈھول بری طرح پیٹا جاتا ہے جم اکوسٹا ایک سوال پر وائٹ ہاؤس کی چار دیواری میں توہین آمیز سلوک کے حق دار قرار دے دیے گئے، ایسا سلوک ان کے ساتھ کسی غیرملک میں بھی نہ ہوا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ مڈ ٹرم انتخابات کے بعد ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ پریس کے نمائندوں میں سی این این کے رپورٹر جم اکوسٹا بھی شامل تھے۔ جم اکوسٹا وائٹ ہاؤس میں سی این این کے نمائندہ صحافی ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ امریکا کی سرحد پر موجود مہاجر قافلوں کو آپ ’’حملہ‘‘ کیوں قرار دیتے ہیں؟ ٹرمپ نے اس سوال پر انہیں جھاڑ دیا اور چلاتے ہوئے کہا ’’ملک مجھے چلانے دو، تم بس سی این این چلاؤ، اگر تم درست سمت میں سی این این چلاتے تو آج اس کی ریٹنگ بہتر ہوتی۔‘‘ ٹرمپ اتنا کہہ کر بھی چپ نہ ہوئے اور غصے میں آپے سے باہر ہوگئے، مزید دھتکارتے ہوئے کہا کہ ’’ تم ایک بدتمیز اور خطرناک آدمی ہو۔‘‘

جم اکوسٹا نے نہایت تحمل سے یہ ٹرمپی جھاڑ سنی اور نتائج کی پروا کیے بنا روس کی تحقیقات کے حوالے سے اگلا سوال داغ دیا۔ اب توٹرمپ پھٹ ہی پڑے اور کہا ’’بس حد ہوگئی، بہت ہو گیا ، مائیک رکھو۔‘‘

اس کے بعد کوسٹا سے مائیک چھین لیا گیا، پھر ان کا پریس کارڈ بھی ضبط کرلیا گیا جو بعد میں اگرچہ سی این این نے عدالت سے رجوع کر کے بحال کروالیا، لیکن یہ پورا واقعہ امریکا میں آزادی صحافت کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہوا اور اس سے امریکی جمہوریت کی چولیں ہِل کر رہ گئیں۔ جم اکوسٹا جو واشنگٹن میں پلے بڑھے، جیمز میڈسن یونی ورسٹی سے گریجویٹ کرنے کے بعد مختلف اداروں میں کام کرتے کرتے 2007 میں سی این این کا حصہ بن گئے۔ وہ گذشتہ تین سال سے پریس میں ایک ہائی پروفائل ممبر کے طور پر جانے جاتے ہیں، جن کا باقاعدگی سے وائٹ ہاؤس آنا جانا ہے۔ اس دوران وہ متعدد بار ٹرمپ کی سی این این سے نفرت کی بھینٹ چڑھے۔ جم اکوسٹا کا رپورٹنگ اسٹائل ABCکے رپورٹر ڈونلڈ سن سے مشابہہ ہے جو رونالڈ ریگن کے دور میں وائٹ ہاؤس میں اے بی سی کا نمائندہ رہا تھا۔ اس نے وائٹ ہاؤس سے وابستہ اپنے سولہ سالوں پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان Hold on , Mr . President تھا۔ اس میں اس نے بتایا کہ وہ امریکی صدر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتا تھا، کیوں کہ چبھتے ہوئے سوالات کی وجہ سے اسے سوال کرنے کا بہت کم موقع دیا جاتا تھا۔ وہ بہت فاصلے پر موجود امریکی صدر سے بھی چیخ چیخ کر سوال کرلیتا، جس کے لیے اسے کسی مائیک کی ضرورت نہ تھی۔

موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے تو عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی سے میڈیا سے بیر باندھ لیا تھا۔ پچھلے سال انہوں نے کہا کہ ’’ایک فیک نیوز ٹرافی کا آغاز ہونا چاہیے جو تمام کرپٹ ٹیلی وژن چینلز کو ملنی چاہیے جو امریکی عوام کے پسندیدہ صدر (ان کا اشارہ اپنی طرف تھا) کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔‘‘ اس بار انہوں نے خاص طور پر سی این این کا نام لیا۔ سی این این اور ٹرمپ کی جنگ اس وقت زیادہ بڑھی جب ٹرمپ نے نومبر2017 میں ایک ٹوئیٹ میں لکھا ’’سی این این جعلی خبروں کا بڑا مرکز ہے۔ یہ دنیا میں ہماری قوم کی بری طرح نمائندگی کرتے ہیں، باہر کی دنیا کو ان کی خبروں میں سچائی نہیں ملتی۔‘‘ اس کے جواب میں سی این این کی طرف سے ٹوئیٹ آیا کہ ’’امریکا کی دنیا میں نمائندگی کا کام سی این این کا نہیں، یہ آپ کا ہے۔ ہمارا کام صرف خبروں کی رپورٹنگ ہے۔”

اس جنگ کا آغاز تو ٹرمپ کی فتح کے انتخابی نتائج کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، جب سی این این کے صدر جیف زکر نے صدارت کی افتتاحی تقریب سے پہلے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’سی این این واحد چینل ہے جو بیجنگ، ماسکو، سیؤل، ٹوکیو، پیانگ یانگ، بغداد، تہران اور دمشق میں دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا ٹرمپ کا نقطۂ نظر دنیا تک پہنچانے کا ایک یہی واحد ذریعہ ہے۔ لہٰذا سی این این کے ساتھ حکومت کا متضاد رویہ ایک بڑی غلطی ہوگا۔‘‘

دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا یہ تھا کہ سی این این سے بہتر برتاؤ ٹرمپ کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ بیان دراصل سی این این اور ٹرمپ کی جنگ کی ابتدا تھا۔ ٹرمپ نے سی این این کو صرف متضاد رویوں کے ہی قابل گردانا اور ساتھ ساتھ شکوہ کناں بھی رہے کہ باہر کی دنیا میں ان کو صرف بدنام کیا جارہا ہے۔

جنوری 2017 میں ٹرمپ کی صدارتی افتتاحیہ تقریب سے ٹھیک ایک دن قبل جم اکوسٹا نے ٹرمپ اور روس کے تعلقات کے حوالے سے سوال کیا تو ٹرمپ نے انہیں بری طرح جھڑک دیا اور کہا ’’تم نہیں بلکہ تمہارا ادارہ خطرناک ہے۔‘‘ اس پر اکوسٹا نے کہا ’’آپ ہم پر مسلسل حملے کررہے ہیں، کیا سوال کا حق بھی دیا؟ ہمارے ادارے پر حملے کر رہے ہیں کیا ہمیں کوئی موقع بھی دیا گیا؟‘ اس پر ٹرمپ نے چلاتے ہوئے کہا ’’میں تمہیں سوال کا موقع نہیں دوں گا، تم لوگ جعلی خبریں پھیلاتے ہو۔‘‘

2017 میں ہی ورجینیا میں نیو نازی او ر سفید فاموں کی ایک ریلیUnite the Right نکالی گئی، جس میں مظاہرین کا نعرہ تھا ’’یہودی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔ اس ریلی کی مخالفت میں بھی ایک ریلی نکل رہی تھی، جس پر گاڑی چڑھ دوڑی اور کئی لوگ زخمی اور ایک عورت جاں بحق ہوگئی۔ ٹرمپ نے اس واقعے پر صحافیوں سے کہا ’’دونوں طرف کچھ برے لوگ بھی تھے لیکن یہ سچ ہے کہ دونوں طرف اچھے لوگ بھی موجود تھے۔‘‘ جم اکوسٹا نے جھٹ جواب دیا ’’سر! نازیوں میں قطعاً اچھے لوگ نہیں تھے۔‘‘ اس جواب پر ٹرمپ اکوسٹا کا منہہ تکتے رہ گئے۔ رواں سال جون میں نارتھ کوریا کے لیڈر کم جونگ اور ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے ٹرمپ پریس کے سوالات کا جواب دے رہے تھے کہ اکوسٹا نے اپنے فطری اسٹائل میں ہی کچھ حساس سوالات کرڈالے۔ یہ سوالات ٹرمپ انتظامیہ کو بہت ناگوار گزرے اور 2020کی انتخابی مہم میں صدر ٹرمپ کے معین کردہ کیمپین مینیجر بریڈ پارسکل نے کہا ’’اس رپورٹر کے پریس کاغذات فوری طور پر ضبط کر لینے چاہییں۔‘‘ اس دھمکی کا جواب جم اکوسٹا نے ٹوئیٹر کے ذریعے دیتے ہوئے کہا ’’ڈیئر بریڈ! پریس کارڈ ڈکٹیٹر شپ ضبط کرتی ہے، جمہوریت نہیں۔”اور آج چار ماہ بعد امریکا میں ایک سوال کی پاداش میں جم اکوسٹا کے پریس کارڈ کی منسوخی کا معاملہ سوال کر رہا ہے کہ کیا امریکا میں واقعی ڈکٹیٹر شپ آچکی ہے؟

انسٹاگرام کی دنیا میں متحرک سیاسی کھلاڑی

کہتے ہیں ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انسٹاگرام کو ابلاغ کے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں اب سیاست دان بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے کم و بیش ایک سو چالیس سیاست دان اپنے اپنے انسٹاگرام اکائونٹ پر متحرک ہیں۔ صرف سیاست داں ہی نہیں، بے شمار خِطّوں میں حکومتی سطح پر بھی انسٹا کا استعمال بہ خوبی کیا جارہا ہے۔ انسٹا پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر اور ویڈیو کے ذریعے عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کا کام زورشور سے جاری ہے۔ گذشتہ پانچ سال میں یورپ ، مشرقِ وسطی ، لاطینی امریکا اور کئی ایشیائی ممالک میں انسٹا کا سیاسی مصرف پہلے سے کہیں زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔

انسٹا گرام پر سیاسی کھلاڑیوں کی مضبوط گرفت کی وجہ اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے صارفین ہیں، جن کی تعداد چھے سو ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کی تصویری اہمیت اور مقبولیت کے سبب سیاست داں انسٹا کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس حقیقت سے کس کو مفر ہے کہ سیاست دانوں کا اپنے حامیوں اور مداحوں سے براہ راست رابطہ نئے دور کی اہم ضرورت بن چکا ہے، اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہ شاطر کھلاڑی اپنا قیمتی وقت خوشی خوشی انسٹا کے حوالے کر رہے ہیں۔ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے فالوورز اگرچہ دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں کم ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس وقت انسٹا کی دل چسپ ترین اور مشہور شخصیات میں شامل کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے انسٹا پر ایک نیا ٹرینڈ جاری کیا۔ ایسے وقت میں جب دیگر سیاست داں اپنے نظریے اور سیاسی مصروفیات کو انسٹا پر ڈسکس کر رہے تھے، نجیب اپنی انتہائی نجی زندگی کو اس پلیٹ فارم پر لے آئے۔ وہ نصف ملین سے کچھ زائد فالوورز کو اپنی زندگی کے ان گوشوں میں لے گئے ہیں جو روایتی میڈیا پر کسی خبر کا حصہ نہیں بنتے۔ ن

جیب کے اس ٹرینڈ کی مقبولیت کے بعد ملائیشیا کے دیگر سیاست داں جیسے صدیقی، نورالاضحیٰ، ہنایوہ اور خیری جمال الدین نے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انسٹا پر ذاتی پوسٹ آویزاں کرنی شروع کردیں، لیکن جو شہرت نجیب کے حصے میں ہے وہ اب تک کسی اور کے پاس نہیں۔نجیب کے انسٹا پروفائل سے لوگوں کی دل چسپی کی ایک بڑی وجہ ان کے سیاسی کیریئر میں اب تک آنے والا اتار چڑھائو بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی حکومتی منصب پر براجمان نہ ہوکر بھی نظرانداز نہیں کیے جارہے۔ انسٹا پر ملائیشیا کی سیاست کا ہر مسئلہ گھوم پھر کر نجیب کی محفل میں آجاتا ہے، جہاں وہ اپنے فالوورز کے ساتھ اس پر تفصیلی بحث کرتے ہیں اور ہر ایک کی بات کا جواب دیتے ہیں۔

انہوں نے انسٹا پر تصاویر اور اسنیپ شاٹس کے ذریعے مباحثے کا ایک دَر وا کردیا ہے، جہاں شرکت کا اذنِ عام ہے۔ نجیب کے انسٹا اکائونٹ کے ابتدائی دنوں میں پوسٹ ہونے والی تصاویر زیادہ تر سیاسی معاملات کے متعلق تھیں، کیوں کہ ان دنوں وہ وزارتِ عظمی کی ذمہ داریوں تلے دبے ہوئے تھے، لیکن بتدریج انہوں نے اس میں تبدیلی لاتے ہوئے نجی باتیں بھی شیئر کرنا شروع کردیں۔ سیاسی زندگی کے اختتام کے بعد تو انہوں نے اپنے فالوورز کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی کا تصویری البم جاری کرنا شروع کردیا۔ ان کا یہ حربہ کام یاب رہا اور آج مہاتیر سے زیادہ بحث نجیب کی انسٹائی پوسٹوں پر ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ اپنی دوسری بیوی روزماہ (جن کو ایشیا کی دوسری خوب صورت ترین خاتونِ اول کا خطاب بھی دیا گیا تھا) کے حالیہ رشوت اسکینڈل کے دوران بھی وہ انسٹا سے فرار نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کے سامنے کھڑے رہے۔

مئی 2018کے عام انتخابات جیسے نازک دور سے گزرتے ہوئے بھی انہوں نے انسٹا پر اپنا یہی ٹرینڈ جاری رکھا اور اپنی منفرد شخصیت اور نجی زندگی کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ اسی دوران نجیب کے انسٹا پر ان کے ساتھ ساتھ ان کی پالتو بلی ’’ککی‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ نجیب کی ککی سے انتہائی محبت ان کی انسٹا کی پوسٹوں سے جھلکتی رہی۔ لوگوں نے نجیب کی اپنی پالتو بلی سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا کہ ان کے انسٹا اکائونٹ پر اتنی تصاویر تو بیگم روزماہ کی بھی نہیں جتنی ککی کی ہیں۔ نجیب انسٹا پر باقاعدگی سے ککی کے سارے انداز اور شوخیوں اور اس کی اچھل کود کی ویڈیوز ور تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپ کو یقیناً حیرت ہوگی کہ پچھلے سال تک ککی کا ایک الگ انسٹا گرام اکائونٹ بھی موجود تھا، جو اب بند کردیا گیا ہے۔

ہر سیاست داں کی طرح نجیب کے بھی اگر مداحوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے تو ان کے مخالفین اور ناقدین بھی کم نہیں، جو ان کی انسٹائی پوسٹوں پر اشتعال اور نفرت آمیز رویے کے ساتھ دھاوا بول دیتے ہیں۔ انہوں نے ککی کے الگ انسٹاگرام اکائونٹ پر بھی اس قدر نازیبا باتیں کیں کہ بالآخر اس کا اکائونٹ بند کرنا پڑا۔ نجیب اپنی پوسٹوں پر مخالفین کی اشتعال انگیز باتوں پر بھی تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اور نہ ہی دل برداشتہ ہوکر سوشل میڈیا کا میدان چھوڑتے ہیں۔ یوں انسٹا پر صرف ان کے مداح اور حامی ہی نہیں بلکہ ان کے مخالفین بھی منتظر ہوتے ہیں کہ کب نجیب کی کوئی پوسٹ آئے اور اس پر انہیں بحث یا تنقید کا موقع ملے ۔ غرض نجیب نے انسٹا پر اپنی ایک الگ دنیا بسالی ہے، جس میں وہ بہت مطمئن اور خوش ہیں۔ کبھی اپنے بیٹے کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے، کبھی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے، تو کبھی اپنی ماں کی دعائیں لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس دن پولیس نے ان کے گھر چھاپا مار ا اس دن بھی انہوں نے اپنی ماں کے ہاتھ چومتی ہوئی تصویر لگا کر کیپشن لکھا کہ ”مجھے مشکلات میں اپنی ماں سے حوصلہ ملتا ہے۔”

یہ سچ ہے کہ انسٹاگرام کا بہترین اور موثر استعمال کرکے جو سیاست داں رائے عامہ پر اثرانداز ہورہے ہیں ، ان میں نجیب رزاق سرفہرست ہیں۔ نجیب کے ساتھ انسٹا کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والے سیاست دانوں میں نریندر مودی، ڈونلڈ ٹرمپ ، باراک اوباما، بشارالاسد سمیت دیگر بے شمار نام موجود ہیں۔ نجیب کی طرح بشارالاسد نے بھی ایک اسکول میں بچوں کے ساتھ سیلفی لی اور پھر اسے انسٹا پر شیئر کیا۔ اسی طرح چیچنیا کے صدر رمضان کیدرو معائنے کے لیے جب دندان ساز کے پاس گئے تو انہوں نے اس نجی دورے کی تصاویر انسٹا پر اپ لوڈ کر دیں، جنہیں لوگوں نے کافی دل چسپی سے دیکھا۔ ٹرمپ کے اکائونٹ پر ایک ویڈیو بہت مشہور ہوئی جس میں ان کی بیٹی ایوانکا اپنے بیٹے تھیوڈور کے ساتھ وائٹ ہائوس میں کھیل رہی تھی، یہ ویڈیو تقریباً دو ملین انسٹا صارفین نے دیکھی۔ اسی طرح فرانس کے صدر ایمیل میکرون کا کتا ’’نیمو‘‘ بھی ککی کی طرح انسٹا پر ایک سیلیبریٹی بن چکا ہے۔

سماجی میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست دانوں نے اپنے اپنے تیر درست نشانے پر مارے ہیں۔ انسٹا جیسا ایک انتہائی ذاتی پلیٹ فارم جہاں صرف تصویریں بولتی ہیں، وہاں سیاست داں بنا تقریر جھاڑے اور گلا سکھائے لوگوں میں زندہ رہنے کا گُر سیکھ گئے ہیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ دنیا بھر کے ان معصوم لوگوں کو بھی ہوا ہے جو سیاست دانوں کی تقاریر اور رٹی رٹائی باتوں سے اب بے زار ہو چکے تھے۔ وقت تیزی سے رنگ بدل رہا ہے۔ اب عوام کے خون پسینے کی کمائی سیاسی جلسوں میں ضایع کیے بغیر عوام کے دلوں میں اترا جا سکتا ہے، جس کے لیے بس ایک ٹوئٹر، فیس بک یا انسٹا اکائونٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح صرف سیاسی نظریات ہی نہیں بلکہ قوم اپنے راہ نماؤں کا لائف اسٹائل بھی دیکھ لیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔