خدا سے ڈرو

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 1 دسمبر 2018
barq@email.com

[email protected]

بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے جب کسی عمارت میں ایک دو دراڑیں پڑجائیں چھت ٹپکنے اور فرش ٹوٹنے لگے، پلسترکی سفیدی اکھڑنے لگے تو اس کی ’’مرمت ‘‘ تو ہوسکتی ہے لیکن جب عمارت کی چاروں دیواریں بھی بیٹھی ہوئی ہوں، ستونوں میں ’’ دیمک ‘‘ لگا ہو،شہتیریں بھی ٹوٹ گئی ہوں ۔ فرش دھنس گیا ہو، چھت جھولنے لگی ہو، تو پھر مرمت سے کام نہیں چلتا اسے گرانا اور نئے سرے سے تعمیر کرنے کا ایک ہی راستہ بچ جاتاہے۔ جب تم نے کہا کہ میں نیا مکان بناؤں گا تو ہم سمجھے کہ اس پرانے سانپوں بچھوؤں کے ٹھکانے اور دم بھر میں گرنے والے مکان کے ساتھ بھی یہی ہوگا لیکن تم تو اس کی لیپا پوتھی کرنے لگے وہ بھی یہاں وہاں مانگے کی مٹی لے لے کر ۔

بھائی ہمارے لیے اگر اورکچھ نہیں کر سکتے تو یہ چھت پرنیا اژدہام لا لا کر بٹھا رہے ہو ، یہ تو نہ کرو،

یہ بات شاید آپ کو عجیب لگے کیونکہ جس ملک معاشرے اور نظام میں ٹوٹنے ، کو قربانی دینا ہوتا ہے پرائے بیٹے کو حلال کرنے کا نام قربانی ہو ۔ اپنا فرض صرف ’’ کہنا ‘‘ اور دوسروں کو ’’ کرنے ‘‘ کا رجحان ہو ۔ وہاں کسی ’’ سنوار ‘‘ کی امید رکھنا چھلنی میں پانی لانا ہوتا ہے جب آپ کی جھولی میں سو چھید ہوں تو سخی داتا لوگ جتنا بھی دیں گے وہ ضائع ہی ہوگا اور منزل تک پہنچتے پہنچتے چھلنی اور سو چھید والی جھولی میں اور کیا بچے گا، پانی دینے والے کے قرضے کے سوا پہلے اپنی جھولی اورچھلنی کو تو دیکھو ، خواہ مخواہ اپنی ’’ جان ‘‘ کیوں تھکا رہے ہو اور عوام کو دور دور سے للچا رہے ہو، جلاہے کی ان دیکھی ’’ پگڑی ‘‘ کب تک چلے گی ۔

وہ ایک جلاہے کو بادشاہ نے کہا کہ تم مجھے ایک ایسی پگڑی لا کر دو جو دنیا میں بے مثال ہو ورنہ مارے جاؤگے۔ مقررہ دن پر جلاہا خالی ہاتھوں میں جیسے کچھ ان دیکھی چیز لٹکائے ہوئے آگیا اور بادشاہ سے بولا کہ پگڑی تو بن گئی ہے اور بہت ہی بے مثل ہے لیکن اس میں صرف یہ نقص ہے کہ صرف ’’ حلالی ‘ لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں اورجن کی ولدیت میں ’’فی‘‘ہو اسے نظر نہیں آئے گی ۔ سب سے پہلے تو بادشاہ نے اپنی ولدیت کوبچاتے ہوئے کہا کہ بڑی خوبصورت پگڑی ہے واہ مزا آگیا ، بے مثال فنٹاسٹک ۔ اب دربار میں کسی کو بھی اپنی ولدیت مشکوک بنانا منظور نہیں تھا۔

اس لیے بڑھ بڑھ کر پگڑی کی تعریف کرنے لگے ،شاعروں ،صورت گروں اورافسانہ نویسوں نے تو اس میں ایک ہزار ایک سو ایک خوبیاں بھی ڈھونڈلیں ۔ تجزیہ کاروں اوردانا دانشوروں نے اسے ماضی، حال اورمستقبل کے لیے سنگ میل اوردنیا کے ساتھ ساتھ ستاروں سیاروں کے لیے بھی بابرکت ’’ ثابت ‘‘ کیا ،تبدیلی کی یہ دستار مبارک بھی غالباً اسی کپڑے کی بنی ہوئی ہے ۔ کہ خدا خدا کرکے گڑ گڑا کر حاصل کرنے والے قرضے کو بھی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے ۔ حالانکہ ہمارے خیال میں یہ نئی نعمت غیر مترقبہ پہنچنے سے پہلے ہی بانٹا بھی جا چکا ہے ۔

جب کسی گھر پر غربت کا سایہ پڑ جاتا ہے تو نادان سے نادان گھرانا بھی اپنے فضول کے الّلے تلّلے اوراخراجات کم کر دیتا ہے، سمجھدار لوگ تو کھانے پینے اور اوڑھنے بچھونے میں بھی بچت کے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں، یہاں تک شادی کی عمریں ہو جانے والوں کی شادی بیاہ بھی ملتوی کر دیتے ہیں ۔ ہمارے ایک بزرگ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر تم آج کچھ ’’ کما ‘‘نہیں پا رہے ہو تو ’’خرچے ‘‘ میں بچت کرو اس طرح جو پیسہ بچے گا وہ یوں سمجھوکہ آج تم نے کما لیا ہے ۔

یہ جو اس ملک سے جونکوں کی طرح لپٹے ہوئے ہیں اتنی اتنی تنخواہیں مہینے بھر کی لیتے ہیں کہ عام آدمی کے پورے سال بلکہ زندگی بھر کے اخراجات سے بھی زیادہ ہیں ۔ اگر یہ ایک دو سال کے لیے انھیں ’’ آدھا ‘‘ کر دیں تو کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا ۔ یہ جو ہم یہاں وہاں خوبصورت بیانات ، گفتاری، سبز باغات دکھانے والے دیکھ رہے ہیں جو سراسر جھوٹ بول بول کر ڈھول بجاتے ہیں یہ ’’ مر ‘‘نہیں جائیں گے۔ اگر دوسال کے لیے بلا تنخواہ کام کریں، کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی بے زبان عوام سے چھینا ہوا ان کا اپنا جھپٹا ہوا اور اس نظام کا دیا ہوا اتنا موجود ہوتا ہے کہ سات پشتوں تک کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ اگر اونٹ پیاسا بھی مر رہا ہو تو اس کے پیٹ میں گھنٹوں گھنٹوں تک پانی ہوتا ہے ۔

بظاہر یہ عجیب سا لگتا ہے کہ تمام اوپر والے خدمت اور قربانی کے علمبردار یہ قربانی دیں اور عجیب ہے بھی کیونکہ جب ملک غریب ہو تو ’’ عجب ‘‘ توکرنا ہی پڑتا ہے اور تم تو ’’عجب ‘‘ ہی کرنے آئے تھے غریب تو ہم پہلے ہی سے تھے۔

لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ الٹا اور ادھر ادھر پھینکا جا رہا، احمقانہ بیانات احمقانہ منصوبے اور احمقانہ اعلانات جو اس نظام میں ممکن ہی نہیں ۔ وہ کنویں میںگرنے کا قصہ تو ہم آپ کو کئی بار سنا چکے ہیں جب ’’ کتا‘‘ کنوئیں کی تہہ میں پڑا ہوا ہو تو ہزاروں ڈول پانی نکالنے پر بھی وہ صاف نہیں ہوتا ہے اوریہاں توکنوئیں پر ڈول بھی نہیں، بوند بوند پانی نکالنے کا تماشہ دکھایا جا رہا ہے، بھینس فروخت ہوگئی، گاڑیاں قبول ہے قبول ہے کی بنیاد پر حق داروں تک پہنچ گئی ہیں، وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی یا بیروزگاروں کا کارخانہ لگایا جائے گا۔

گورنر ہاؤس عوام کے لیے کھول دیاگیا تاکہ وہ آکر اس کی من وسلویٰ بنی ہوئی دیواریں جی بھر کر چاٹیں، سرکاری اجلاسوں میں چائے اوربسکٹ کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوگا لیکن پارلیمنٹ ہاؤسز کے حجروں میں کیا کیا کچھ کھایا پیا جاتا ہے، وزیروں کے دفاتر اورمہمان خانوں میں کیا کیا کچھ ہوتا ہے یہاں تک کہ ہم نے اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے وہ بھنے ہوئے مرغے دیکھے ہیں جو یونین کونسلوں کے اجلاسوں تک میں اڑائے جاتے ہیں۔

خدا سے ڈرو، آخرت کا خوف کرو، اس علیم و بصیر کے دیکھنے سے کچھ شرم کرو، کب تک یہ جھوٹ اورمنافقت کا منافقانہ ڈرامہ چلتا رہے گا۔ سنو ۔ تم سب کو ’’ تولا ‘‘ گیا ہے ۔

اورخیال رکھو کہ تم سب وزن میں کم نکلے ہو لیکن نتیجہ سنانا ابھی باقی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔