اصلی ہیرو کون؟

اکرام سہگل  ہفتہ 1 دسمبر 2018

پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شرپسندی میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیاں کرکے بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اور پاکستان میں متحرک کئی بڑے دہشت گرد گروہوں کا صفایا کردیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی سلامتی پر حملہ آور اس عفریت کو مکمل طور پر نابود کرنا ممکن نہیں، خصوصاً دہشت گرد یا مسلح گروہ شہری یا بعض قبائلی علاقوں میں پناہ حاصل کرچکے ہوں۔

دنیا میں کئی بڑے شہری مراکز اور رہائشی علاقے محاذ جنگ بن چکے ہیں، بدامنی کی آگ عوام کی معمول کی زندگی اور گھروں تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں حالات سنگین تو نہیں لیکن مسلح گروہ اب بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے کئی دشمن ، جو مقامی سطح پر انتشار پسند عناصر کے ساتھ مل کر، استحکام کے لیے ہر کوشش کو ناکام بنانے اور فتنے پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔

جمعہ 23نومبر کو صبح تقریباً نو بج کر دس منٹ پر کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا۔ بھاری اسلحے سے لیس دہشت گردوں نے قونصلیٹ سے کچھ فاصلے پر چوری کی گئی ٹویٹا لیانا (پلیٹ نمبر AKS-973)پارک کرنے کے بعد عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ پہلے انھوں نے قونصل خانے  کے مرکزی دروازے کی چوکی پر دو دستی بم پھینکے ، جس کے نتیجے میں وہاں تعینات دو پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔ ویزے کے لیے آنے والے کوئٹہ کے شہری نیاز محمد اور ظاہر شاہ بھی اس حملے میں شہید ہوئے جب کہ ایک سیکیورٹی اہل کار بھی گولیوں کی زد میں آکر زخمی ہوگیا۔

ویزا سیکشن میں ایس ایم ایس کمپنی کے تعینات دو گارڈ شوکت، کامران اور تلاشی پر مامور روبی رزاق نے اس حملے کے خلاف منظم رد عمل میں بنیادی کردار ادا کیا، بصورت دیگر یہ حملہ ایک بہت بڑی تباہی ثابت ہوسکتا تھا۔ چینی عملے کے دو ارکان، ویزا کے دس درخواست دہندگان اور دو دیگر افراد اس وقت ویزا سیکشن میں موجود تھے۔

گولیاں چلنے اور دستی بم پھٹنے کی آواز سنتے ہیں ہر طرف بے چینی پھیل گئی۔ ایس ایم ایس کے اہلکاروں نے مستعدی دکھاتے ہوئے پہلے 15ہیلپ لائن پر پولیس کو حملے کی خبر دی۔ حملہ آوروں کو تیزی سے عمارت کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر انھوں نے تیزی سے تمام شہریوں کو گولیوں سے محفوظ کرنے کے لیے غسل خانے میں جمع کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے ویزا سیکشن کا دروازہ بند کرکے اس کے سامنے کرسیاں، میز اور جو سامان ہاتھ آیا رکھ دیا۔ جب تک فائرنگ اور دھماکوں کی آواز آتی رہی، ان گارڈز اور خاتون اہلکار نے شہریوں کو پُرسکون اور مرتب رکھنے کی کوشش کی۔

اسی دوران میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کے بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ بعدازاں پولیس نے حملہ آوروں کی گاڑی سے دو خود کُش جیکیٹس، اضافی میگزین اور اسلحہ بارود، سی 4دھماکا خیز مواد دو پیکٹ، متعدد اقسام کے دستی بم اور دو ایس ایم جی گنز تحویل میں لے لیے۔

سندھ رینجرز کے ترجمان نے درست کہا کہ پولیس، رینجرز اور ایف سی اہل کاروں کی بروقت کارروائی کے باعث حملہ ناکام اور تمام سفارتی عملہ محفوظ رہا۔ اس فوری کارروائی نے ایک ہیبت ناک المیے کو ٹال دیا، خدانخواستہ یہ حملہ کامیاب ہوجاتا تو پاکستان کے لیے اس کے برآمد ہونے والے نتائج کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ سیکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس حوالے سے انتہائی بنیادی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ریڈ زون کے ہائی سیکیورٹی علاقے میں دھماکا خیز مواد اور اسلحہ بارود سے بھری ہوئی گاڑی اپنے ہدف تک پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوئی۔ ایک مؤقر انگریزی اخبار کے مطابق ’’حملے کے وقت سندھ پولیس، رینجرز اور ایف سے کے 35اہل کار قونصل خانے کی حفاظت کے لیے تعینات تھے۔‘‘

اس دن حالات کو قابو کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جس چابک دستی کا مظاہرہ کیا اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، اس کے ساتھ ہمیں چاہیے کہ اس مشکل مرحلے میں دلیری کا مظاہری کرنے والوں کی سندھ حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا میڈیا کی جانب سے پذیرائی ہونی چاہیے۔ ان دو سیکیورٹی گارڈ اور خاتون اہل کار نے اپنی ذمے داریوں سے بڑھ کر فرض شناسی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی حاضر دماغی اور بروقت فیصلہ سازی نے ویزا سیکشن کے داخلی راستے کے قریب ہونے والی فائرنگ اور دھماکوں سے شہریوں کا ممکنہ جانی نقصان نہیں ہونے دیا۔

داخلی دروازے کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنا انتہائی کارآمد تدبیر تھی، اس صورت میں اگر حملہ آور داخلی دروازہ توڑنے میں کامیاب ہو بھی جاتے تو فرنیچر اور سامان کا ڈھیر ان کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے اور اس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی قیمتی چند سیکنڈ کی مہلت مل جاتی۔ اگر شہریوں کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑے تو فوراً  بے چینی اور خوف پھیل جاتا ہے۔

ایک چھوٹے سے غسل خانے میں جمع ہونے والے 15افراد اگر اپنے حواس کھو بیٹھتے تو ان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ یہ تین سیکیورٹی اہل کار بدحواس نہیں ہوئے اور شہریوں کو سمجھاتے بجھاتے رہے اور پرُ سکون رکھنے کے لیے ان سے جو ہوسکا کیا۔ کیا کوئی  تصور بھی کرسکتا ہے کہ وحشت زدہ ایک فرد بھی اپنی جان بچانے کے لیے اس کمرے سے بھاگ نکلتا تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا؟ بے شک اﷲ تعالی کا کرم بھی شامل حال رہا۔

اگر کسی کو  ان واقعات کی اہمیت سمجھنے میں دشواری ہو تو ریٹائرڈ فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل چوہدری محمد صباح الدین(68 پی ایم اے، آرٹلری اور ایوی ایشن) کی فراہم کردہ تفصیلات دیکھنا چاہیے۔ وہ اس واقعے کے عینی شاہدین میں سے ہیں اور قریب ہی ڈالمین مال میں اپنے دفتر سے ساری صورت حال دیکھ رہے تھے۔ ان کا بیان یہاں نقل کرنا چاہوں گا: ’’ میں اپنے دفتر میں موجود تھا جب مجھے دھماکا سنائی دیا لیکن اس وقت کچھ سمجھ نہیں سکا۔ میں نے پہلے برٹش قونصلیٹ کے سیکیورٹی ہیڈ کو فون کیا کیوں کہ مجھے محسوس ہوا تھا کہ دھماکے کی آواز اُسی جانب سے آئی ہے۔

تاہم کسی بات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ اسی دوران مجھے فائرنگ کی آواز آنے لگی اور ساتھ ہی دو سے تین دھماکے سنائی دیے، پھر مجھے چینی قونصل خانے کے قریب دھواں اٹھتا دکھائی دیا، میں نے اس کی تصویریں کھینچ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک دوست کو واٹس ایپ کرنا شروع کردیں اور انھیں چینی قونصلیٹ پر ممکنہ حملے کی اطلاع دی۔ میری رائے میں قونصل خانے پر تعینات پولیس اور رینجرز اہل کاروں نے ایس ایس یو، رینجرز، پولیس اور ایف سی کی کمک ملنے سے قبل ہی دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔

میرے خیال میں خاتون اے ایس پی کے جائے واردات پر پہنچنے سے پہلے ہی وہاں تعینات رینجرز یا ایف سی اہل کار دہشت گردوں کا خاتمہ کرچکے تھے۔لیڈی اے ایس پی کو بس یہ برتری حاصل تھی کہ وہ قریب واقع کلفٹن پولیس اسٹیشن میں اپنے دفتر سے سب سے پہلے وہاں پہنچ گئیں۔ جب حملہ آور مارے جاچکے تھے وہ قونصل خانے کی عمارت میں داخل ہوئیں اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ چند انتہائی اہم سوالوں کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

(1) سب سے پہلے کس نے حملہ آوروں کی فائرنگ کا جواب دیا؟ وہ ایف سی کا جوان تھا۔ (2) پولیس کی مدد جائے وقوعہ تک کب پہنچی؟ تقریباً تیس منٹ میں۔ (3) یہ کیسے ممکن کہ پولیس کے ایس ایس یو کمانڈوز کے حسن اسکوائر سے جائے وقوعہ تک پہنچنے تک مقابلہ جاری رہا؟ (4) کیا پہلے پہنچنے والی اے ایس پی کی ٹیم نے ایک گولی بھی چلائی؟ نہیں۔ (5) جوابی کارروائی کرنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو پذیرائی نہیں ملی؟ (6) اے ایس پی کی تصویروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ بندوق ہاتھ میں لیے چلی جارہی ہیں۔ کسی دوسرے اہل کار نے نشانہ باندھنے کے لیے پوزیشن کیوں نہیں لے رکھی تھی؟

یہاں تک کہ خاتون افسر کے اپنے محافظوں نے بھی فائر کرنے کے لیے پوزیشن نہیں لی۔ (7)خاتون افسر نے حالات کا جائزہ لے کر ، ایمبیولینس بلانے، کمک فراہم کرنے اور تفصیلات سے آگاہ کرنے کی حد تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکالا جاسکتا ہے کہ میڈیا کوریج ، مثبت تاثر اور اپنا مستقبل روشن کرنے کے لیے بعد میں فوٹو سیشن کروایا گیا۔‘‘

اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) سندھ پولیس کا ایلیٹ یونٹ ہے، خصوصی حالات سے نمٹنا اس کی بنیادی ذمے داری ہے۔ تشویش اس بات پر ہے کہ ایس ایس یو کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگی، یہ قابل قبول نہیں۔ تاہم اس میں یقینی طور پر ان کا قصور اس لیے بھی نہیں کی انھیں حسن اسکوائر میں اپنے یونٹ سے آدھے شہر کا فاصلہ طے کر کے وہاں پہنچنا تھا اور اس وقت سڑکوں پر ٹریفک بھی زیادہ ہوگی۔

کراچی میں سیکیورٹی کے حوالے سے حساس عمارتیں اور افراد، بالخصوص سفارتی عمارتیں، ساؤتھ زون کے ریڈ زون میں ہیں۔ اس علاقے میں ایس ایس یو کا ایک سب یونٹ ہونا چاہیے، کیا آئی جی پولیس اس سقم کو فوری طور پر دور نہیں کرسکتے؟ اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنا چاہیے کہ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خود ستائی سے گریز کرنا چاہیے، من پسندوں کی ذاتی شہرت کے لیے حقائق مسخ نہیں کرنے چاہییں کیوں کہ یہ سیکیورٹی امور پر سمجھوتا کرنے کے مترادف ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔