کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 2 دسمبر 2018
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


زمانہ نوچ نہ لے، بے شمار آنکھیں کھول
تُو صرف دو نہیں اپنی ہزار آنکھیں کھول
عجیب شخص ہے، میں سانس بھی نہیں لیتا
وہ چیخ چیخ کے کہتا ہے یار آنکھیں کھول
یہ میرے رونے کو بدعت کا نام دے رہا ہے
تو میرے عہد کی، پروردگار، آنکھیں کھول
ہماری آنکھ نہ لگ جائے اس خرابے میں
سو اے جنونِ رہِ ریگ زار، آنکھیں کھول
شرابِ عشق سے آرام کون پاتا ہے؟
چڑھا ہوا ہے اگر کچھ خُمار، آنکھیں کھول
یہاں ازل سے اندھیرا ہی مقتدر رہا ہے
سو روشنی کا نہ کر انتظار آنکھیں کھول
جو تیرے نام پہ ہنستا تھا کل تلک ساحرؔ
وہ گریہ زار ہے زار و قطار، آنکھیں کھول
(سبطین ساحر، ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل


اشک بن کر مری آنکھوں میں یہ آیا ہوا شخص
اس کو دیتا ہے دعائیں، یہ ستایا ہوا شخص
میں نے ماضی کے دریچوں کو مقفل تو کیا
یاد آتا ہے وہ شدت سے بھلایا ہوا شخص
جانے کیسے نظر آجاتا ہے اس دنیا کو
ایک مدت سے مرا دل میں چھپایا ہوا شخص
اشک تھے اس کی ہتھیلی پہ وہی رکھ دیے ہیں
خالی لوٹا نہیں دہلیز پہ آیا ہوا شخص
کتنے چہرے ہیں پسِ چہرہ یہاں لوگوں کے
کس طرح ڈھونڈ کے لاؤں وہ گنوایا ہوا شخص
ٹوٹتے ٹوٹتے اس خواب کی بس راکھ بچی
دیکھتے دیکھتے اک روز پرایا ہوا شخص
چھین کر لے گئے مجھ سے مری پونجی دنیا
کھو دیا میں نے محبت میں کمایا ہوا شخص
(فوزیہ شیخ، فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


وہ اس لیے بھی مری گھات کر نہیں سکتا
کہ دن ہٹا کے کبھی رات کر نہیں سکتا
اے حسن زاد، پری روح، نہ اتنا پاس آ کہ
میں اپنے گھر میں تری بات کر نہیں سکتا
تو دعوی دارِ محبت تو ہے مگر یہ بتا
کہاں لکھا ہے کہ تو ہاتھ کر نہیں سکتا
کچھ اور لوگ بھی پیاسے ہیں میری قربت کے
میں ایک تجھ پہ تو برسات کر نہیں سکتا
سفر طویل ہے، دشوار زندگانی کا
یہ دکھ الگ کہ ترے ساتھ کر نہیں سکتا
(محسن ظفر ستی، کہوٹہ)

۔۔۔
غزل


تھا خود سے دور کسی دشت میں پڑا ہُوا میں
تجھے ملا تو محبت سے آشنا ہوا میں
نکل پڑا ہوں کسی بے نشان منزل کو
فنا کے دشت میں سائے کو ہانکتا ہوا میں
تمھیں خبر بھی ہے کن جنگلوں میں جا نکلا
تمہارے بارے پرندوں سے پوچھتا ہوا میں
خود اپنے آپ کو رستے میں بھول آیا ہوں
تمہارے نقشِ کفِ پا کو ڈھونڈتا ہوا میں
اسے بچاؤ یہ ساحل پہ چیختی ہوئی وہ
مجھے بچاؤ، یہ دریا میں ڈوبتا ہُوا میں
پھر ایک موڑ پہ آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھا
کہ چل پڑا تھا یونہی خواب دیکھتا ہوا میں
وہ لمحہ لمحہ زمانے کی بھیڑ میں بے خود
یہ دورِ حبس کے صدمات جھیلتا ہوا میں
(ذیشان مرتضی، پہاڑ پور، ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل


حسنِ دل کش کے مضافات میں رہنے والے
ہم کہ بے وجہ فسادات میں رہنے والے
دیکھ ٹِپ ٹِپ کے ترنم کا مزہ لیتے ہوئے
کتنے خوش ہیں میاں برسات میں رہنے والے
ہم اسے چاہنے والے تھے، مگر، یاد آیا
اپنے آبا تو تھے اوقات میں رہنے والے
اتنے مانوس ہیں تاریکیِ شب سے یارو
دن نکلنے ہی نہ دیں رات میں رہنے والے
آنکھ جو دیکھتی ہے، سچ ہو، ضروری تو نہیں
ساتھ ہوتے ہیں کہاں ساتھ میں رہنے والے
پیار سے توبہ کی، آزاد ہوئے، صدقہ دیا
پھر ہنسے، ہجر کے خدشات میں رہنے والے
(محمد مبشر میو، سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل


دستکیں رات بھر کوئی دیتا رہا
تیز طوفان میں کون در کھولتا
دور اپنوں سے پردیس میں، اجنبی
سارا دن عید خود سے ہی ملتا رہا
زلف ناگن کہو، آنکھ تھی مے کدہ
کوئی ڈستا رہا، کوئی پیتا رہا
شاہ کے سامنے سر سبھی جھک گے
ایک باغی کا سر زینتِ دار تھا
زندگی بھی ہے زنجیر ہی کی طرح
توڑ کر خود بخود کون ہو گا رہا
(انور ندیم علوی، نواب شاہ)

۔۔۔

غزل


تیری یادوں کا سلسلہ ہوتا
ساتھ میرے بھی قافلہ ہوتا
میرے جتنا قریب آتا تُو
یار اتنا ہی فاصلہ ہوتا
اْس کی یادیں اسی کو دے دیتا
دوسری بار گر ملا ہوتا
واپسی پر مجھے جو مل جاتا
میرے لب پہ بھی نہ گلہ ہوتا
تُو وفا میں جو ٹاپ کرتا اگر
عشق مکتب میں داخلہ ہوتا
(عمران اختر القادری، لاہور)

۔۔۔
’’ماہ رُو‘‘


تو دریچوں سے آتی ہوئی روشنی
ماہ رو
تیری نظمیں سوالات کرتی ہوئیں
رنگ بھرتی ہوئیں
تیری آواز میری سماعت میں رس گھولتی
جیسے بربط کوئی گود میں رکھ کے فطرت میں کھویا ہوا
گیت گاتے ہوئے
اور بھٹکے ہوئے ان پرندوں کو رستہ دکھاتے ہوئے
شام کے بعد خیموں میں جلتا دیا
تو حقیقت کوئی
ڈھونڈنے میں جسے اک زمانہ لگے
تیرا احساس آنکھوں میں خوابوں کا جھرمٹ
جنہیں دیکھ کر ایک مردہ بدن سانس لینے لگے
تو سمندر ہے
جس کے لیے سارے بھٹکے ہوئے دریا
اپنے کناروں سے باہر تری جستجو میں رواں
ایک حیرت کدہ
تیرا چہرہ وہ چہرہ
جسے دیکھ کر
کتنی صدیوں سے لپٹے ہوئے گرد سے آئنے صاف ہونے لگے
ساز بجنے لگے
وجد میں قافلے
راہ بھولے ہوئے سارے ملنے لگیں
جن کو تو مل گیا
خود سے ملنے لگے
رقص کرنے لگے
ماہ رو
(ماہ رخ علی ماہی، کراچی)

۔۔۔

’’وہ سُندر آفریں لڑکی‘‘
اترتے بادلوں کے جھنڈ میں تنہا کھڑی لڑکی
حسیں خوابوں میں کھوئی، مسکرا کرآنکھ اٹھاتی ہے
سویرا ہے! اندھیرا ہے! بھلا کیا ہے!
سہیلی مسکراتی ہے
وہ سمجھی ہے کہ بادل آفیت کا سائباں ٹھہرے
وہ سمجھی ہے کہ بادل ہیں تو راحت ہے
مگر اس نے نہیں دیکھا
اُڑے بادل کی نُکر کا کنارا کتنا کالا ہے
وہاں قسمت کی بڑھیا منتظر ہے
کب چھوئے گڑیا!!
حسیں بادل کی صورت پر سہیلی مسکراتی ہے
اڑے بادل کے ٹکڑوں کو ذرہ سا گدگداتی ہے
سہیلی مسکراتی ہے
تو سب جانب اُڑے پنچھی یکایک لوٹ آتے ہیں
سہیلی کیا ہوا جگنو!!!!
کہاں سے کھینچ لائے ہو اندھیرا اس قدر گہرا!
وہ جگنو صفت سی لڑکی بہت مغموم بیٹھی ہے
کہ بادل کو چھوا کیوں کر!
وہ قسمت کی کڑی بڑھیا سمیٹے جائے ہے بادل
سراسر بڑبڑاتی ہے۔۔۔ بڑی آئی
بڑی آئی۔۔۔ چلو بھاگو۔۔۔ بڑی آئی
یہاں پر سُکھ نہیں ممکن۔۔۔۔ چلو بھاگو
محبت سے بھرے بادل یکایک زہر بھرتے ہیں
برستی ہے سیاہ بارش کہ رستہ پھر نہیں دکھتا
وہ سندر آفریں لڑکی گری کالے سمندر میں
کہ پھر وہ مل نہیں پائی
نہ اُس کی آہ ہی آئی
وہ سُندر آفریں لڑکی
(فائزہ صابری نوا، لاہور)

۔۔۔

جب سے اک شخص میرے دھیان میں ہے
کتنی خوش بُو مرے مکان میں ہے
٭٭٭
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوش بُو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
٭٭٭
محبت ایک خوش بُو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا
٭٭٭
اب قفس اور گلستاں میں کوئی فرق نہیں
ہم کو خوش بُو کی طلب ہے یہ صبا جانتی ہے
٭٭٭
وہ تو خوش بُو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے
دل کو کیوں ضد ہے کہ آغوش میں بھرنا ہے اسے

آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوش بُو کا سفر جاری ہے
٭٭٭
ایک خوش بُو سی ابھرتی ہے نفس سے میرے
ہو نہ ہو آج کوئی آن بسا ہے مجھ میں
٭٭٭
حسن یوں عشق سے ناراض ہے اب
پھول خوش بُو سے خفا ہو جیسے
٭٭٭
پھول کی خوش بُو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنک
کون سی شے ہے جو تیری خوش بیانی میں نہیں
٭٭٭
میں جسے ڈھونڈنے نکلا تھا اسے پا نہ سکا
اب جدھر جی ترا چاہے مجھے خوش بُو لے جا
٭٭٭
مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوش بُو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
٭٭٭
خوابوں کی طرح آنا خوش بُو کی طرح جانا
ممکن ہی نہیں لگتا اے دوست تجھے پانا
٭٭٭
جو یادِ یار سے گفت و شنید کر لی ہے
تو گویا پھول سے خوش بُو کشید کر لی ہے
٭٭٭
خوش بُو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
٭٭٭
رنگ خوش بُو اور موسم کا بہانا ہو گیا
اپنی ہی تصویر میں چہرہ پرانا ہو گیا

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔صفحہ کوچۂ سخن ، روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) ، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچیemail:[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔