مسکراہٹ

شاہد سردار  اتوار 2 دسمبر 2018

کیا ہم ہنسنا، مسکرانا اور خوش ہونا بھول چکے ہیں؟

یہ آج کا ہمارا سب سے اہم معاشرتی یا سماجی سوال ہے۔ مشکلات اور مسائل تو پہلے بھی تھے لیکن کبھی کبھی ہنسی اور قہقہے کی آواز سنائی دے جاتی تھی لیکن اب تو جیسے ہرکوئی تفکرات کے سمندر میں غرق ہے۔ شاید ایک اعتبار سے یہ لوگ حق بجانب بھی ہیں۔ پاکستان کی 22 کروڑ آبادی کا مشکل سے ایک یا ڈیڑھ فی صد ہوگا جس نے ہنسی خوشی اور قہقہوں پر اجارہ داری حاصل کر رکھی ہے۔

ہر دور کے حکمران کے زمانے میں عام لوگوں کے لیے مشکلات اور مسائل کے انبار میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ حالات نے عام انسانوں کو حد درجہ متاثرکیا ہے، حالانکہ ہر ملک کا متوسط طبقہ ہی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن مہنگائی، بے روزگاری اور حکومت کی بے نیازی نے اس ریڑھ کی ہڈی پر سب سے زیادہ ضرب لگائی ہے اور جب چوٹ یا ضرب کاری ہو تو مسکرانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہنسی اور مسکراہٹ انسانوں کے لیے زیور اور زیبائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسکراہٹ فاصلوں کو کم کرکے ماحول کو پر لطف اور دوستانہ بنا دیتی ہے اور اجنبی فضا میں بھی ایک دم مانوس سی روشنی پھیل جاتی ہے۔ مسکراہٹ کی لابی ہونٹوں پر سج جائے تو بڑے سے بڑا دکھ جھیلنا آسان ہوجاتا ہے، مسکراہٹ ٹیڑھی بھی ہو تو رستہ سیدھا کردیتی ہے۔ مسکراہٹ نہ صرف انسان کے چہرے کو جگمگادیتی ہے بلکہ پورے ماحول میں اُجالا اور شگفتگی بکھیر دیتی ہے۔ مسکرانے کے لیے گوکچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا ۔ اس کے لیے صرف زندہ دلی اور حاضر جوابی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس ضمن میں 27 دسمبر 1941 کا ایک واقعہ پیش نظر ہے، اس دن عیدالاضحی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو عید کی نماز کے بعد ہجوم نے گھیر لیا۔ وہ سب لوگ ان سے ہاتھ ملانے یا ان سے عید ملنے کے لیے بے تاب تھے اور قائد اعظم اس طرح کے ہجوم سے گھبراتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے سب سے ہاتھ ملانے کے بجائے اسٹیج پر پہنچا ضروری سمجھا اور پھر وہ مائیکرو فون کی طرف بڑھے۔

انھوں نے مائیکرو فون سنبھال کر کہا ’’میرے دوستوں! آپ سب کو عید مبارک ہو۔ اس کے جواب میں مجمعے نے بیک آواز کہا ’’آپ کو بھی عید مبارک ہو‘‘ قائد اعظم مسکرائے اور بے تکلفانہ انداز میں سب سے مخاطب ہوکر کہا ’’میں آپ کے جذبات کی قدرکرتاہوں اور چاہتاہوں کہ ہر شخص سے ہاتھ ملائوں لیکن اگر میں سب سے ہاتھ ملائوںگا تو مجھے دونوں ہاتھ اپنے پہلے چھوڑکر جانے پڑیںگے۔ کیا آپ یہ پسند کریںگے کہ آپ کا قائد ہاتھوں سے محروم ہوجائے؟‘‘ سب نے چلاکر کہا ’’ہرگز نہیں ہم تو آپ کو معمولی تکلیف میں بھی نہیں دیکھنا چاہتے‘‘ قائد اعظم نے مسکراکر دونوں ہاتھ ہلاکر کہا ’’شکر ہے کہ میں یہاں سے اپنے دونوں ہاتھ صحیح سلامت لے کر جارہاہوں۔ آپ سب کا شکریہ اور عید مبارک۔‘‘

قائد اعظم عام طور پر بہت سنجیدہ رہتے اور بہت ہی کم مسکراتے تھے، عام طور پر قائد اعظم جلسہ عام میں ہی مسکراتے تھے لیکن بہت ہی کم۔ ان میں حسِ مزاح کی حس بہت زیادہ تھے۔ ایک بار قائد اعظم مسلم لیگ کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے ہر طرف سناٹا تھا۔ انگریزی نہ سمجھنے والے بھی خاموشی سے ساکت ہوکر ان کی تقریر سنا کرتے تھے یہ ان کی آواز کا رعب و دبدبہ تھا یا بولنے کا انداز جو سب کو مسحورکردیتا تھا۔ اچانک مولوی فضل حق جو مسلم لیگ کے ایک ممتاز لیڈر اور بنگال کے وزیراعلیٰ تھے پنڈال میں داخل ہوئے سب کی نظریں مولوی فضل حق کی جانب اٹھ گئیں۔ انھیں شیر بنگال کہاجاتا تھا کیونکہ وہ بہت نڈر اور بے باک تھے۔ قائد اعظم اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور کہا ’’شیر آگیا ہے اس لیے میمنے کو چھپ جانا چاہیے۔ یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ گئے جب مولوی فضل حق اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو قائد اعظم نے کھڑے ہوکر دوبارہ تقریر شروع کردی۔

مسکراہٹ کے حوالے سے ایک واقعہ امریکا کے جنرل آئزن پاورکا بھی یاد آرہا ہے۔ وہ ایک کامیاب اور فتحیاب فوجی کمانڈر تھے، دوسری جنگ عظیم میں انھوں نے نمایاںکارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ایک فوجی تقریب میں جنرل آئزن پاور تقریر ختم کرکے جب ڈائس سے نیچے اترے تو ان کا پیر قالین میں الجھ گیا اور وہ سنبھل نہ سکے اور سیڑھیوں سے لڑھک کر فرش پر گرگئے۔ احترام اور رعب کے باوجود تمام حاضرین بے ساختہ  ہنس پڑے۔

جنرل آئزن ہنسنا تو درکنار بہت کم ہی مسکراتے تھے لیکن اس موقعے پر انھوں نے کسی شرمندگی یا پریشانی کا اظہار نہ کیا اور بے اختیار مسکرادیے انھیں مسکراتے دیکھ کر فوجیوں نے خوش ہوکر اپنی ٹوپیاں ہوا میں اچھال دیں۔ جنرل آئزن نے بھی مسکراکر اپنی ٹوپی ہوا میں اچھالی اور فوجیوں کی خوشی میں شریک ہوگئے۔ ایک ہی لمحے میں ماحول بدل گیا اس واقعے نے تمام ماتحت فوجیوں کو جنرل کا گرویدہ کر دیا اور انھوں نے سب کا دل جیت لیا۔

مذکورہ بالا دونوں مثالیں صرف اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ مسکراہٹ انسان کی سجاوٹ بلکہ اس کا زیور ہوتی ہے کیا آپ میں سے کسی نے کبھی کسی جانور کو بھی مسکراتے ہوئے دیکھا ہے؟ جی نہیں۔ دراصل یہ خوبی اﷲ تعالیٰ نے صرف انسان ہی کو عطا کی ہے۔ معدودے چند لوگ ایسے ہیں جو مسکراتے ہیں تو لگتا ہے ساری کائنات مسکرارہی ہیں۔ افسوس آج کے دور میں مسکرانا دہشت گردی کے خاتمے کی طرح مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

یقین کیجیے مسکرانے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا ، البتہ چہرے کی رگیں اور عضلات میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے۔ نہ صرف مسکراہٹ سے مسکرانے والے کا چہرہ کھل اٹھتا ہے بلکہ محفل میں موجود ہر شخص مسکرانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ باہمی کشیدگی دور کرنے، ماحول کو سازگار بنانے یا اسے پر سکون کرنے کے لیے بھی مسکراہٹ، ایک فطری، قدرتی اور نفسیاتی وجہ ہے۔ مہذب ملکوں میں مسکرانا ان کی عادت میں شامل ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ہنسنے مسکرانے سے کوسوں دور چلے جارہے ہیں اور اضطراب، فکر، ڈپریشن اور قنوطیت کے سمندر میں دھنستے جا رہے ہیں۔ نیم کے درخت ہمارے ہاں سے کم ہوتے جا رہے ہیں لیکن گھروں میں، دلوں میں لہجوں میں کڑواہٹ بڑھتی جارہی ہے، مسکراہٹ کی جگہ سختی، تنائو اور کرختگی نے لے لی ہے۔ زبان سے مٹھاس گم ہورہی ہے لیکن جسموں میں شوگر بڑھتی جارہی ہے۔

مسکراہٹ انسان کے جسم کے لیے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی کہ انسانی جسم کے لیے لباس کی اولیت ہے۔ ہمارے گرد و پیش پر نگاہ کی جائے تو سبھی ہمیں مسکراہٹ سے محروم ہی نظر آئیںگے۔ انسانی شخصیت کا ایک بہت ضروری حصہ ہونے کے باوجود ان کے چہروں پر مسکراہٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا جو لباس کا ایک ضروری حصہ ہوتی ہے۔ ہر چہرہ اضطراب، سوچ و فکر سے بھرا نظر آتا ہے۔

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ مسکراہٹ اگرکہیں بکتی تو دنیا میں اکثر لوگ دکھی نہ ہوتے اور ہنسنا مسکرانا یا پرسکون رہنا کسے اچھا نہیں لگتا، کون نہیں چاہتا کہ وہ شاد نہ رہے۔ خوشیاں اس کے ہمرکاب نہ ہوں لیکن ان کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجا رہا ہے اور ہر انسان اپنے  گرد وپیش کے مسائل اور مصائب کی دلدل میں دھنستا ہی جارہاہے،  تاہم پھر بھی، ہاں پھر بھی ہم یہی کہیںگے کہ ہم اور آپ سبھی اپنی مسکراہٹ سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور دوسروں کے دل اگر جیت نہیں سکتے تو اس میں تھوڑی سی جگہ ضرور بناسکتے ہیں۔ ہمیں مسکراہٹ کو اپنانا چاہیے کیونکہ اس میں کوئی نقصان نہیں فائدہ ہی فائدہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔