حلقہ یاراں کے سبب

نسیم انجم  اتوار 2 دسمبر 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

دربار شاہی میں وزرا اور امرا موجود تھے۔ اسی اثنا میں بادشاہ سلامت تشریف لائے، ان کے ہاتھ میں ایک بیش بہا ہیرا تھا۔ اس نے وہ ہیرا درباریوں کو دکھایا اور اس کی قیمت دریافت کی، سب نے اسے بے حد قیمتی اور انمول بتایا، بادشاہ نے چند لمحے کے بعد حکم دیا کہ اسے توڑدو۔ دربار میں موجود لوگ حیران و پریشان ہوگئے کہ آخر بادشاہ اسے توڑنے کی بات کیوں کررہا ہے؟

بادشاہ نے باری باری سب سے کہا کہ اس ہیرے کے ٹکڑے ٹکڑے کردو لیکن ان سب نے عقل کے گھوڑے دوڑالیے، فراست اور غور و فکر کے بعد تمام درباریوں کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ اسے کسی قیمت میں نہیں توڑیںگے کہ ایسا کرنے سے بادشاہ سلامت کا بہت بڑا نقصان ہوگا اور ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ یہ ہیرا بادشاہ سلامت کے خزانے میں اضافے کا سبب بنے گا، بادشاہ نے اپنے مصاحبوں کی فہم و فراست کی تعریف کی اور پھر آخر میں بادشاہ سلامت جن کا نام محمود غزنویؒ تھا انھوں نے یہ ہیرا اپنے وزیر با تدبیرایاز کو دیا اور پوچھا کہ اس کی کیا قیمت ہوگی۔

ایاز نے عرض کیا آقا! میرے ہر قیاس سے اس کی قیمت بہت زیادہ ہے پھر بادشاہ نے وہی حکم دیا جو اس سے پہلے وزرا کو دیتے رہے تھے اور وزرا نے حکم کی تعمیل کی لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا۔ ایاز لمحہ بھر میں سلطان کا حکم بجالایا اور ہیرے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ ایاز کے اس عمل نے دربار میں موجود خواص کو حیران و پریشان کردیا اور سب چیخ اٹھے کہ تو نے نادر و نایاب ہیرا توڑ ڈالا، تو نے سلطان کے نقصان کا ذرا بھی خیال نہ کیا، ان سب کی لعن طعن سننے کے بعد ایاز نے کہاکہ میں تم سب سے ایک سوال کرتاہوں۔ ذرا غور و فکر کرکے بتائو کہ موتی کی قیمت زیادہ ہے یا شاہی حکم کی، تمہاری نظر میں سلطانی فرمان کی ذرا برابر اہمیت نہیں ہے۔ اتنا کہناتھا کہ درباریوں کے سر شرم سے جھک گئے۔

سلطان نے ان سب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ تم نے ایک پتھر کے مقابلے میں میرے حکم کی نافرمانی کی یہ کہہ کر ان سب کی گردنیں اڑانے کا فرمان جاری کردیا۔ ایاز یہ بالکل نہیں چاہتا تھا کہ ان کی کم عقلی اور کوتاہ بینی کی وجہ سے ان کی جانیں جائیں۔ لہٰذا بادشاہ کے حضور ان کی تقصیر معاف کرانے کے لیے ہاتھ باندھ کر درخواست کی کہ آپ انھیں معاف کردیجیے کہ یہ اپنی غلطی سے آگاہ ہوگئے ہیں۔ بادشاہ نے ایاز کا مان رکھا اور انھیں معاف کردیا۔

آج ہمارے اپنے معاشرے میں بھی ایسا ہی حال ہے، حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے وزرا اور مشیر سلطنت ہر غلط بات کو صحیح کہتے رہے اس طرح یہ ہوا کہ سابقہ مقتدر حضرات نے خود بھی فائدے حاصل کیے اور اپنے ماتحتوں کو بھی مواقع دیے ان کے اس عمل نے ملک کا خزانہ خالی کردیا اور ذاتی تجوریوں کو بھر دیا اور کشادہ بھی کردیا لیکن مقام عبرت یہ ہے کہ آج دولت، پیسے کے انبار انھیں جیلوں اور مقدموں سے نہ بچا سکے، پیسے کی محبت انسان کو ذلت کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے اور کردار کی پستی رسوائی کا باعث بنتی ہے۔ روپے پیسے سے محبت کرنے والے فرعون کے نقش قدم پر چلتے ہیں اس کے انجام سے بے خبر ہوکر اگر عبرتناک انجام پر نظر ہوتی تو حالات ضرور مختلف ہوتے۔

انسان کسی نہ کسی لمحے اپنی اصلاح کرنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے لیکن وقتی فائدے اور حصولِ دنیا کی طلب اس فہم و ادراک سے دور کردیتی ہے۔ ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بن جاتا ہے اس کا حساب طویل تر اور عذاب سخت تر ہوگا اور جو شخص امیر نہ بنے کا حساب نسبتاً آسان اور عذاب ہلکا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکام کو مسلمانوں پر ظلم کا موقع نسبتاً زیادہ ملتا ہے اور جو شخص مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے وہ عہد خداوندی کو توڑتا ہے، اہل ایمان اللہ کے ہمسائے اور اس کے بندے ہیں۔ تم میں سے کسی کے ہمسائے کی بکری یا اونٹ کو آفت پہنچے تو وہ ساری رات پریشانی میں گزارتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے میرے ہمسائے کی بکری، میرے ہمسائے کا اونٹ، یقینا اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کی تکلیف پر غضب ناک ہو۔

حضرت رافع طائی رحمۃ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے یہ بھی مجھ سے کہاکہ جو آج تمہیں یہ امارت ٹھنڈی نظر آتی ہے بہت جلد یہ پھیل جائے گی یہاں تک ان لوگوں کے ہاتھوں لگے گی جو اس کے اہل نہیں ہوںگے، پاکستان کے حالات تو تقریباً ایسے ہی رہے، اہل لوگوں کو بار بار اقتدار کا موقع ملا، لیکن راست بازی اور اپنے فرائض کی ادائیگی سے محرومی کے باعث اس انجام کو پہنچے کہ آج محل سے جیل پہنچ گئے ہیں زندگی کا طویل عرصہ عیش و عشرت میں بسر کیا اور ایام آخر میں خاک چھاننا مقدر بنا۔ نواز شریف جیل میں تھا تو وہ سخت بیمار پڑ گئے اور اسپتال میں داخل ہونا پڑا اور اب شہباز شریف تکلیف میں مبتلا ہیں اور ان کے سینے میں گلٹیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ گردہ بھی متاثر ہوا ہے اس حوالے سے ڈاکٹروں کا تشویش میں مبتلا ہونا غلط بھی نہیں ہے کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا۔

اللہ ان پر اپنا کرم کرے اور صحت کلی عطا فرمائے لیکن یہ بھی حق ہے جو لوگ زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہی با مراد ہوتے ہیں، ان کو اپنی اوقات میں رہنا ہی زیب دیتا ہے، نواز شریف کی جب شادی ہوئی تو ایک چھوٹا اور معمولی سا گھر تھا۔ اسی گھر میں رہنے والے میاں نواز شریف کو تین بار اقتدار ملا لیکن وہ اتنی بڑی کامیابی کو سنبھال نہ سکے اور اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے وسیع و عریض جگہ پر اپنا محل بنایا اور بے شمار ملازمین رکھ لیے اور جب گھر سے نکلتے تو ایک بڑے قافلے کے ساتھ قیمتی گاڑیاں، فورس کے نوجوان، گارڈز اور ان کے حواری  ، یہ نمائش کسی طرح بھی محب وطن اور ملک کے لیڈر کو ہرگز زیب نہیں دیتی ہے، غریب گھنٹوں بس اسٹاپ کھڑا بس کا منتظر رہتا ہے اور گھنٹوں میں آنے والی بس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی تو وہ بے چارہ دن بھر کا تھکا مارا جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتا ہے اور بلا خوف و خطر بس کی چھت پر سوار ہوجاتا ہے۔

گزشتہ سالوں میں خصوصاً جب آصف علی زرداری کی حکومت تھی ایسے مناظر ہر اسٹاپ پر نظر آتے تھے، بعد میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی، میاں نواز شریف وعدہ کرتے رہے، سندھ کے حکمران بھی اپنی رعایا کے حقوق سے غافل رہے ۔آج حالات بدل گئے ہیں۔

ضیا دور کے وزیر تجارت زاہد سرفراز کے بیان کے مطابق کہ ایک بار انھیں پنجاب کے ایک اعلی افسر نے ناشتے پر مدعو کیا اور انھیں انار کا جوس پینے کے لیے اصرار کیا اس کے بعد انھوں نے ایک لڑکے کو آواز دی، وہ لڑکا اعلی افسر کے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھا لیکن جب یہ آواز اس کے کانوں میں پڑی، زاہد سرفراز کے لیے انار کا جوس لائو، یہ وہی لڑکا تھا جو اس ملک کا وزیراعظم بنا۔

اس موقع پر وزیر با تدبیر ایاز کا ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آگیا کہ اس نے سلطان محمود غزنوی کی عنایات اور مہربانیاں پاکر اپنی غریبی کے زمانے کے کپڑے اور جوتے ایک کمرے میں بند کردیے تھے، جسے وہ ہر روز جاکر دیکھتا تھا کہ کہیں وہ اپنے اوقات نہ بھول جائے، دانا اور دیوانے میں بہت فرق ہوتا ہے اور نادان دوست خود بھی خسارے کا سودا کرتا ہے اور اپنے حلقہ یاراں کو بھی پاتال میں گرا دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔