تجاوزات

جاوید قاضی  اتوار 2 دسمبر 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

قاہرہ سے کراچی تک بڑے بڑے شہروں میں تجاوزات ہٹانے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔کبھی کبھی ان تجاوزات کو ہٹانے کا مطلب تاریخ کو مدہم کرنے کے برابر ہوجاتا ہے کیونکہ یہ تجاوزات اتنی ہی پرانی ہوتی ہیں جتنی کہ اس جگہ کی تاریخ ۔

دنیا میں لوگوں کی ہجرت ہوتی ہے ، بیروزگاری اور فاقہ کشی کے لمحات بھی آتے ہیں لیکن پھر جب ان کو روزگار بھی نہ ملے اور معاوضہ بھی ادا نہ ہو اور جب انصاف اور اصول کے نام پر انصاف اور اصول کی نفی ہو، عدالت کہے کچھ اور مقننہ کرے کچھ، قاہرہ کا تحریر اسکوائر اورہماری ایمپریس مارکیٹ میں یوں توکوئی نسبت نہ تھی، مگر تحریر اسکوائر قاہرہ کے مجموعی پلان میں تصدیق شدہ حصہ نہ تھا، جو عمارتیں تحریر اسکوائرکے ارد گرد موجود تھیں وہ دہائیوں قدیم تھیں، مگر وہ ماسٹر پلان میں نہ آتی تھیں، لہذا وہ مسمار ہو رہی ہیں اور اسی طرح جیسے قاہرہ کی اپنی تاریخ مسمار ہو رہی ہے، یہی صورتحال سعودی عرب کے دو بڑے مقدس شہروں کی بھی ہے اور اسی طرح تجاوزات کے زمرے میں اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے۔

سندھ سے جب ہندو ہجرت کر رہے تھے تو لاکھوں ایکڑ زمین ویران ہو گئی ۔ زمین پر ٹائٹل ہجرت کرنے والے ہندوکا تھا مگر اس کو آباد کوئی اورکر رہا تھا۔ ان زمینوں پر جوکھیتی باڑی کر رہے تھے،ان کا کہنا تھا کہ یہ زمین ریاست کہتی ہے کہ ہماری ہے وہ بھلے ان کی ہو مگر ہمیں یہ زمین کھیتی باڑی کے مقصد کے لیے ’’مقادے‘‘ پر، یوں کہیے کرائے پر الاٹ کی جائے۔ میرے والد، حیدر بخش جتوئی ، شیخ عبدالمجید سندھی، محمودالحق عثمانی، مولانا بھاشانی، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید یہ سب براہ راست اور بالواسطہ سندھ ہاری کمیٹی سے وابستہ تھے۔

میرے والد نے اس تحریک کو چلانے میں پہل کی پھر یہ تحریک زور پکڑگئی اور آہستہ آہستہ سب شریک ہوتے رہے۔ 1919ء سے لے کر 1957ء تک یہ زمین ان دہقانوں کے پاس الاٹ رہی ۔ میرے والد لکھتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب سندھ کے وڈیرے اپنے دہقانوں کو خوشحال ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے پھر سندھ میں وڈیرا شاہی کمزور ہونے لگی کیونکہ وڈیرے ان زمینوں پر قبضہ کرناچاہتے تھے۔ اس وقت وفاقی حکومت جو کہ کراچی میں بیٹھی تھی اس کا موقف یہ تھا کہ یہ زمینیں ہجرت کر کے آنے والے مہاجروں کو دی جائیں ۔

سندھ کے وڈیروں نے حکومت کے اس مؤقف کی حمایت کی لیکن وہ اس چیزکے برخلاف تھے کہ یہ زمینیں کرائے پر ان کے دہقانوں کے پاس رہیں اور پھر یوں 1957ء میں آٹھ سال بعد یہ الاٹمنٹ کینسل ہوئیں ۔ میرے والد نے ہاری الاٹی تحریک کے نام پر جدوجہد کی، جن دہقانوں کو بے دخل کیا گیا ،گھروں سے نکالا گیا ، انھوں نے میرے والد کی رہنمائی میں رضاکارانہ طور پرگرفتاریاں پیش کیں۔ یہ تحریک ہماے گائوں ہالانی، محراب پور،کنڈ یارو اور دوسرے شہروں سے شروع ہوئی ۔

سیکڑوں دہقان گرفتار ہوئے یہ سلسلہ رواں رہا اور ہوتے ہوتے ایوب خان کی مارشل لاء لگنے سے پہلے تقریبا پندرہ ہزار دہقان بیل گاڑیوں اور پیدل چل کر شہر کراچی میں داخل ہوئے ، لیاری کے اوپن گرائونڈ پر تین دن خیمہ زن ہوئے جلسے ہوئے مگر پھر مارشل لاء لگ گیا۔ میرے والد صاحب جیل چلے گئے اورسندھ کے دیگر لیڈران جو سندھ میں وڈیرہ شاہی کے اختتام کا خواب دیکھ رہے تھے وہ خواب ایک دفعہ پھر ٹوٹ گیا۔

یہ غریب لوگ جوگلی محلوں میں فروٹ کی ریڑھی یا پتھارے لگا کر ایک درخت کے سائے میں چھوٹی سی جگہ پر اپنے لیے روزی روٹی کا ذریعہ تلاش کرتے ہیں، اگر ان چیزوں کو تجاوزات کا نام دیا جائے تو ایسی تجاوزات کو ہم کیا کہیں گے جو ایک مافیا سیکڑوں ایکڑ زمینیں ہتھیا لے وہ تو تجاوزات ہیں مگر چارگز زمین کا ٹکڑا اور ایسے کئی ٹکڑے ایک غریب انٹراپرینیئر ہتھیا لے تو اس کو ایک آنکھ سے دیکھنا انصاف نہیں نا انصافی ہوگی۔

ایمپریس مارکیٹ ایک نئی ثقافت بن کر ابھری تھی۔ آج ان کو تجاوزات کی مد میں ہٹانے سے ایک لاکھ خاندان روزگار سے محروم ہوئے ان کے املاک کانقصان ہوا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے پچاس سال میں ریاست کہاں تھی، لیکن جہاں ریاست ہوتی ہے وہاں anglo saxon law ، یہ کہتا ہے کہ adverse possession ایک قانونی عمل ہے۔ خیر اس کا اطلاق تو نہ ہوا، مگر ہماری محترم کورٹ کواس کی تشریح ،غریبوں کے تجاوزات پر ذرا نرم انداز سے لاگو کرنی چاہیے تھی ۔ان کے بحالی روزگارکے لیے ریاست کے پاس کوئی پلان یا پھرکوئی معاوضہ ہونا چاہیے تھا۔ یہی اصول اور انصاف کا تقاضا ہوتا ہے، جو لوگ برسوں سے کاروبار کر رہے ہیں یا وہاں رہائش پذیر ہیں، وہ اگر ناجائز ہیں تو حکومتی اہلکاروں کی آشیرباد سے ہی یہ کام ہوا ہے۔ اگر حکومت اپنے اہلکاروں کو کوئی سزا نہیں دیتی تو پھر انھیں بھی سزا نہیں ملنی چاہیے۔

گلشن اقبال ، ملینیم مال کے سامنے چند باربی کیوپھٹے والے ہوٹل تھے جہاں سے کم ازکم پانچ سو خاندانوں کی روزی جڑی ہوئی تھی ، اس زمین کے لیے کنٹونمنٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ زمین ان کی ہے جب کہ ریلوے ہائوسنگ سوسائٹی کہتی ہے کہ یہ زمین ان کی ہے۔اس زمین کے ماسٹر پلان میں یہ زمین نہ پارک ہے اور نہ ہی ساتھ ریلوے لائن لگتی ہے۔ اس پرسندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناعی بھی ہے کہ ان ہوٹلوںکے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے تا وقتیکہ فریقین اپنا جواب داخل کریں اورکورٹ کو مطمئن کریں ۔ ہائی کورٹ نے اپنی آئینی حدود میں تو یہ بھی کہا کہ اگرکوئی قدم اٹھایا جائے تو پورے قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد اٹھایا جائے اور جب تک پٹیشنرکا کیس عدالت میں چل رہا ہے ایسے اقدام سے اجتناب برتا جائے۔

آج ان ہوٹلوں کو املاک کو نقصان پہنچایا گیا، بغیرکسی نوٹس کے ان ہوٹلوں کو مسمارکیا گیا،جس کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی تنخواہوں پر کام کرنے والے ان ہوٹلوں کے ملازمین بیروزگار ہوگئے۔ یہ ہے ہماری عدالتی آرڈرکی غلط تشریح جو ہماری مقننہ نے کی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقننہ نے جو زیادتی کی ہے،کیا اس کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ کوکوئی کمیشن بنانا چاہیے۔

تجاوزات کے ہٹانے کے نام پر مجھے یقین ہے ایک اور دکان لگے گی اور پھر یہی تجاوزات ہوں گے،جب حکمران کمزور ہوتے ہیں تو قانونی عمل بھی کمزور ہو جاتا ہے۔

ملینیم مال کے سامنے یہ باربی کیو ہوٹلز جو پانچ سو لوگوں کو روزگار فراہم کرتے تھے ۔ پچھلے چھ سال سے یہی کام کرتے تھے،انھوں نے اس جگہ کو خالی کرنے کے لیے کچھ وقت مانگا تھا۔اسی طرح بہت سے پٹھے داروں اور دکانداروں نے بھی ایسے ہی کچھ وقت کی مہلت مانگی ہوگی تاکہ وہ اپنی روزی روٹی کا بہتر بندوبست کرسکیں، لیکن اچانک ایک آفت آئی جو ان پر ٹوٹ پڑی ۔ اب حکومت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے کہ ان بیروزگار افراد کا کیا ہوگا ؟ ان کے خاندانوں کی کفالت کون کرے گا، بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافے کے اس طوفان کوکس طرح روکا جائے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔